پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی دھڑا دھڑ چھاپے مار رہے ہیں۔ وہ میٹرو اور اورنج لائن کا سفر بھی کر رہے ہیں، طلبا و طالبات کے مفت سفر کی سفارشات بھی طلب کر رہے ہیں، وہ ڈی سی آفس کی رجسٹری برانچ سمیت ہر اس جگہ جا رہے ہیں جہاں عوام کو مشکلات کا سامنا ہے مگر ان میں سب سے اہم سرکاری ہسپتال ہیں۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب انہوں نے میو ہسپتال کا ساڑھے سات گھنٹے طویل دورہ کیا۔
وہ بینظیر شہید ہسپتال راولپنڈی، سروسز ہسپتال لاہور، جنرل ہسپتال لاہور، شاہدرہ ہسپتال سمیت ہر چھوٹے بڑے ہسپتال میں جا رہے ہیں۔ وہ خود ائیر کنڈیشنروں کے سامنے کھڑے ہو کے دیکھ رہے ہیں کہ ان سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے یا نہیں۔ چیک کر رہے ہیں کہ کتنے آپریشن تھیٹرز فعال ہیں۔ مریضوں او رلواحقین سے پوچھ رہے ہیں کہ انہیں باہر سے ادویات لانے پر مجبور تو نہیں کیا جا رہا۔ نوٹس لے رہے ہیں کہ ہسپتالوں کی کتنی مشینری فعال ہے، وہاں کاکروچ تو نہیں پھر رہے اور جہاں، جہاں شکایات ہیں وہاں وہاں ایکشن بھی لے رہے ہیں۔
پی ایم اے اور وائے ڈی اے والے دونوں ہی محسن نقوی کے دوست ہیں اور اس بات کی گواہی مجھ سے زیادہ کون دے سکتا ہے کہ وہ ان کے محسن بھی ہیں۔ کیا وائے ڈی اے کو یاد نہیں ہے کہ جب ان کی تنخواہیں محض بیس بائیس ہزار ہوا کرتی تھیں، ان کے پاس سروس سٹرکچر نام کی کوئی شے نہیں تھی تو کس کے چینل نے ان کے مسائل حل کروائے تھے مگر اب یہ دونوں ہی اس وزیراعلیٰ کے خلاف پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں، شعبدہ بازی جیسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں، احتجاج کی دھمکیاں دے رہے ہیں جو ان کے اس بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنا چاہتا ہے کا جس کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
یہی وہ دو تنظیمیں ہیں جو ہر دور میں حکومت سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ صحت کے شعبے میں اصلاحات کو اولین ترجیح پر رکھا جائے۔ جو بھی حاکم ہو اسے وقت بھی دے اور اسے بجٹ بھی دے مگر یہ کیا تماشا ہے کہ جب وقت اور بجٹ ملنے لگے ہیں تو ہمارے یہ دوست چیخیں مارنے لگ گئے ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم جن کی امانت، دیانت، شرافت اور پروفیشنل ازم کی قسم کھائی جا سکتی ہے، وہ مجھے بتا رہے تھے کہ نگران حکومت کوئی نیا ہسپتال قائم نہیں کر رہی بلکہ موجودہ ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے کوئی سو، سوا سوارب روپے خرچ کرنے جا رہے ہیں۔
میو ہسپتال، جسے ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال کہا جاتا ہے اس پر نو ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہورہی ہے۔ سمز پر پانچ ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں بلکہ سروسز ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر منیر بتارہے تھے کہ اس ہسپتال کی بہتری کے لئے بجٹ کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، تعمیر و مرمت سے آپریشن تھیٹروں کی آپ گریڈیشن تک جتنے بھی فنڈز درکار ہوں گے، انہیں مل جائیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی بہت خوبصورت شخصیت ہیں، بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں مگر وہ کہہ رہے تھے کہ محسن نقوی نگران وزیراعلیٰ ہیں اور انہیں چھاپے مارنے کا کوئی حق نہیں اورمیرا جواب تھا کمال کرتے ہو صاحب، نگران کو ہی نگرانی کا حق نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ شہباز شریف کی طرف اشارہ کرکے سوال کر رہے تھے کہ انہوں نے بھی بہت چھاپے مارے اورافسر معطل کئے تو اس سے سسٹم کتنا بہتر ہوا۔
مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ ایک شخص کی لگن اور محنت سے کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ وہ اس امر سے کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ سزا و جزا کا خوف لوگوں کو درست رکھتا ہے اوراس کے بغیر معاملات پر زوال آنے لگتا ہے۔ اس بات سے بھی کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ بہرحال شہباز شریف کے دور میں بیوروکریسی کی فعالیت بہت زیادہ تھی اور اگروہ نہ ہوتی تو ہم ڈینگی جیسے وبا سے نمٹ ہی نہ پاتے۔ یہی وہ فعالیت تھی جس نے سری لنکا جیسے ملک کے ماہرین کو پاکستان کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہی وہ شہباز سپیڈ تھی جس کی تعریفیں چین تک ہوتی تھیں اور اسی سپیڈ والے نے کہا کہ محسن نقوی کی سپیڈ ان سے بھی تیز ہے۔
میں ہمیشہ تعمیر و ترقی کے اقدامات کو بہت توجہ سے دیکھتا ہوں اور مجھے کہنے میں عارنہیں کہ جو کام عثمان بزدار چار سالوں نہیں کر سکا تھا وہ سب کام محسن نقوی چار ماہ میں کرکے دکھا رہے ہیں۔ اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جب تک ایک حکمران عوام میں اور موقعے پر نہیں پہنچے گا تو اسے حقائق کا علم نہیں ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وائے ڈی اے اس سے پہلے اپنے پروفیشن کے پروفیسروں کے خلاف رہی ہے اور ینگ ڈاکٹرز ہر جگہ یہی کہتے ہیں کہ ہسپتال وہ چلا رہے ہیں، پروفیسرز کو تو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں او ر اب اگر کوئی انہیں پوچھ رہا ہے تو وائے ڈی اے اس پر بھی پریشان ہے۔
میں نے پتا چلایا ہے کہ ہمارے یہ دوست جنرل ہسپتال کے سپائنل سرجری میں ملک بھر میں بہت بڑا نام پروفیسر ڈاکٹر حنیف کے ٹرانسفر ہونے پر غصے میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک آپریشن تھیٹر ہے اور وہاں مریضوں کو دیر سے آپریشن کی تاریخ مل رہی ہے تو اس میں متعلقہ پروفیسر کا نہیں حکومت کا قصور ہے، وہ مزید آپریشن تھیٹرز بنا دے۔ میں ذاتی طور پر ان پروفیسر صاحب سے کبھی نہیں ملا نہ پہلے کبھی ان کا نام سنا لیکن اگر تمام پروفیشنل لوگ ان کی تعریفیں کر رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اچھا اور بڑا نام ہی ہوں گے اورجہاں محسن نقوی تیزی سے کھیل رہے ہیں تو اس میں کوئی غلطی بھی ہوسکتی ہے اور ڈاکٹرجاوید اکرم کے مطابق اس کا ازالہ بھی۔
پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے پاس عام سیاسی حکمرانوں کے مقابلے میں انفارمیشن کے ایک سے زیادہ ذرائع ہیں۔ وہ بطور صحافی بہت کچھ پہلے سے جانتے ہیں اور دوسرے وہ اس سے بھی بڑھ کے کام کررہے ہیں جیسے انہوں نے اپنی آرگنائزیشن کے لئے کیا اور اسے ایک برینڈ نیم بنا دیا۔
مجھ سے پوچھیں گے تو میں یہی کہوں گا کہ جہاں انہیں بڑے بڑے ٹھنڈے کمروں میں بڑے بڑے اعداد وشمار کے ساتھ بنائی ہوئی بریفنگز بھی دیکھنی اور سننی چاہئیں وہاں انہیں سرپرائز وزٹس کا سلسلہ بھی جاری رکھنا چاہئے۔ وائے ڈی اے اور پی ایم اے سے ہٹ کر بھی جو لوگ ان پر تنقید کر رہے ہیں وہ عثمان بزدار جیسی ناقص اور کرپٹ ایڈمنسٹریشن کا دفاع کرتے رہے ہیں لہذا ان کے اعتراضات کی کوئی اہمیت نہیں۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس سے پہلے خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر صحت کے شعبے میں بہت اچھا کام کرکے گئے ہیں مگر ابھی بہت سارے کام کی مزید ضرورت ہے، اس میں اضافہ بھی کردوں کہ ایک خاتون ڈاکٹر وزیر نے جو تباہی مچائی وہ اپنی جگہ پر ہے۔ آئی ڈی ایف کے بہت سارے عہدیداروں کی جو دیہاڑیاں لگتی تھیں وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
انہوں نے وہ ظلم کیا کہ چار برس تک کسی ڈاکٹر کو مستقل نوکری نہیں دی اور ایڈہاک جاب کا ریٹ بھی لاکھوں میں لیا جاتا رہا، یہاں تک کہ آج ڈاکٹروں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری بن گیا ہے۔ اب اگر کوئی مسیحاوں کے لئے مسیحا بن کے آیا ہے تو اس کی حمایت کی جانی چاہئے، اس کی مخالفت خود اپنی ذات، اپنے پروفیشن اور اپنے مقصد کی مخالفت ہوگی۔