میرا گلہ، شکوہ ان سے ہے جو پاکستان میں رہتے ہیں، پاکستان کا کھاتے ہیں، اسی سے عزت، دولت، عہدے اور شہرت لیتے ہیں مگر ان میں سے کچھ سعودی عرب کے وفادار ہیں اور کچھ ایران کے، کچھ کے نظریاتی اور مفاداتی ڈانڈے امریکہ اور یورپ سے جا ملتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ کچھ پاکستان کی بجائے یہاں غیر قانونی مقیم افغانوں کے غم میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں۔
ایک صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے سینیٹر ہیں اور بیشتروہی بات کرتے ہیں جو متنازع ہو جیسے انہیں کچھ عرصہ پہلے علم ہوا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے قانون میں عورتوں کو مرد اور مردوں کو عورت بنایا جا رہا ہے مگر وہ سب بصد احترام سستی شہرت کے لئے تھا اور اب ان کا کہنا ہے کہ اکتیس اکتوبر کے بعد یعنی آج سے افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر زبردستی واپسی غیر قانونی، غیر دستوری اور غیر انسانی ہے، انہوں نے سینیٹ میں زیر قاعدہ 218 جمع کرائی گئی تحریک میں جان بوجھ ایک لفظ کی جگہ تبدیل کر دی۔
مجھے جناب مشتاق احمدخان سے کہنا ہے کہ غیر قانونی کا لفظ واپسی کے ساتھ نہیں بلکہ افغان مہاجرین کے ساتھ آنا چاہئے تھا جس کے بارے میں پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے لے کر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ تک بار بار واضح کرچکے۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں بین الاقوامی سرحد کو نظرانداز کرتے ہوئے بغیر کسی ویزے اور پاسپورٹ کے داخل ہونے کا حق حاصل ہے۔ یہ دنیا کا وہ واحد ملک بھی ہے جس نے چار عشروں سے لاکھوں بے گھر ہونے والے ہمسائیوں کا بوجھ اٹھایا مگرا س کے جواب میں کبھی شکریے کا ایک لفظ تک نہیں آیا بلکہ جو آیا وہ گالیاں تھیں، کلاشنکوفیں تھیں، منشیات تھیں اور خود کش حملہ آور تھے۔
میرا دل اس وقت بہت دکھاجب افغانوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو شکست دینے کے بعد ایسے جشن منایاجیسے انڈیا نے پاکستان کو ہرا دیا ہو۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اس وقت افغانستان میں حکومت بھی وہ ہے جسے اپنے قیام کے سلسلے میں پاکستان کی درست یا غلط کی گئی کوششوں پر اس کا شکرگزار ہونا چاہیے مگر دوسری طرف ایک سے زیادہ بار بریفنگز میں بتایا جا چکا کہ اس برس جنوری سے اب تک ہونے والے چوبیس خود کش دھماکوں میں سے چودہ غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افغان شہریوں نے کئے۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں سے کوئٹہ اور کراچی تک ہمارے بازاروں میں ان افغانیوں کی بھرمار ہے جو روس کی مداخلت کے بعد پاکستان آئے۔ انہوں نے یہاں پر شادیاں کیں اور بچے پیدا کئے۔ خود ان کی عورتیں بھی پاکستانیوں میں بیا ہی گئیں یعنی اس وقت شہریت کا مسئلہ پیچیدہ ہو چکا۔ ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جنہوں نے، نادرا جیسے ادارے کے قیام سے پہلے اور بعد، تھوڑے جائز اور زیادہ ناجائز طریقوں سے شناختی کارڈز بنوا لئے۔
کیا ہی دلچسپ بات ہے کہ ہمارے فکری مغالطے پیدا کرنے والے ہمیں اپنے شہید ہونے والے ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہونے دیتے، وہ ان کے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ پاکستانیوں کو ہیروئن اور کلاشنکوف دینے والوں کا مقدمہ لڑتے ہیں، وہ اس ملک میں سمگلنگ کرنے والوں کو اپنا بھائی کہتے ہیں۔ انہیں اپنے وطن اور ہم وطنوں میں ہر برائی نظر آتی ہے مگر ان میں نہیں جن کی پوری معیشت ہی وار لارڈز، منشیات، اسلحے اور اسمگلنگ پر کھڑی ہے۔
