Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. PTI Ka Railway

PTI Ka Railway

تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے پہلے ریلوے ترقی کی راہ پر چل پڑا تھا، سابق دور حکومت کے آخری برس میں اس کی آمدن پچاس ارب روپے ریکارڈ کی گئی تھی اور پانچ برسوں میں اس کی آمدن میں اضافہ بتیس ارب روپے تھا۔ اسی دوران پہلی مرتبہ ریلوے نے اپنی ٹرینوں، اسٹیشنوں، ٹریک اور ریکس (یعنی بوگیوں) کو اپ گریڈ کرنا شروع کیا تھا، مشرف دور میں دہشت گردوں کی طرف سے اڑائے گئے سبی ہرنائی ٹریک کودوبارہ تعمیر کیا گیا تھا، اٹھارہ ٹرینوں کے پچپن سے زائد ریک اپ گریڈ ہوئے تھے، جدید امریکی کمپیوٹرائزڈ لوکوموٹیوز کو ریلوے کا حصہ بنایا گیا تھا، آئی ٹی ڈپیارٹمنٹ کو اس طرح منظم کیا گیا تھا کہ ایک کروڑ روپے کی ٹکٹیں فروخت کر کے پاکستان میں ایک دن میں آن لائن ریونیو کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا تھا، ریلوے نے اپنی زمینوں کا ریکارڈ بھی کمپیوٹرئزاڈ کیا تھا اور اس دوران پٹوار خانوں میں گم شدہ ہزاروں ایکڑ زمین بھی واپس ملی تھی، یہی وہ دو ر تھا جب لاہور سمیت مختلف ریلوے اسٹیشنوں سے سو فیصد وقت کی پابندی کو یقینی بنایا گیا تھا جو اس ریلوے کے لئے یقینا ایک انقلاب تھا جس میں بلور صاحب کے دور میں ٹرین اگر وقت پر پہنچتی تھی تو علم ہوتا تھا کہ یہ پورے چوبیس گھنٹے لیٹ ہے۔ انگریز دور کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ ڈیڑھ سے دو درجن کے لگ بھگ ریلوے اسٹیشن نئے بنے تھے جن میں تعمیراتی خوبصورتی کے علاوہ کمرشل ایکٹی ویٹی کو بھی سامنے رکھا گیا تھا۔ رائل پام واپس لیا گیاتھا۔ فریٹ ٹرینوں میں ایسا اضافہ ہوا تھا کہ منڈی بہاوالدین جیسے علاقوں میں جہاں پہلے سارا سارا دن ایک آدھ ٹرین گزرا کرتی تھی، خواجہ سعد رفیق کے دور میں وہاں کے پھاٹک ایک دن میں اٹھارہ، اٹھارہ مرتبہ بند کرنے پڑتے تھے، ریلوے کی وہ فیکٹریاں جو چھ چھ ماہ بند پڑی رہتی تھیں وہ تین تین شفٹوں میں کام کرنے لگیں، یہی وہ دور تھا جب چین نے سی پیک کے تحت پاکستان ریلوے کی اپ گریڈیشن کے منصوبے کی منظور ی دے دی تھی اور ریلوے میں ایک نئے دور کا خواب دیکھا گیا تھا۔

مگر پھر پی ٹی آئی کی حکومت قائم کر دی گئی اور سب سے پہلا ظلم توایک نئے دور کے خواب کے ساتھ ہوا۔ کام کر نے والے افسران کے ساتھ بدتمیزی شروع ہوئی اور سی پیک ٹیم لیڈر اشفاق خٹک کے ساتھ میٹنگ میں جو سلوک کیا گیا وہ ایک پیغام تھا اور اس پیغام کے بعد کام کرنے والے افسران نے ریلوے کو خیرباد کہنا شروع کر دیا۔ جب ریلوے میں جاوید انور بوبک اور حمید رازی جیسے افسران نہیں رہے جو میٹنگ میں وفاقی وزیر کے منہ پر یہ کہہ دیتے تھے کہ فلاں تجویز اور ارادہ ریلوے کے مفاد میں نہیں اور اجلاس یوں ہوتے تھے کہ وزیر اور سی ای او ایک دوسرے سے ناراض ہوتے تھے مگر مجال ہے کہ کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی ہوتی ہو، کوئی تبادلہ ہوتا ہو۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ پھر وہ افسران آ گئے جن سے یہ کہا جاتا تھا کہ کل سمندر میں سعودی عرب تک ریلوے لائن بچھا دی جائے تو وہ وزیر کو کہتے تھے جناب کل کیوں، آج ہی بچھا دیتے ہیں۔ یہ افسران حکومتی عمائدین کی چاپلوسی کے لئے ایسی ٹرینیں چلاتے رہے جن میں ایک ایک اور دودو مسافر ہوتے تھے اور پھر وہ بند کرنی پڑیں۔ یہ بات تو ریکارڈ کا حصہ بن چکی کہ ابھی تین برس مکمل نہیں ہوئے مگر پاکستان ریلویز کو سواکھرب کے قریب ریکارڈ خسارہ ہو چکا ہے۔ ٹرینوں کی وقت کی پابندی ایک مرتبہ پھر ہوا ہو گئی اور ان کی اپ گریڈیشن فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے رک گئی۔ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ انہوں نے برسوں اورعشروں کے بعد دوبارہ ٹرینوں پر سفر شروع کیا ہے وہ ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر ریلوے اور منسٹر کے پیجز پرہی بدنظمی اور بدانتظامی کا شور مچانے لگے کہ کبھی اے سی بند اور کبھی لائٹیں مگر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ ریلوے ملازمین کی تنخواہیں جو ہر مہینے کی اکتیس تاریخ کو ان کے اکاونٹس میں منتقل ہوجاتی تھیں ا ن میں تاخیر ہونے لگی، تاخیر تک تو خیر تھی مگر پی ٹی آئی حکومت قائم ہونے کے چھ ماہ بعد ہی ریٹائر ہونے والے ملازمین کو واجبات کے حوالے سے جواب دے دیا گیا، ان میں وہ بیوہ خواتین بھی شامل تھیں جن کے شوہر دوران ملازمت انتقال کر گئے تھے اور ان کے پاس آمدن کا کوئی ذریعہ ہی نہیں تھا، بیوائیں بیٹیوں کی شادیوں کے کارڈ لے کر یوں ریلوے ہیڈکوارٹرز میں گھومتی ہیں جیسے وہ اپنے شوہروں کے حق حلال کے پیسے نہیں بلکہ افسروں سے خیرات مانگنے آئی ہوں اور اس مہینے تو ایک لاکھ بیس ہزار پنشنروں کو بھی جوابا ہو گیا ہے اور وہ بے چارے پریشان ہو کر پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے کے لئے پہنچ گئے ہیں۔

