Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Mian Sahib, Aisa Mat Kahen, Aisa Mat Karen

Mian Sahib, Aisa Mat Kahen, Aisa Mat Karen

میاں نواز شریف اپنے بھائی شہبا زشریف، صاحبزادی مریم نواز اور اسحق ڈار کے ساتھ لاہور چیمبر آف کامرس گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی کی سیاسی تربیت معیشت کے شعبے میں کرنا چاہ رہے ہیں۔ مریم نواز سے اس سے پہلے وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے ایک وفد نے بھی ملاقات کی تھی کس کی قیادت انجم نثار اور عرفان اقبال شیخ کر رہے تھے۔

گذشتہ روز ہونے والی ملاقات کے میزبان میرے لئے بھائیوں کی طرح محترم کاشف انور تھے جو ایوان ہائے صنعت وتجارت لاہور کے دو برس کے لئے منتخب صدر ہیں۔ کاشف انور شروع سے ہی صنعتکاروں اور تاجروں کو ایمنسٹی سکیم دینے کے زبردست حامی ہیں۔ وہ اس کا مطالبہ شہباز شریف کی سولہ ماہ کی حکومت کے دوران بھی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سامنے بھی رکھا تھا۔

بنیادی طور پر ایمنسٹی سکیم معیشت کو طاقت کا انجکشن دینے کے لئے ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کالا دھن جو لوگوں نے اپنے پاس چھپا رکھا ہے وہ باہر لے آئیں تاکہ اسے ملک کی اقتصادی ترقی میں استعمال کیا جا سکے۔ پاکستان پچھلے پانچ برسوں میں چار ایمنسٹی سکیمیں دے چکا ہے، جس کے ذریعے بہت ساری فرح گوگیوں نے اپنے چوری اور ڈاکے کے مال کو قانونی شکل دی ہے اور اب وہ دھڑلے سے کہتے ہیں کہ چند فیصد دینے کے بعد ان کی کرپشن کی کمائی ڈیکلئیرڈ ہے اورمیرا سوال ہے کہ ایسی اندھیر نگری کب تک چلے گی۔

میں میاں نواز شریف کے اس ویژن کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں کہ ملکی معیشت کو چلنا چاہئے۔ اکنامک لبرلائزیشن ہونی چاہیے، ڈی ریگولیشن بھی اور کسی حد تک پرائیویٹائزیشن بھی۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمیں قرض پر چلنے والی معیشت سے جان چھڑوانی ہے اور وہ اسی صورت ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس سرمایہ کاری ہو۔ میں اس امر سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ چین، سعودی عرب، قطر، ترکی اور دیگر ممالک سے جو سرمایہ کاری شریف فیملی اپنے دیرینہ روابط کے ذریعے لا سکتی ہے اس کی اہلیت پیپلز پارٹی کے پاس نسبتا کم ہے جبکہ پی ٹی آئی کے پاس بالکل ہی نہیں ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ میاں نوا ز شریف لاہور چیمبر آف کامرس میں صدر کاشف انور کی باتوں میں آ گئے ہیں اور وہ باتیں ہی ایسی کرتے ہیں کہ بندے کو قائل کر لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے چیمبر میں کہا کہ انڈسٹری کے لئے آنے والی سرمایہ کاری کا سورس نہیں پوچھا جائے گا اور بظاہر یہ بات بہت دلکش لگتی ہے کہ ایسی پالیسی کے نتیجے میں کالے دھن والے فیکٹریاں لگائیں گے۔ ان کا پیسہ ٹیکس نیٹ میں آئے گا۔ ان فیکٹریوں میں لوگوں کو روزگار ملے گا تو نہ صرف بے روزگاری کم ہوگی بلکہ فی کس آمدن بھی بڑھے گی۔ اس سے غربت کم اور جی ڈی پی کی گروتھ ہوگی۔

میں جانتاہوں کہ اسحق ڈار ایسی باتوں پرپورا تھیسز بیان کر سکتے ہیں مگر میری آبزرویشن یہ ہے کہ جن کے پاس کالا دھن ہوتا ہے وہ آسان طریقوں دولت کمانے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ بہت چھلانگ بھی ماریں تو سونے، ڈالروں اور پلاٹوں وغیرہ میں ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں یا وہ اپنا سرمایہ چور راستوں سے بیرون ملک ملے جا کے عیاشی کے اڈے بنا لیتے ہیں۔ چور، ڈاکو، راشی، کرائے کے قاتل، منشیات فروش اور سمگلر وغیرہ کارخانے لگانے اور سرکھپانے جیسی مصیبتیں نہیں پالتے۔

