یہ میں نہیں، نواز لیگ کے ہوم گراونڈ پنجاب کے دارلخلافے لاہور کے سول سیکرٹریٹ کے باہر احتجاج کرنے والے سینکڑوں سرکاری ملازمین کہہ رہے ہیں کہ اس صوبے میں نواز لیگ کے خلاف سازش ہو رہی ہے اورنواز شریف کی پارٹی کے خلاف یہ سازش آصف علی زرداری کروا رہے ہیں۔
اس سازش کی تفصیلات بہت دلچسپ ہیں کہ سندھ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہمیشہ سے غیر معمولی اضافہ ہوتا رہا ہے جبکہ پنجاب میں معمولی مگر اس مرتبہ تو حد ہی ہوگئی ہے کہ جہاں سندھ میں اضافہ بارہ ہزا ر روپے ہو رہا ہے وہاں پنجاب کے سرکاری ملازمین کا اضافہ چار ہزار روپوں سے زیادہ نہیں ہے۔ میں نے ایپکا، اگیگا، پیپلااور کلاس فور ملازمین کی بہت ساری تنظیموں کے عہدیداروں سے پوچھا کہ وفاق او رسندھ نے تنخواہ پینتیس فیصد بڑھائی اورپنجاب نے تیس فیصد تو یہ پانچ فیصد کا فرق دو بلکہ تین گنا کا فرق کیسے ہوگیا۔
اس کا جواب بہت ٹیکنیکل تھا کہ وفاق سمیت تمام صوبوں نے اپنے ملازمین کو تنخواہوں میں اضافہ رننگ بیسک، پر دیا جبکہ پنجاب نے اینشئل بیسک، پر۔ سرکاری ملازمین کے پے سٹرکچر کو جاننے والے رننگ اور انیشئل کا فرق بہت خوب سمجھتے ہیں۔ پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے صوبے کے ریٹائرڈ بوڑھوں کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے اور ان کی پینشن میں وفاق اور دوسرے صوبوں کی طرف سے کئے گئے اضافے ساڑھے سترہ فیصد کی بجائے صرف پانچ فیصد اضافہ کیا ہے۔
اس وقت پنجاب میں سرکاری ملازمین کی تعداد نو سے دس لاکھ کے درمیان ہے جبکہ پینشنرز بھی کوئی پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہیں جن کے گھرانے پنجاب کی نگران حکومت کے اس غیر منصفانہ فیصلے کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ہر سرکاری ملازم کا خاندان کم و بیش پانچ سے سات افراد پر مشتمل ہے یعنی ان پندرہ لاکھ لوگوں سے جڑے کوئی ایک کروڑ کے لگ بھگ ووٹ بنتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے صحت، کارپوریشن اور تعلیم وغیرہ کے شعبوں سے منسلک ہیں یعنی اگر یہ کسی سیاسی جماعت سے ناراض ہوجائیں تو یہ اگلی کئی ناراض نسلیں تیارکر سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اپنے عوام سے سب سے زیادہ رابطہ رکھنے والا صحافی ہوں اور مجھے یہ بہت ساری نمائندہ تنظیموں کے رہنماوں سے بہت بار ہونے والی گفتگو کے بعد یہ نتیجہ دینے میں کوئی عار نہیں کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ غریب عوام، کسانوں اور سرکاری ملازمین کے لئے دوسری سیاسی جماعتوں سے کہیں بڑھ کے اقدامات کئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بھی پیپلزپارٹی نے تاثر دینے میں مکمل طور پر کامیاب رہی ہے کہ اس نے ہی وفاقی بجٹ میں اسحاق ڈار سے تنخواہوں میں پینتیس فیصد تک اضافہ کروایا جبکہ اس کا مطالبہ میڈیا رپورٹس کے مطابق چالیس فیصد تھا مگر اسحق ڈار بیس فیصد سے زیادہ دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔
پیپلزپارٹی نے اسی موقعے پر اپنے صوبے کا ایک اور مقدمہ لڑا اور سندھ کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لئے پہلے پچیس ارب اور پھر مزید بارہ ارب لے لئے۔ ان سینتیس ارب کے لئے بلاول بھٹو زرداری کو ایک تقریر کرنا پڑی اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو دو بیانات دینے پڑے۔ اب تاثر یہ ہے کہ اگر سرکاری ملازمین نے کوئی فائدہ لینا ہے توانہیں پیپلزپارٹی کا ساتھ دینا ہوگا۔ مجھے بہت سارے سرکاری ملازمین ایسے ملے جنہوں نے کھل کر کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے ہمیشہ سرکاری ملازمین سے زیادتی کی۔ جب سندھ نے بیس فیصد تنخواہ بڑھائی تو پنجاب نے دس فیصد بڑھائی اور اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ کی اسی گریڈ کی تنخواہ ایک لاکھ چالیس ہزار ہے جس گریڈ کی پنجاب میں تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے۔
