میں آج ہفتے کی شام ڈینگی کے بخار کا زور ٹوٹنے کے بعد اپنے کمرے میں موجود ہوں اور میرے کمرے میں ایک مرتبہ پھر مچھر بھنبھنا رہے ہیں۔ مجھے غلطی کا احساس ہو رہا ہے کہ آج دوپہر گولف اینڈ گیریژن کلب میں ایک شادی میں شرکت کے بعد واپسی پرپھر تھکاوٹ کا حملہ ہوا یوں کمرے میں مچھر بھگانے والا سپرے نہ ہو سکا۔ کمرے کے باہر لان میں اور سڑک پر بہت سارے درخت ہیں اور علاقے میں ایک مرتبہ پھر مچھروں کی حکمرانی ہے۔ میں خبروں پر نظر ڈالتا ہوں کہ ڈینگی کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے اور مسلسل ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔
لاہور کے ہسپتال مریضوں سے بھر چکے اور اب علاج گھروں پر جاری ہے۔ میں چونکہ خود ڈینگی کو بھگت رہاہوں لہٰذا میں اس تکلیف کو زیادہ بہترجانتا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کئی روز قبل میرے پلیٹ لیٹس انتہائی کم رپورٹ ہونے کے باوجود ان دنوں میں مجھ سے کسی حکومتی محکمے کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، میرے علاقے میں کسی قسم کا کوئی سپرے نہیں ہوا لہٰذا حکومت مچھروں کی ہے، وہ دندناتے اور کاٹتے پھر رہے ہیں۔
مجھے بخار ہونے سے قبل لاہور کے لارڈ مئیرکرنل ریٹائرڈمبشر جاوید سے ملاقات یاد آ رہی ہے جب میں نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ بحال ہوچکے مگر اس کے باوجود لاہور میں گندگی کے ڈھیر ہیں اور ڈینگی پھیلتا جا رہا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ قوانین اور ضابطوں کے مطابق ڈینگی سے محکمہ صحت نے نمٹنا ہے۔ وہ بحال ہونے کے بعد پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے ملاقات کے لئے درخواست کر چکے مگر وہ ملنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ میں ان سے ہنستے ہوئے کہتا ہوں کہ کیا انہوں نے اس ملاقات کے لئے اپنے لیڈر نواز شریف سے پوچھ لیا ہے کہ اس سے پہلے خواجہ احمد حسان جو لاہور کے مئیر کے مضبوط ترین امیدوار تھے عہدے سے اس لئے محروم کر دئیے گئے کہ انہوں نے بطور ناظم داتا گنج بخش ٹاؤن اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے مینارپاکستان میں اجتماع میں بربنائے عہدہ شرکت کر لی تھی۔
میں انہیں لائیٹ موڈ میں بتاتا ہوں کہ انے کے قائدین دل میں کینہ اور غصہ رکھنے میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ وہ جواب میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کی فلاح کے لئے ہر کسی سے ملنے کے لئے تیار ہیں چاہے کوئی انہیں گولی ہی کیوں نہ ماردے۔ لاہوری اس وقت بہت ساری مشکلات کاشکار ہیں اور ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ لاہور سے منتخب وزیر محمود الرشید اور اسلم اقبال کی مصروفیات کا بھی کچھ علم نہیں ہے جبکہ غیر منتخب وزیر یاسمین راشد سے بعد میں لارڈ مئیر کی ملاقات ہوجاتی ہے مگر علم ہوتا ہے کہ اس ملاقات میں لاہوریوں کے لئے کچھ اچھا نہیں ہوتا۔
میرے علاقے میں سپرے کیوں نہیں ہو رہا کیونکہ میرے خیال میں میرے شہر میں حکومت نام کی کوئی شے ہی موجود نہیں۔ میں ٹی وی چینل پر پروگرام کرتا ہوں اور بخار کی وجہ سے جب پروگرام نہیں کرپاتا تو وہاں جناب میاں عمران ارشد باقاعدہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ میری علالت کی وجہ سے پروگرام کی میزبانی کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پنجاب کے نئے بہت ہی ڈیسنٹ اور اعداد و شمار کے ماہر ترجمان جناب حسان خاور نے پروگرام میں تشریف لانا ہوتی ہے مگر وہ پروگرام ڈینگی کی وجہ سے ملتوی ہوجاتا ہے تو ان کا خیر سگالی کا پیغام بھی موصول ہوتا ہے مگراس کے باوجود حکومت کہیں نظر نہیں آتی حالانکہ اس سے پہلے صرف اس بنیاد پر علاقوں میں سپرے ہوجاتا تھا کہ وہاں سے ڈینگی کے مریض رپورٹ ہوتے تھے۔ ا ب حکومت صرف اس امر کا انتظار کر رہی ہے کہ دسمبر شروع ہوجائے، سردی کی شدید لہر آئے اور مچھر مر جائے۔
