لاہور کے مصروف ترین علاقوں چونگی امرسدھو، ٹاؤن شپ، گرین ٹاؤن سے باگڑیاں تک پھیلے ہوئے قومی اسمبلی کے اس حلقے میں ووٹوں کی خریداری کی منڈی لگی ہوئی ہے جہاں اس اتوار کو الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر ووٹوں کی خریداری کی ویڈیوز درست نکلیں تو یہاں الیکشن ملتوی کیا جا سکتا ہے اور اگر تحقیق کا نتیجہ الیکشن کے بعد آیا تو ایسے گھناؤنے جرم میں ملوث جیتے ہوئے امیدوار کو بھی نااہل کیا جا سکتا ہے۔ اس حلقے سے دو قسم کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں سے ایک میں نواز لیگ کی امیدوار شائستہ پرویز ملک کا انتخابی دفتر دکھایا جا رہا ہے، جو اس وقت عدت میں ہونے کی وجہ سے خود انتخابی مہم میں متحرک نہیں ہیں، وہاں کچھ لوگ خواتین کو رقوم کی ادائیگی کرتے ہوئے ان سے پانچ دسمبر کو نواز لیگ کو ووٹ دینے کا حلف لے رہے ہیں، میں اس ویڈیو پر بعد میں بات کروں گا۔
آپ اس حلقے میں جائیں تو آپ کو بہت سارے لوگ یہ بتاتے ہوئے ملیں گے کہ ووٹوں کی خریداری میں درحقیقت پیپلزپارٹی ملوث ہے۔ انجمن تاجران لاہور کے سیکرٹری انفارمیشن شبیر مقبول، ان کے ساتھیوں عارف اور مرزا اخلاق بیگ وغیرہ نے پیپلزپارٹی کے دفاتر کے باہر بہت سارے ویڈیوز بنائی ہیں جن میں لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں، یہ لوگ نواز لیگی ہیں۔ ان ویڈیوز میں کی گئی گفتگو ظاہر کر رہی ہے کہ وہاں دو، دو ہزار روپے دے کر ووٹوں کے لئے شناختی کارڈوں کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ ان ویڈیوز میں پیپلزپارٹی کا کوئی عہدیدار پیسے دیتا ہوا یا حلف لیتا ہوا نظر نہیں آتا۔ الیکشن کمیشن میں حلف نامہ دینے والے مرزا اخلاق بیگ کہتے ہیں کہ دفاتر کے باہر مسلح گارڈز موجود ہیں جو اندر جانے والوں کو موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں دیتے اور اگر کوئی چھپا کر یا جھوٹ بول کر موبائل فون لے جائے تو اندر بھی گارڈز موجود ہیں جو ویڈیو نہیں بنانے دیتے اور موبائل چھین لیتے ہیں۔
میں نے ان تمام ویڈیو ز کو بغور دیکھا اور سنا ہے اور یہ اپنے مواد میں درست نظر آتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان ویڈیوز کی بنیاد پر اسلم گل الیکشن لڑنے کے لئے نااہل ہوسکتے ہیں یا حلقے میں الیکشن ہی ملتوی ہوسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی کورنگ کینڈیڈیٹ مسرت جمشید چیمہ نے الیکشن کمیشن سے پورے انتخابی عمل کو ہی روکنے اور دوبارہ سے شیڈول جاری کرنے کامطالبہ کیا ہے اور اگر ان کا یہ مطالبہ پورا ہوجاتا ہے تو پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھرا نتخابی دوڑ میں شامل ہوسکتی ہے مگر دوسری طرف انتخابی قوانین کے ماہرین کاکہنا ہے کہ الیکشن نہیں صرف پولنگ ملتوی ہوسکتی ہے۔ قانونی صورت یہ ہے کہ اسلم گل کے ممکنہ طور پر نااہل ہونے کے بعد بھی ایک سے زیادہ امیدوار دوڑ میں موجود ہوں گے۔ میں نے پیر کے روزبننے والی وہ ویڈیوز بھی دیکھی ہیں جن میں پیپلزپارٹی کے دفاتر کے باہر غریب لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ دو، د و ہزار روپے لینا چاہ رہے ہیں مگر بتایا جا رہا ہے کہ چھاپہ پڑ گیا تھا اور اب پیسے نہیں مل رہے۔
میں نے اسلم گل کے ساتھ ان کے انتخابی جلسے دیکھے ہیں۔ اس امر سے انکا رنہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے لاہور میں اپنی انتخابی مہم بنا لی ہے۔ غریبوں اور مسیحیوں کی آبادیو ں میں جئے بھٹو کے نعرے لگ رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں، بینرز پوسٹرز اور پینا فلیکسز وغیرہ میں بھی وہ اپنے مخالف ارب پتی امیدواروں سے پیچھے نہیں ہیں۔ اسلم گل کے جلوس دیکھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے پاس ایسی انتخابی مہم کے لئے اتنا پیسہ کہاں سے آیا کہ وہ پرانے جیالے ضرور ہیں مگر ساتھ ہی فُقرے، بھی ہیں۔ پارٹی والے ہی بتاتے ہیں کہ ان کا ہاتھ اوپر کے بجائے ہمیشہ نیچے رہا ہے مگر دوسری طرف اسلم گڑا کی وہ تصویر بھی اہم ہے جس میں وہ بڑے نوٹوں کی گڈیاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ جب میری اسلم گل سے اتحاد کالونی کے جلسے کے موقعے پر ملاقات ہوئی تو ان کی گاڑیوں کے قافلے کی آن بان شان ہی الگ تھی۔
