دی اکانومسٹ، نے جب پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک قرار دیا تھا تو اس رپورٹ کی تیاری کے وقت یہاں مہنگائی نو فیصد تھی۔ ایسے میں حکومت نے بجلی، پٹرول سمیت تمام ضروریات کی قیمتیں اچانک بڑھائیں تو یہ شرح چھلانگ لگا کر 14.48 فیصد پر پہنچ گئی۔ دنیا کا مہنگا ترین ملک جنوبی امریکا کا ارجنٹائن ہے جہاں مہنگائی کی شرح پچاس فیصد سے بھی زائد ہے۔ دوسرے نمبر پر ہمارے مجاہد وزیراعظم طیب اردگان کا ترکی ہے جن کے بیانات ہمارے لہو کو ایسے ہی گرماتے ہیں جیسے ہمارے اپنے وزیراعظم کے، وہاں مہنگائی بیس فیصد کے قریب ہے۔ چند روز قبل تک برازیل دس فیصد سے کچھ زیادہ مہنگائی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا مگر پی ٹی آئی کی حکومت کی تاریخی ناکامی نے پاکستان کو ٹاپ تھری میں شامل کر دیا ہے۔
میں ایسے میں ان لوگوں کی ہمت کو داد دیتا ہوں جو سوشل میڈیا پر پوسٹس کاپی کر رہے ہیں کہ ان کی تنخواہ بیس ہزار روپے ہیں مگر وہ مہنگائی کی اصل وجوہات جانتے ہیں لہٰذا وہ ڈٹ کر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میں ان کے کھڑے ہونے پر نہیں، جھوٹ بولنے پر داد دے رہا ہوں۔ میں یقین ہی نہیں کر سکتا کہ ایک شخص جس کی ماہانہ آمدن بیس ہزار روپے ہو اور وہ حکومت کے ساتھ کھڑا ہو۔ یہ عیاشی تین قسم کے لوگ کر سکتے ہیں، پہلے، جن کی ماہانہ آمدن سکس فگرز میں ہو، دوسرے، ان کے گھر ڈالر یا ریال آ رہے ہوں، تیسرے، جن کے گھر کا خرچ کوئی اور چلا رہا ہو۔
ہمارے وزرا ٹیلنٹڈ ہیں، وہ باتیں بنانا جانتے ہیں، ہمارے توانائی کے وزیر کبھی میرے دوست ہوا کرتے تھے اور پھر وہ وفاقی وزیر بن گئے، وہ ایک شو میں ایک معروف اینکر کے ساتھ دلائل کا سخت مقابلہ کر رہے تھے۔ میں نے جہاں نواز لیگ والوں کو اینکر کو سراہتے ہوئے پایا وہاں پی ٹی آئی والوں نے محترم حماد اظہر کو خوب داد دی کہ انہوں نے جھوٹ کے تمام پردے پھاڑ کے رکھ دئیے اور سچ ننگا کر دیا۔ میں بھی اپنے ایک پرانے تعلق کی بنیاد پر وزیر صاحب کی مکمل حمایت کرنا چاہتا ہوں مگر میرے پاس ہمیشہ سے پیرامیٹر بیان کے بجائے عمل رہا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت کا چوتھا سال چل رہا ہے۔
اگر اس برس گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی، گھروں میں چولہوں اور سڑکوں پر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ کارخانوں کے لئے وافر سستی گیس دستیاب رہتی ہے تو میں سمجھوں گا کہ ہمارے چینل ایک محنتی، ایماندار اور فرض شناس وزیرکے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے تھے لیکن اگر حکومت کے چوتھے برس بھی ہمارے چولہے بجھے رہیں تو وزیر صاحب جھوٹ بول رہے ہیں، دھوکا دے رہے ہیں۔ وہ تمام شعبے جن سے عوام کی براہ راست وابستگی ہوتی ہے ان کے لئے کسی میڈیا کمپین کی ضرورت نہیں رہتی۔ ریلوے ترقی کر رہا ہے یا تباہ ہو رہا ہے اس کے لئے کسی اشتہار کی ضرورت نہیں، مسافروں کوٹرینوں کی آمدورفت اور حالت ہی سب کچھ بتا دیتی ہے۔
ہمارے مہربان وزراء بار بار بتا رہے ہیں کہ ہمارا پٹرول امریکا، انگلینڈ، چین سے بھی سستا ہے۔ میں ان سے اتفاق کرتا اور کہتا ہوں کہ انڈیا سے بھی سستا ہے جہاں ممبئی وغیرہ میں ایک لیٹر اڑھائی سو پاکستانی روپوں تک میں پہنچ چکا ہے۔ پہلے انڈیا کی بات کر لیتے ہیں کہ کیا مودی کی حکمرانی ہمارے لئے آئیڈیل ہے اور کیا بھارت میں غریب عوام کی حالت بہت اچھی ہے کہ ہم اس کی مثالیں دیں۔ بھارت ایسا ملک ہے جس میں اب بھی لوگ لیٹرین جیسی سہولت سے محروم ہیں اور راتوں کو سڑکوں پر سونے والوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے مگر اس ملک کے بارے بھی اکانومسٹ کہتا ہے کہ مہنگائی والے تینتالیس ملکوں میں سولہویں نمبر پر ہے۔ مگر میرا مقدمہ بالکل مختلف ہے۔ (صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