سرکاری ملازمین پوچھتے ہیں کہ کیا پٹرول، بجلی، گیس اور گھی پنجاب میں آدھی قیمت پر ملتے ہیں کہ یہاں تنخواہیں کم ہیں؟ ایک اور دل دکھا دینے والا انکشاف ہوا کہ پنجاب کے درجہ چہارم کے ملازمین خیبرپختونخوا کے سرکاری ملازمین سے چوبیس برس پیچھے ہیں۔ جب مجھے یہ بات بتائی گئی تو میرے منہ سے فوری طور پر نکلا، کیا، کیوں، کیسے اور جواب تھا کہ درجہ چہارم میں نائب قاصد، مالی اور سویپر وغیرہ آتے ہیں جو پنجاب میں گریڈ ون میں ہیں اور خیبرپختونخواہ میں یہی ملازم گریڈ فور میں ہیں۔
پنجاب کے انہی گریڈ ون کے ملازمین کو گریڈ فور میں جاتے ہوئے چوبیس برس گزر جاتے ہیں۔ پنجاب میں اگیگا سمیت دیگر کا تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ یہاں کے درجہ چہارم کے ملازمین کو بھی گریڈ فور دیا جائے مگر میرے خیال میں جو حکمران انہیں برابر کی تنخواہ دینے کے لئے تیار نہیں وہ انہیں برابر کے یا ان سے بڑھ کے گریڈ کیسے دیں گے۔ درجہ چہارم کے ملازمین حقیقی معنوں میں عوام بلکہ ظالم افسروں کی خدمت کرنے والے ہوتے ہیں۔
میرے لئے بھی بہت آسان ہے کہ میں ان باتوں پر صحافت کروں جس سے وزیر، مشیر خوش ہوں مگر میرے لئے ان لوگوں کی خوشی زیادہ اہم ہے جنہیں میرے آقا ﷺ نے اللہ کا دوست کہا ہے، جومحنت کش ہیں۔ میں نے گورنر ہاوس میں ایک دوست اور ایک خیرخواہ کے طور پر وزیراعظم شہباز شریف کی توجہ تاجروں اور سرکاری ملازمین کی طرف دلوائی تھی۔ میں اس اپروچ کا ہرگز مخالف نہیں کہ نواز لیگ اسٹیبلشمنٹ سے لڑے بغیر مفاہمت کی سیاست کے ذریعے اقتدار میں رہے کیونکہ اس کا بیانیہ محاذ آرائی نہیں بلکہ ڈیویلپمنٹ ہے مگر میں اس مفاہمت کی کیسے تعریف کروں جس کے غرور اور فتور میں غریب عوام نظر انداز ہو رہے ہوں۔
حیرت کی بات ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، اسحق ڈار، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق اور ایسے بہت سارے تگڑوں کے اپنے شہر میں ہزاروں سرکاری ملازمین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر سراپا احتجاج ہیں۔ ان کی وجہ سے لاہور کی مصروف ترین سڑکیں بلاک ہیں، وہ شدید گرمی اور حبس میں بے ہو ش ہو رہے ہیں، ایک رہنما سلطان مجددی دل کے دورے کے باعث پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچ چکے ہیں مگر وزیراعظم، گورنر ہاوس میں میرے سوال کے جواب میں کئے ہوئے قوم سے وعدے کے باوجود پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کو اس ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنے کے لئے نہیں کہہ رہے، میں حیران ہوں کہ وہ خاموش کیوں ہیں۔
میری سیاسی پیشن گوئی ہے کہ موجودہ صورتحال میں ان کے مخالفقاسم کے پاپا، اقتدار میں نہیں آ سکتے، اقتدار میں مریم، حمزہ کے والدین نے ہی دوبارہ آنا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا دلوں کا اقتدار زیادہ اہم نہیں ہے اورسرکاری ملازمین جس سازش کی بات کر رہے ہیں اس میں مریم نوازاور حمزہ شہباز کے والدین کا مقابلہ مسلسل بے وقوفیاں کرنے والے قاسم کے پاپا، سے نہیں بہت ہی ٹھندے دل و دماغ کے ساتھ سیاسی شطرنج پر حیران کن چالیں چلنے والے بلاول کے بابا، کے ساتھ ہے، کیا سمجھے؟