پاک فوج کے بجٹ بارے پروپیگنڈے پرٹھوس حقائق بیان کئے تو بہت سارے مزیدسوالات ملے۔ میں یقینی طور پر پاک فوج کا ترجمان نہیں۔ وہ بہتر طو ر پر اس حوالے سے وضاحت کر سکتے ہیں مگرمیں بطور صحافی اور محقق اپنی دلیل کا آغاز یہاں سے کروں گا کہ جدید دور میں فوج صرف سرحدوں کا دفاع نہیں کرتی بلکہ چین کی نیشنل آرمی کی طرح قوم کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردارادا کرتی ہے۔
پاک فوج کے سربراہ کئی بار واضح کر چکے کہ میرا اور تیرا نہیں بلکہ پاکستان ہمارا ہے اور پاک فوج کا اس کی ترقی کے لئے کردار باعث فخر ہے۔ یہاں سب سے بڑی انگلی ڈی ایچ ایز پر اٹھائی جاتی ہے مگر یہ ایک سیلف سسٹین ایبل بزنس، ہے جس میں قومی خزانے سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا جاتا بلکہ جی ڈی پی کی گروتھ اور ٹیکسوں کی مد میں بڑی کنٹری بیوشن کی جاتی ہے۔ ڈی ایچ ایزکی ستانوے فیصدپلاٹ سیل اوررہائشی سویلینز ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈی ایچ ایز کے ذریعے پاک فوج پاکستان کے لئے دو لت پیدا کر رہی ہے۔ یہی وہ سب سے بڑے علاقے ہیں جہاں تارکین وطن سرمایہ کاری محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ ڈی ایچ اے میں نہ تو قبضوں کے جھگڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی ملکیت کے۔ بہت ہی سیدھا سادا اور شفاف نظام ہے جس میں کرپشن کی ہر ممکن روک تھام کی جاتی ہے۔ کیا یہ اعداد وشمار دلچسپ نہیں کہ شہیدوں کے خاندانوں اور ریٹائرڈ افسران کے ساتھ جرنیلوں کا شئیر صرف اعشاریہ ایک تین فیصد ہے یعنی ایک فیصد سے بھی کم۔
ڈی ایچ اے کی ضرورت کیا ہے، یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے تو اس کا جواب ہے کہ پاک فوج کے افسران کو دوران ملازمت کاروبار کی اجازت نہیں ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جب وہ ریٹائر ہوں تو ان کے پاس بیٹی کی شادی سے کاروبار اور رہائش تک کے لئے سہولت موجود ہو۔ یہاں مفت پلاٹ صرف شہدا کی فیملیز کے لئے ہیں ورنہ باقی سب سروس چارجز بھی دیتے ہیں اور ڈیویلپمنٹ چارجز سمیت تمام ٹیکسز بھی۔
میری اطلاع کے مطابق یہاں سے بیس ارب کی ٹیکس کلیکشن ہوتی ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ ایک ادارے کی ہاوسنگ کالونیاں کیوں تواس کا جواب ہے کہ کیا پولیس، واپڈا اور پریس کلب تک دیگر اداروں کے ہاوسنگ پراجیکٹس نہیں ہیں او ر کیا کبھی ان پر اعتراض کیا گیا ہے، ہرگز نہیں، تو پھر فوج پر کیوں۔ بات صرف پاکستان کی نہیں ہے بلکہ مغرب میں آسٹریلیا اور مشرق میں بنگلہ دیش میں بھی ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ کیا یہ اہم نہیں کہ ڈیفنس جیسے رہائشی علاقوں کی وجہ سے باقی نجی رہائشی آبادیوں کے معیار بلند ہوتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ایک رول ماڈل ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ڈی ایچ اے کے مقابلے میں اب تک کوئی اس معیار کے ہاؤسنگ پراجیکٹ پیش نہیں کرسکا۔ یہ نئے اور جدید پاکستان کی پہچان بنتے چلے جارہے ہیں۔ تنقید یہ بھی ہے کہ فوج ان کے لئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتی ہے مگر کیا خلاف قانون ہوا ہے، اس کی کوئی مثال موجودنہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہاؤسنگ پراجیکٹ کوئی بھی ہو اس بارے بات نہیں ہوتی۔ کیا ٹی وی چینل چارسو نوے ارب والے معاملے میں کسی کا نام لیتے ہیں۔ کیا ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کے مالک وفاقی وزیر نہیں ہوتے اور اس وقت بھی ایک طاقتور نگران وفاقی وزیر نہیں ہیں؟