خواجہ سعد رفیق سے گذشتہ روز ہونے والے حادثے کے بعد بات ہوئی، وہ درست کہتے ہیں، ان حکمرانوں نے جو پاکستان کا برا حال کیا بعینہ ریلوے کو تباہ کیا ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور ریلوے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں، ایک دوسرے کا عکس ہیں، اگر پاکستان تباہ ہو رہا ہو تو ریلوے بھی ہو رہا ہو گا اور اگر ریلوے کا برا حال ہو تو جان لیجئے، سمجھ لیجئے، مان لیجئے کہ پاکستان کی بھی خیر نہیں ہے۔ ریلوے کے ایک شعبے کو ہی دیکھ لیجئے اور وہ آئی ٹی کا ہے۔ وہاں ایسی ٹیلنٹڈ ٹیم رکھی گئی کہ جس نے ریلوے کی ٹکٹوں کی فروخت کو آن لائن کر دیا، روزانہ کروڑوں کی آمدن ہوتی تھی اور ایک ایک روپے کا حساب ہوتا تھا مگر ان تمام کو صرف اس وجہ سے نکال باہر کیا گیا کہ وہ میرٹ پر تھے اورڈیلیور کر رہے تھے، ان کی جگہ راولپنڈی کے کچھ نااہل لونڈے لپاڈے بھاری معاوضے پر رکھ لئے گئے۔ یہ بھی پی ٹی آئی کے دور میں ہی ہوا کہ کروڑوں، اربوں کی آمدن کرنے والا آئی ٹی کا شعبہ بیٹھ گیا، اس کی ویب سائیٹ سے ایپ تک کی بکنگ بند ہو گئی اور ریلوے اکیسویں صدی سے دوبارہ انیسویں صدی میں چلا گیا۔ ریلوے ہیڈکوارٹرز، جہاں سیاست کا داخلہ منع تھا وہ سیاست کا اکھاڑہ بن گیا۔ تباہی اور ناکامی کا کوئی ایک باب ہو تو بیان کیا جائے، یہ تو ہزار ابواب کی داستان ہے اور ہر باب میں نااہلی، بدعنوانی، مفاد پرستی کی سو، سو کہانیاں ہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر یہی حال کچھ عرصہ اور رہا تو ریلوے بند ہوجائے گا، ستر، اسی ہزار خاندان بھوکے مریں گے اور کھربوں روپوں کی اثاثے آٹا، گھی، چینی اور پٹرول جیسے مافیاز لے اڑیں گے۔

اس حادثے پر بھی بات کرنی ہے کہ اگر سی پیک کے تحت ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن کا عمل وقت پر شروع ہوجاتا تو اس کا فیز ون تکمیل کے قریب ہوتا اور یہ بھی کہ اگر تعمیر و ترقی کا وہ دور جاری رہتا تو اس وقت ریلوے کی آمدن کم و بیش سترسے اسی ارب روپوں کے درمیان ہوتی کیونکہ اس کے پاس امریکی کماو پوت لوکوموٹیوز آ گئے تھے اور اس کی فیکٹریاں جدید فریٹ ویگنیں دھڑا دھڑ تیار کر رہی تھیں۔ ریلوے پاکستان میں بحالی، ترقی اور جدت کا جامعات میں پڑھایا جانے والا ایک ماڈل ہوتا۔ اس کی پٹریوں اورکراسنگز پر جدید سگنل لگ چکے ہوتے جن کے پروٹوٹائپ منسٹری آف ڈیفنس پروڈکشن کے ذیلی ادارے نے تیار کئے تھے اوروہ پانچ لگا دئیے گئے اور اب ان کی کمرشل پروڈکشن شروع ہونی تھی مگر وہ سب خواب، خواب ہی ضائع نہیں ہوئے بلکہ ان خوابوں کو حقیقت بنانے کے لئے کی جانے والی دن رات کی محنت بھی رائیگاں گئی۔ آئیے ہمارے نصیب میں نقصان پر افسوس کرنا ہی ہے، جنازوں پر آہیں بھرنا ہی ہے۔ میں خواجہ سعدرفیق سے کہتا ہوں، سعد بھائی، آپ کے والد اور والدہ سے لے کر آپ بھائیوں تک خاندان نے نسل در نسل وطن اور عوام سے وفا کی قیمت چکانی ہے، وہ آپ چکائیں، آہ، اہل وفا کے حصے میں فقط عذر ہیں، جواز ہیں، عذاب ہیں۔