میں مہنگائی کو چیزوں کی قیمت کے حوالے سے ماپتا ہی نہیں۔ اگر میری جیب میں قیمت چکانے کے لئے رقم موجود ہے تو پھر کوئی شے مہنگی نہیں ہے۔ جب سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سستی روٹی سکیم شروع کی تو ایک میٹنگ اس کی تعریف کروانی چاہی۔ میرا کہنا تھا، میاں صاحب، اگر غریب کی چھ سات سو کی دیہاڑی لگ جاتی ہے تو وہ سات روپے کی روٹی بھی خرید لے گا لیکن اگر اس کی دیہاڑی نہیں لگتی تو اس کے لئے دو روپے کی روٹی بھی مہنگی ہے، آپ روٹی سستی کرنے سے زیادہ غریب کی دیہاڑی پر توجہ دیں۔
میں پہلے بھی بیان کرچکا، اگر میرے پاس دس کروڑ روپے پڑے ہوئے ہیں تو میرے لئے چا ر کروڑ کی لینڈ کروزر بھی مہنگی نہیں ہے اور پچپن لاکھ کی ایم جی تو بہت سستی ہے لیکن اگر میرے پاس دو، چار لاکھ روپے ہیں تومیرے لیے بائیس لاکھ کی کلٹس بھی بہت مہنگی ہے۔ ایک بندہ جو دن کے پانچ سو روپے کماتا ہے اور مہینے کے پندرہ ہزار سے کم، وہ اگر میرے ساتھ نیلا گنبد جاتا ہے اور وہاں پرانی روایتی سٹینڈرڈ سائیکل کی قیمت سولہ سے اٹھارہ ہزار سنتا ہے تو اس کے لئے وہ بھی مہنگی ہے کہ
پورے مہینے کی کمائی دے کر ایک سائیکل خریدلینا گھاٹے کا سودا ہے۔ اگر انگلینڈ میں آپ چار سو روپوں کے لگ بھگ ایک لیٹر پٹرول کی بات کرتے ہیں تووہاں عام انگریز مہینے کا پاکستانی روپوں میں آٹھ سے نو لاکھ روپے کماتا ہے۔ آپ مجھے مہینے کی اتنی ہی آمدن دے دیں اور پٹرول کا رخ بھی وہی کر دیں مگر حالات یہ ہیں کہ لوگ تیزی سے بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ میرے ملک کا امیر، امیر ترین ہو رہا ہے اوریہی وجہ ہے کہ مہنگی ترین گاڑیوں کی سیل بڑھتی جا رہی ہے اور غریب، غریب ترین ہو رہا ہے۔
سب سے بری حالت اس کی ہے جس کی فکسڈ انکم ہے، جو سیلریڈ پرسن ہے۔ ہمارے وزیراعظم کے لئے بجلی اور پٹرول سے ٹریولنگ تک فری ہے مگر ان کا لاکھوں میں بھی گزارا نہیں ہوتا اور جس نے یہ سب بل ادا کرنے ہیں وہ کیا کرے، آہ، بجلی کے بلوں میں دو طرح سے اضافہ ہو رہاہے۔ ایک آئی ایم ایف کے دباؤ پر پونے دو روپے بڑھے ہیں اور دوسرے ہر مہینے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پرایک سے تین روپے بڑھ جاتے ہیں۔
اگر آپ لاکھوں روپے کماتے ہیں تو آپ اس شخص کا مسئلہ سمجھ ہی نہیں سکتے جو چند ہزار کماتا ہے۔ گھروں میں جھگڑوں اور طلاقوں کے اکثریتی معاملات کی وجہ معاشی ہے۔ اگر آپ ائیرکنڈیشنڈ روم میں ہیں تو آپ باہر کی گرمی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ وہ وزیر ٹرانسپورٹ کبھی ٹرانسپورٹ کے مسائل حل نہیں کرسکتا جس نے کبھی خود لاری اڈے سے بس میں بیٹھ کے سفر نہ کیا ہو۔ اس نے مسافروں اور ڈرائیوروں کی گفتگو نہ سنی ہو۔ حکمران اور عوام الگ الگ جزیروں کے رہائشی ہو چکے ہیں۔ ایک طرف وہ جزیرے ہیں جن کے گرد باڑیں لگ رہی ہیں، بڑی بڑی دیواریں بن رہی ہیں اور دوسری طرف عوام کے سمندر ہیں۔ ہمارے حکمران بہت اچھی باتیں کرتے ہیں مگر غریبوں کے پیٹ باتوں سے نہیں بھرتے۔ حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے مسائل کچھ اور ہیں اور عوام کے کچھ اور۔