میں کل صبح کنیئرڈ کالج فار ویمن کے سیمینارمیں تھا، خواتین کی تعلیم کے حوالے سے میرے ملک کا بہترین سے بھی بہتر ادارہ، موضوع اس ڈیجیٹل ایرا میں صحافت اور اس کی تعلیم میں موجود مواقع اور چیلنجز تھے کہ گفتگو کے دوران اچانک پورے ہال سے سوال کیا کہ پاک فوج کا بجٹ کتنا ہے تو اس ہال میں جہاں لاہور کے بہترین اداروں کے سٹوڈنٹس بھرے پڑے تھے جواب نہیں ملا، بار بار پوچھنے پر ایک جواب ملا بجٹ کا پچھہتر فیصد اور دوسرا تھا پچاسی فیصد، یعنی ہم نے اپنی پڑھی لکھی نوجوان نسل کے ذہن میں بھی زہر بھر رکھا ہے۔
پروپیگنڈے کی ایسی بھرمار ہے کہ سچ کی نہ طلب ہے اور نہ اہمیت۔ میں نے بچوں سے کہا، تم لوگ چاہے تالیاں بجاؤ یا نہ بجاؤ مگر میرا فرض ہے کہ میں سچ بولوں، حقائق بیان کروں۔ کسی نے اپنے وطن، اپنی آزادی اور اپنی فوج کی اہمیت پوچھنی ہے تو غزہ والوں سے پوچھے، کشمیریوں سے پوچھے۔ یہ امن، یہ رشتے، یہ کاروبار سب کے سب انہی سے مشروط ہیں یقین نہیں آتا تو حماس اسرائیل جنگ کی خبریں، تصویریں، ویڈیوز اٹھا کے دیکھ لو۔
ایلمر ڈیوس نے کہا تھا، یہ قوم اس وقت تک آزاد رہے گی جب تک اس کی زمین بہادروں کا مسکن رہے گی، اور میں کہتا ہوں، تم کسی قوم کو غلام بنانا چاہتے ہو تو اس کے بہادروں کو متنازع بنا دو، اس کے بیٹوں سے محبت کو مشکوک بنا دو، اور یہ کام بہت مہارت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان شاطرانہ انداز میں فاصلے بڑھائے جا رہے ہیں۔ دھرتی کی حفاظت اور امن کے قیام کے لئے جانیں قربان کرنے والوں کے بارے شکوک و شبہات پھیلائے جا رہے ہیں۔ شیطانی پروپیگنڈے میں یہ فقرہ عام بولا جاتا ہے کہ پاکستان کا بجٹ تواس کی فوج ہی کھاجاتی ہے۔
اسی فیصد تک کے دفاعی اخراجات کے گمراہ کن اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں جبکہ حقائق کے مطابق یہ دس گنا مبالغے سے بھی زیادہ ہے۔ غیر ملکی مفادات رکھنے والے مصنفین کی تضانیف کے ذریعے فوج کے زیر انتظام اداروں پر جعلی، من گھڑت اور یکطرفہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، کیا کہا، فوج کا کام دفاع ہے، کاروبار نہیں تو جواب ہے کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوتی چلی جار ہی ہے۔ اکیسویں صدی کی فوج صرف جنگی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہے۔ امریکا، چین اور اسرائیل جیسے ممالک کی افواج اضافی کردار ادا کرتی ہیں جیسے سفارتی اور ترقیاتی کام، معاشی ترقی، اداروں کی تعمیر، قانون کی حکمرانی اور اندرونی مفاہمت، اس میں سب سے بڑا حوالہ چین کی نیشنل آرمی کا ہے۔
پہلے ہم قابل نفرت معاشی پروپیگنڈے کی بات کر لیتے ہیں کہ پاکستان کی فوج پاکستان کا سارا بجٹ کھا جاتی ہے اور عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ تصدیق کرتا ہے کہ پاکستان کی فوج دنیا کے 145 ممالک کی ملٹری سٹرینتھ رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے جبکہ دوسری طرف اپنے پروفیشنل پرسیپشن انڈیکس میں اس سے بھی آگے ہے۔ جاپان، فرانس، اٹلی اور ترکی جیسے امیر اور ترقی یافتہ ممالک بھی ٹاپ ٹین رینکنگ میں اس سے پیچھے ہیں۔ اس برس دفاع کے لئے 18 کھرب 4 ارب روپے رکھے گئے ہیں، یہ دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا تقریباً 1.7 فیصد اور موجودہ مالی سال کے لیے مختص کُل اخراجات کا 12.5 فیصد بنتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق بَری فوج کے لیے کُل بجٹ میں سے 824 ارب 60 کروڑ روپے، پاک فضائیہ کے لیے 368 ارب 50 کروڑ روپے اور پاک بحریہ کے لیے 188 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور اس طرح جب ہم دفاعی بجٹ کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف پاکستان کی زمینی فوج یعنی پاکستان آرمی کابجٹ نہیں ہوتا۔ مزید تفصیلات کے مطابق دفاعی انتظامیہ کے لیے 5 ارب 40 کروڑ روپے، ملازمین سے متعلقہ اخراجات کے لیے 705 ارب روپے، انتظامی اخراجات کے لیے 442 ارب روپے، مادی اثاثوں کے لیے 461 ارب روپے اور سول ورکس کے لیے 195 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ہمارا براہ راست موازنہ اپنے دشمن بھارت سے بنتا ہے۔ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا محض 1.7 جبکہ انڈیا اپنی آٹھ گنا اکانومی یا جی ڈی پی کا 3.1 فیصد اپنے دفاع پر خرچ کر رہا ہے۔ جب پاکستان کااس برس کا بجٹ مختص کیا گیا تھا تو یہ سوا چھ ارب ڈالر تھا مگر روپے کی قدر میں کمی سے یہ چھ ارب ڈالر سے بھی نیچے آ گیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 5935 ارب انڈین روپوں سے زائد خرچ کر رہا ہے جو ساڑھے 72 ارب ڈالر سے بھی زائد بنتے ہیں۔
انڈیا نے اس برس اپنے بجٹ میں 13فیصد اضافہ کیا ہے۔ ترکی معاشی بحران کے باوجود 22 ارب امریکی ڈالر، سعودی عرب 46ارب ڈالر اور ایران ساڑھے 15 ارب امریکی ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ان ممالک کے علاوہ لبنان، اسرائیل، مراکش، اردن، آرمینیا، روس اور امریکا سب پاکستان سے بڑھ کے خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان دو دہائیوں پر پھیلی ہوئی دہشت گردی کی لہر کے باوجود نوے کی دہائی سے لے کر اب تک مسلسل اپنے دفاعی بجٹ میں کمی کرتا چلا آ رہا ہے۔ نوے کی دہائی تک یہ قوم اپنی جی ڈی پی کا سات فیصد تک دفاع پر خرچ کرتی تھی۔
اس صدی کے آغاز پر پہلے اسے چار فیصد کے قریب، پھر اڑھائی فیصد اور پھر دو فیصد سے بھی کم پر لایا گیا۔ پاکستان اس وقت دنیا میں ساتویں بڑی فوج ہونے کے باوجود اپنے سپاہیوں پر دوسروں کے مقابلے میں سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے جیسے جنگی جنون میں مبتلا انڈیا فی کس فوجی بیالیس ہزار امریکی ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے اور امریکہ تین لاکھ بیالیس ہزار، پابندیوں کے شکار ایران کا فی فوجی خرچ تئیس ہزار امریکی ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا صرف ساڑھے بارہ ہزار امریکی ڈالر۔ مجھے بطور محقق کہنے میں عار نہیں کہ اس کم ترین بجٹ کے ساتھ دنیا میں اول درجے کا پیشہ وارانہ انداز برقرار رکھنا ناقابل یقین کرشمہ ہے۔
پاک فوج کے یہ اعداد و شمار اس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتے ہیں جب بی بی سی کی اس برس مارچ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انڈیا گذشتہ پانچ برسوں سے ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ سیپری کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس انڈیا نے پوری دنیا میں فروخت ہونے والے ہتھیاروں کا گیارہ فیصد خریدا۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی خریداری ساڑھے تین فیصد سے کچھ زائد رہی۔
انڈیا کے بعد سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا ملک قطر ہے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ پاک فوج کی ہمیشہ سے اپنے بہترین پیشہ وارانہ معیار کے باعث دنیا بھر میں تربیت اور امن کے قیام کے لئے اہم ترین ترجیح رہی ہے۔ یہ کہنے میں عار نہیں کہ جنگ صرف کسی ملک کی فوج نہیں بلکہ ان کے پیچھے پوری قوم لڑتی ہے۔ ملک دشمن یہ پروپیگنڈہ اس لئے کرتے ہیں کہ قوم فوج کے پشت پر نہ رہے اور ہندوستان جب چاہے لاہور، اسلام آباد، کراچی کو غزہ بنا لے۔ اللہ، دشمن کے ارادوں کو ناکام بنائے، آمین۔