گمان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ گاڑیاں زرداری صاحب نے انتخابی مہم کے لئے بھجوائی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پی ٹی آئی کے آؤٹ ہونے اور مہنگائی کی وجہ سے بہت سارے جیالے پارٹی میں واپس آئے ہیں۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر راجا پرویز اشرف کی محنت بھی قابل قدر اور قابل داد ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس محنت کے نتیجے میں کیا پارٹی کے ووٹ ڈبل ہوجائیں گے یا ٹرپل، یہ تین برس پہلے ساڑھے پانچ ہزار تھے جبکہ پرویز ملک نوے ہزار کے قریب ووٹ لے کر جیتے تھے۔ میرا پی پی پی کے دوستوں سے کہنا ہے کہ انہوں نے این اے 133جیسے مشکل حلقے کو اپنے لئے خوا مخواہ زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ وہ اس حلقے کے ذریعے ٹیسٹر، لگانا چاہ رہے ہیں کہ کیا پی پی سنٹرل پنجاب میں دوبارہ ان ہوسکتی ہے، یہاں سے کچھ سیٹیں لے کر سندھ کی مدد سے وفاق کی نمبر گیم جیت سکتی ہے؟
میں مانتا ہوں کہ اگر نواز لیگ کے پیسے بانٹنے اور حلف لینے والی ویڈیو درست ثابت ہو گئی توشائستہ پرویز ملک بھی نااہل ہوسکتی ہیں مگر مجھے کیمرے، پروڈکشن اور کانٹینٹ کا کھیل دیکھتے ہوئے برس ہا برس بلکہ عشرے گزر گئے۔ میں نے اس ویڈیو کو بہت بار دیکھا اور ہر بار ایک نیا جھول سامنے آیا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پیسے دینے اور لینے والوں نے اپنی شناخت کیوں چھپائی ہوئی ہے جبکہ ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ ویڈیو چھپ کر بن رہی ہے یعنی وہ خود کو جان بوجھ کر ناقابل شناخت بنا رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی اتنی جدید ہوچکی ہے کہ اب جسم کے ڈھانچے اور آنکھوں کی پتلیوں سے بھی لوگ شناخت ہوسکتے ہیں اور امید کی جانی چاہئے کہ ا س ویڈیو کے کردار بھی چھپے نہیں رہیں گے اور یوں پتا چل جائے گا کہ وہ نون لیگ والے تھے یا کوئی اور۔ دوسرے ویڈیو جس طرح بن رہی ہے وہ معاملہ پوری طرح مشکوک ہے۔ یہ ظاہر کیا جا رہاہے کہ خفیہ ریکارڈنگ ہور ہی ہے اوراس خفیہ ریکارڈ نگ میں جس دیدہ دلیری سے زوم ان اور زوم آوٹ ہو رہا ہے وہ دلچسپ ہے۔ تیسرے اگر آپ نے کبھی انتخابی دفتر دیکھے ہوں تو وہ آپ کو کبھی ایسے نہیں ملیں گے جیسے تماثیل تھیٹرمیں کسی ڈرامے کا سیٹ لگا ہو، یہ دفتر اپنی صفائی اور انتظامات سے واضح طور پر جعلی لگ رہا ہے۔ چوتھا نکتہ ا س ویڈیو کا سیاق و سباق ہے کہ کیا نوے ہزار ووٹ لینے والی پارٹی کو پانچ ہزار ووٹ لینے والی پارٹی کے خلاف ووٹ خریدنے کی ضرورت ہے جوکہے کہ ہاں ہے اصل میں اس کا دماغی علاج کروانے کی ضرورت ہے۔
پانچواں نکتہ اس کی غرض وغایت سمجھنے کا ہے کہ اس کا فائدہ کس کو ہو گا۔ حلقے میں آپ کسی شخص سے بھی پوچھ لیں وہ بتا دے گا کہ نواز لیگ جیت رہی ہے سو اگر الیکشن ملتوی ہوتا ہے توا س کافائدہ پی ٹی آئی کو ہو گا سو اس ویڈیو کے آنے کے بعد شہباز گل سمیت دیگر حکومتی عمائدین نے الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے اور انتخاب ملتوی کرنے کے جو مطالبے کئے وہ منصوبہ بندی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر یہ کیس ہائی فائی انویسٹی گیٹو ایجنسیوں کے بجائے پنجاب پولیس کے کسی روایتی نکے تھانے دارکو ہی دے دیا جائے تو وہ چند گھنٹوں میں ہی مجرموں کو حوالات میں پہنچا دے گا۔