وہ اپنی جمع کرائی گئی تحریک میں کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابر ستار نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جو شہریان پاکستان کو حاصل ہیں اگرچہ ان کے ساتھ دستاویزات اور اجازت نامہ بھی نہ ہو۔ اس دلیل پر یقین کیجئے اپنا ہی سر پھوڑ لینے کو دل چاہتا ہے۔ اس سے پہلے انہی کے ایک امیر نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونے والے پاکستانی فوجیوں کی شہادت کو متنازع بنا یا تھا۔
مشتاق احمد خان کی تحریک میں پانچواں نکتہ یہ ہے کہ ایک نگران حکومت اور ایک نام نہاد اپیکس کمیٹی کو اس سٹریٹیجک فیصلے کا اختیار ہی نہیں ہے اور میں کہتا ہوں کہ کمال کرتے ہوپانڈے جی۔ پہلی بات یہ کہ ہر حکمران کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ خرابی کی اصلاح کرے اور ہم بہت سارے اہم فیصلوں کے لئے اس لئے بھی نگران حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی حکومتیں ایسے فیصلے کرنے میں اپنے مفادات کے باعث ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔
انہیں سیٹیں جیتنے کا مسئلہ درکار ہوتا ہے اور اس سلسلے میں کراچی تک میں پختونوں کے ووٹ اہمیت اختیار کر چکے ہیں مگر میں مشتاق احمد خان اور دیگر کو بتانا چاہتا ہوں کہ خود پختونوں اور بلوچوں کی واضح اور بھاری اکثریت چاہتی ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو واپس بھیجا جائے او ر اگر ان میں سے کوئی واپس آنا چاہتا ہے تو طے شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق دستاویزات پوری کرکے آئے۔
پختونوں کو کیا سہولت مل رہی ہے اس کا اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ اس مدت کے شروع ہونے کے بعد خیبرپختونخوا اورقبائلی علاقوں میں زمینوں، مکانوں کی قیمتیں گر گئی ہیں۔ کاروبار اور روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اس موقعے پر غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کے پشتی بان بن کے سامنے آئے تو وہ پختون جو انہیں چند ووٹ دے دیتے ہیں اس سے بھی توبہ کر لیں گے۔ ان معصوم دوستوں کے اسی قسم کے فیصلوں پر میں پوچھتا ہوں کہ وہ ہر موقعے پر غلط اور نقصان دہ فیصلہ کیسے کر لیتے ہیں؟
میں ببانگ دہل کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان پر سب سے پہلا حق پاکستانیوں کا ہے اور یہ بھی کہ اگر افغانستان ہمارے بہت سارے دوستوں کے مطابق امن اور اسلام کی جنت بن چکا تو افغانیوں کو واپس چلے جانا چاہئے جس کی کرنسی کے وہ پاکستانی روپے سے بھی زیادہ مضبوط ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میر اسوال یہ بھی ہے کہ وہ جس طرح پنجاب کے شہروں میں کاروبار اور روزگار لئے ہوئے ہیں کیا یہی حق وہ پنجابیوں اور سندھیوں سمیت دیگر پاکستانیوں کو اپنے علاقوں میں دیں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان افغانوں کو پنا ہ دینے کا فیصلہ غلط تھا مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر یہ پناہ تھی تو پناہ گزین کوپناہ گاہوں تک ہی محدود رکھنا چاہئے تھا۔
ابھی دانشوروں کی ایک محفل میں جماعت اسلامی کراچی کے معروف رہنما نے میرے سوال کے جواب خدشہ ظاہر کیا کہ جن لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کیا وہ اس پر برقرار رہیں گے، کیا سمگلنگ اور ہیومن ٹریفکنگ رکی رہے گی کہ ا س سے بڑی کمائی ہے تو میرا جواب تھا کہ مجھے نہیں علم کہ وہ کتنی دیر اس پر سختی سے قائم رہیں گے مگر مجھے اتنا علم ہے کہ ہونا یہی چاہئے جو اب ہو رہا ہے۔ فکری مغالطوں سے بالاتر ہو کر ہمیں کبھی تو پاکستانی بن کے سوچنا ہوگا، سب سے پہلے پاکستان کو رکھنا ہوگا۔