آگے بڑھتے ہیں، فوجی فاؤنڈیشن بزنس نہیں بلکہ ایک رفاعی پراجیکٹ ہے اوراس کے علاوہ ڈیفنس پروڈکشن ہے۔ پانچ برس میں فوج نے ڈیفنس پروڈکشنز کی ایکسپورٹ میں ستر ارب کا اضافہ کیا ہے اور چھ ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیا ہے، یہاں آٹھ ہزار نوکریاں بھی دی گئی ہیں۔ نوکریوں او رکاروباروں سے ہی آپ ڈی ایچ اے کو ملا لیں تو انہوں نے لاکھوں لوگوں کو روزگار اور کاروبار کے مواقع فراہم کئے ہیں او ر قومی خزانے سے ایک روپیہ لئے بغیر اربوں روپوں کی ٹیکس کلیکشن، شہریوں کی فی کس آمدن اور قوم کی جی ڈی پی میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔
میں آپ کو حیرت انگیز اعداد و شمار اور حقائق دیتا ہوں کہ پاک فوج نے ڈیفنس ایکسپورٹ سے پانچ برسوں میں ایک سو تیس ارب روپے قومی خزانے کو لوٹا ئے ہیں یعنی پچیس ارب روپے سالانہ سے زیادہ۔ پاک فوج کے ادارےسوشیو اکنامک کم سوک فیسلی ٹیز، میں نمایاں کردارادا کر رہے ہیں جیسے ایف ڈبلیو او اور این ایل سی۔ لاہو ر کی جیل روڈ عشروں پہلے ایف ڈبلیو او کے ذریعے بننے والے سڑک ہے جو آج بھی بہترین معیار کے ساتھ موجود ہے۔ موٹرویز کا جال بچھانے اور ان کے انتظام وانصرام میں ادارے کا کردارنظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
کیڈٹ کالجز اور آرمی پبلک سکولز ہی نہیں بلکہ نسٹ اور نمل سمیت بہت سارے دیگر ادروں کے ذریعے تعلیم کے شعبے میں خدمات سرانجام دی جار ہی ہیں۔ اعداد وشمار ہیں کہ فوج نے سات سو چوبیس ارب میں سے چار سو گیارہ ارب تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں میں اپنی خدمات سے قومی خزانے کو واپس کئے ہیں اور ان میں سے تین سو گیارہ ارب ہارڈ کیش کی صورت ہیں۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آرمی پرسانل پاکستان کی آبادی کا اعشاریہ دو فیصد ہیں مگر جب ہم پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی بات کرتے ہیں تو یہ مجموعی ٹیکس دہندگان کا نو اعشاریہ چھ فیصد بنتے ہیں۔
یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ فوج کو مارشل لا نہیں لگانے چاہئیں اور سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور اس کے لئے دو برس پہلے سیکٹر کمانڈروں کی سطح پر مشاورت کے ذریعے فیصلہ ہوچکا اوراس کا اعلان بھی کیا جا چکا۔ ایک پارٹی کے کچھ لوگ جو بھگت رہے ہیں وہ سیاست نہیں دہشت گردی تھی اور میرا سوال ہے کہ اگر پینٹاگون پر کسی پولیٹیکل پارٹی کے لوگ حملہ کرتے تو کیا امریکا انہیں چھوڑ دیتا، کیا ٹوئن ٹاورز پر حملے کا نتیجہ سب کے سامنے نہیں ہے، اس بحث کو پھرکریں گے واپس موضوع پر آتے ہیں۔
پاکستان آرمی نیشنل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے تاکہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جاسکے۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ ہماری بیوروکریسی، اس کا سرخ فیتہ اور کرپشن پرسیپشن لیول سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ پاک وطن کی معیشت اس وقت خصوصی توجہ کی متقاضی ہے۔ پاک فوج کا نوجوانوں کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی، کسانوں کے لئے زراعت، بلوچستان میں معدنیات اور اپنی سطح پر ڈیفنس پروڈکشن میں اضافے کے لئے کمر کس لینا یقینی طور پرمجموعی قومی پیداوار میں اضافے کا باعث بنے گا۔
پاک فوج کے سربراہ کا وژن ہے کہ اب یہ میرا تیرا نہیں بلکہ ہمارا معاملہ ہے کہ وطن ترقی کرے۔ اب یہاں میرا ایک سوا ل ہے کہ اگر پاک فوج اپنے ریٹائرڈ لوگوں کے لئے انتظام و انصرام کرتی ہے تو یہ قابل اعتراض اسی صورت ہو سکتا ہے کہ اس مصروفیت سے اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور سرگرمیوں پر اثر پڑ رہا ہو۔ پاکستان کی فوج اپنے کم ترین بجٹ کے ساتھ دنیا کے پروفیشنل انڈیکس میں ان فوجوں سے بھی بہتر ہے جو اس سے دس، دس گنا زیادہ خرچ کرتی ہیں تو پھر اس پر اعتراض تعصب، بغض اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے۔