اس کمی، کوتاہی اور نااہلی کا آغاز کئی ماہ پہلے ہوا جب حکومت نے ڈینگی کے انڈے سے لاروا بننے کا عمل روکنا تھا۔ اس کے لائف سرکل کا وہ کمزور ترین حصہ ہوتا ہے جب اسے توڑا جا سکتا ہے۔ اب ڈینگی مچھر بن کے اڑ چکا اور کسی کے قابو میں آنے والا نہیں سوائے یہ کہ جنگی حالت کا اعلان کر دیا جائے، سپرے کیا جائے اور اسے مارا جائے۔ حکومت کے دو دوٹکے کے رہنما کسی بنیاد ی علم کے بغیر دعوے کر رہے ہیں کہ اب ہم سپرے اس لئے نہیں کر رہے کہ اس سے لوگوں کے گلے خراب ہوں گے۔ عجب جہالت ہے کہ ڈینگی سے لوگ مر رہے ہیں اوریہ لوگوں کے گلے خراب نہیں کرنا چاہتے۔ یہ اس سکھ کی اولاد لگتے ہیں جو کہتے تھے کہ گولی ماتھے کے بیچ میں لگی اور بندہ مر گیا شکر ہے کہ اس کی دونوں آنکھیں بچ گئیں۔
مجھے ڈینگی کی وبا میں جو واحد شے اچھی ملی وہ نوے روپے میں سی بی سی ٹیسٹ ہے جس کا حکم شہباز شریف نے جاری کیا تھا، وہ حکم اب تک موجود ہے اور اس کا غریبوں کو اب تک سہارا ہے۔ میرا گمان ہے کہ اس حکومت کو بعض عدالتی احکامات کا سہارا ہے ورنہ رشوت اور کمیشن کے خوگر فیصلہ ساز اسے تبدیل کر چکے ہوتے جس طرح شوگر کی ایک روپے والی گولی سات سے آٹھ روپوں کی ہوچکی۔ اس وقت میرے شہر میں پیرا سیٹا مول شارٹ ہے اور اس کی وجہ ڈینگی ہے۔ یہ لوگ کمانے کی کوئی جگہ نہیں چھوڑتے چاہے وہ ایوان وزیراعلیٰ ہی کیوں نہ ہو اور چاہے (صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
وہ پبلک سروس کمیشن کی ملازمتیں ہی کیوں نہ ہوں۔ دونوں ہاتھوں سے اور تینوں پہروں میں لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کئے جا رہے ہیں۔ یہ انکشاف بھی لارڈ مئیر کا ہے کہ موجودہ حکمران لاہور کی صفائی پر ایک ارب روپے سے زیادہ کا وہی بجٹ خرچ کر رہے ہیں جو پہلے تھا مگر سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر ہیں۔ پہلے سڑکیں دھلتی تھیں مگر اب وہاں گندگی کے پہاڑملتے ہیں تو یہ اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے کہ کورونا میں کمی کے ساتھ ہی ڈینگی سے زور پکڑ لیا ہے۔ لارڈ مئیر بتا رہے تھے کہ محمود بوٹی پرلینڈ فل سائیٹ کی مینجمنٹ نہیں کی جا رہی، اسے تین برس میں تباہ کر دیا گیا ہے، اس میں مختلف حصوں میں کوڑے کی ڈبل مقدار ڈمپ کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے اس کا انفراسٹرکچر کریک ہو گیا ہے۔
کوڑے کے ڈھیروں سے زہریلی گیس والے پائپ تباہ ہوچکے ہیں اور دوسری طرف کوڑے کے اندر سے زہربھرا کیمیکل زیر زمین پانی کا حصہ بن رہا ہے اور یوں دو برس کے اندر اس کے ارد گرد گنجان آبادیوں ہی نہیں بلکہ پورے لاہور میں خطرے کی گھنٹی بج سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ سب باتیں کسے بتا رہے ہیں۔ لاہور میں حکومت نام کی شے کہاں پر ہے۔ اس شہر سے کئی وزیروں کے منتخب ہونے کے باوجود بدترین انتقام لیا جا رہا ہے۔ ملک بھر کے ساتھ ساتھ اس کے شہریوں کو بھی بدترین مہنگائی کا سامنا ہے۔
اس شہر کو اس کی بہو یاسمین راشد نے سب سے زیادہ مایوس کیا ہے، میڈیکل کے سٹوڈنٹس کو ان کی استاد یاسمین راشد نے۔ مجھے اگر ڈینگی کے کسی دوسرے حملے سے بچنا ہے تو خود ہی مچھر مار سپرے کرنے ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مہنگے ہو چکے۔ اپنے جسم پر موسپل ملنا ہے جس کی چھوٹی سی شیشی دو سو روپوں کی ہوچکی۔ مجھے جو کچھ کرنا ہے وہ خود ہی کرنا ہے کہ اگر محکمہ صحت میں کوئی حکومت ہے تو وہ بڑے ہسپتالوں میں لوکل پرچیز سے اربوں روپوں کی حرام کمائیوں میں مصروف ہے جس کے بارے میاں نوید بتا رہے تھے کہ بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود تحقیقات تک بند ہوچکی ہیں، کسی کرپٹ کو سزا دینا تو بہت دور کی بات ہے۔