سیاسی مسافر بتا رہے ہیں کہ اقتدار جاتی امرا کا رخ کر رہا ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور بلوچستان میں باپ وغیرہ اقتدار کے مرغ باد نما ہیں۔ میاں نواز شریف کی بات کوآنے والی حکومت کی اکنامک پالیسی سمجھا جا سکتا ہے یعنی آٹھ فروری کے بعد ان کے حکم قانون کا درجہ رکھیں گے۔ میاں نواز شریف کی اپیلیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اکیس نومبر کو سماعت کے لئے مقرر کر دی ہیں۔

میں جتنی قانونی اور سیاسی سمجھ رکھتا ہوں اس میں بغیر کسی شک و شبہے کے کہہ سکتا ہوں کہ کمزور ترین سیاسی و انتقامی مقدمات میں میاں صاحب کی سزائیں ختم ہوجائیں گی اورا س کے بعد ان کے لئے اصل خطرہ صرف و ہ نااہلی رہ جائے گی جس کی تشریح بطور چیف جسٹس ثاقب نثار نے تاحیات نااہلی کے طور پر کی تھی۔

ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ کے قانون میں ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت پانچ برس ہونے کے بعد اب یہ عمر بھر کی نااہلی نہیں رہی مگر بہت سارے قانون دانوں کا خیال ہے کہ کوئی بھی ترمیمی قانون ماضی پر اثرانداز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ماضی میں سپریم کورٹ کے کئے ہوئے فیصلوں کو بدل سکتا ہے۔ ان فیصلوں کو صرف سپریم کورٹ خود ہی بدل سکتی ہے۔ از خود نوٹس والے کیس میں ماضی سے اپیل کا حق واپس لے کر میاں نواز شریف سے یہ فائدہ لینے کا موقع چھین لیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ نواز شریف اب کاغذات داخل کریں گے، ان پر نااہلی کا اعتراض ہوگا اور اس کے بعد اعلیٰ عدالتیں فیصلہ کریں گی کہ وہ نااہل ہیں یا اہل ہیں۔

میں، میاں نواز شریف کو ملک کا سب سے تجربہ کار سیاستدان سمجھتا ہوں اور ان سے انڈسٹری کے لئے آنے والے پیسے کے ذرائع نہ پوچھنے کے بیان پر اس کے سیاسی اور معاشی اثرات ڈسکس کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا اثر تو ہو چکا کہ نواز لیگ کے مخالفین نے چور چور کا شور مچانا شروع کر دیا ہے حالانکہ خود پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان غالبا دو مرتبہ چوروں کو سعد بننے کا موقع دے چکے ہیں اور دوسرا اثر یہ ہوگا کہ وہ تمام محنت کش جو رزق حلال کماتے ہیں اور اس پر تیس فیصد تک ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں ان سب کی حوصلہ شکنی ہوگی کہ یہ ریاست ہر مرتبہ چوروں، ڈاکووں، سمگلروں کو ہی موقع، عزت اور فائدہ دیتی ہے۔

میں اپنے دوستوں کاشف انور اور نعیم میر کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ روپیہ صرف روپیہ ہوتا ہے اس پر حرام اور حلال نہیں لکھا ہوتا۔ کہنے دیجئے، میاں نواز شریف اپنے فرشتوں جیسے نیک باپ میاں محمد شریف کے مزار پر جا کر بھی پوچھیں گے تو یہی آواز آئے گی کہ حلال اور حرام یکساں نہیں ہیں۔ حرام کبھی ترقی، عزت اور برکت کا باعث نہیں ہوتا۔ یہ ہمیشہ بے برکتی بلکہ بے عزتی اور تباہی لاتا ہے۔

مجھے اس کا ایک تیسرا پہلو بھی بیان کرنا ہے کہ حرام کا پیسہ اب دنیا کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے کہ جیسے ہی آپ بلیک منی اکانومی میں شامل کریں گے ایف اے ٹی ایف جیسی کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں آپ کو ایک اور بات بتا دوں کہ اب چوروں نے حکومتوں نے ایمنسٹی سکیموں پر اعتماد کرنا بھی بند کر دیا ہے کیونکہ انہیں علم ہے کہ کوئی حکومت انہیں نہیں پکڑ سکتی۔ میاں صاحب! اگر آپ واقعی ملک کی معیشت کو چلانا چاہتے ہیں تو چوروں، ڈاکووں اور سمگلروں کو راستہ دینے کی بجائے دھمکی دیں، آپ کا عوامی تاثر بھی درست ہوگا اور اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوں گے۔