میں پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اور ان کی غریب عوام کے مسائل کے حوالے سے بہت ہی منطقی اور ہمدردانہ اپروچ کو بھی۔ یہ ان کا ہی بنایا ہوا چینل تھا جس نے لایعنی سیاسی مباحث پر حقیقی عوامی ایشوز کو اہمیت دی، ان کے حل کے لئے آواز بلند کی حالانکہ اس وقت بھی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ریٹنگز صرف اور صرف سیاستدانوں کو آپس میں لڑانے میں ہیں۔
یہ صحافت میں ایک نئے دور کا آغاز تھا جب ہیڈلائنز سیاسی بیان بازی کی بجائے عوامی مسائل پر ہوئیں اور پروگراموں میں توتومیں میں کی بجائے صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور دیگر مسائل پر بات ہوئی، اس پازیٹیو اپروچ اور تعمیری صحافت کی گواہی مجھ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا۔ انہوں نے صحافت کو نئے ٹرینڈ دئیے جس نے حکومتوں کی گورننس کو بھی بہتر بنایا۔
آج وہ خود پنجاب کے نگران سہی مگر طاقتور وزیراعلیٰ ہیں۔ بہت ساری آئینی اور قانونی بندشوں کے باوجود ان کے حکومتی انداز اور انتظامی اقدامات کو دیکھتے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ اگلے پانچ برسوں کے لئے بھی ایساہی وزیراعلیٰ ہونا چاہئے مگر مجھے سرکاری ملازمین کے حوالے سے نگران حکومت کے اقدامات نے حیران اور پریشان کر دیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ان کو مشورے دینے والے کون ہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان کے پاس انفارمیشن کے متنوع ذرائع ہیں جو بہتر فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مجھے کئی فیصلوں سے لگتا ہے کہ سرکاری ملازمین کے حوالے سے ان کے ساتھ سازش ہو رہی ہے۔ پہلا مسئلہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر ملنے والے واجبات کا ہے۔ مجھے ایپکا اور اگیگا سمیت دیگر تنظیموں کے رہنما حاجی محمد ارشاد، کاشف شہزاد چوہدری، ظفر علی خان اور دوسرے بتا رہے تھے کہ ان واجبات پر بہت بڑا کٹ لگا دیا گیا ہے۔
میں زیادہ تکنیکی نوعیت کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوں مگر بتایا جا رہا ہے کہ واجبات کی ادائیگی اب موجودہ بیسک پے کی بجائے ابتدائی بیسک پر ہوگی جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ نے آج سے تیس برس پہلے سات ہزا ر روپے ماہانہ پر نوکری کا آغاز کیا تھا اوراب آپ کی بنیادی تنخواہ ان تمام برسوں میں ملنے والے اضافوں کے بعد ستر ہزار روپے ہو چکی ہے لیکن آپ کو ریٹائرمنٹ پر واجبات آپ کی پہلی لی ہوئی تنخواہ پر ملیں گے جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ جس کو ستر لاکھ ملنے ہیں اسے سات لاکھ ملیں گے۔
سرکاری ملازمین عمر بھر کی ملازمت کے بعدان واجبات سے بیٹیوں کی شادیاں کرتے ہیں، اپنی زندگی گزارنے کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں۔ سچ بات تویہ ہے کہ سرکاری ملازمت کی دلکشی بھی اب یہی ہے جو اسے پرائیویٹ جاب سے مختلف بناتی ہے، ایپکا سمیت دیگر تنظیمیں ایل پی آر میں کٹوتی سراپا احتجاج ہیں۔
پنجاب کے سرکاری ملازمین کے حوالے سے دوسرا غلط فیصلہ بجٹ میں ہوا ہے کہ گریڈ ایک سے سولہ تک کی تنخواہوں میں پینتیس کی بجائے تیس فیصد اضافہ کیاگیا ہے۔ بتایا جا رہا تھا کہ پنجاب کا بجٹ سر پلس ہے اور میں حیران ہو رہا تھا کہ پھر سرکاری ملازمین کو یہ محرومی اور مایوسی دینے کی کیا ضرورت تھی۔ تیس فیصد اضافہ بھی کم نہیں ہوتا لیکن معاملہ یہ ہے کہ جب وفاق، سندھ اور خیبرپختونخواہ پینتیس فیصد اضافہ دے رہے ہیں تو پنجاب جو اپنے وسائل میں بھی دوسرے صوبوں سے بڑا ہے، وہ پانچ فیصد بچا کے کون سی توپ چلا رہا ہے۔
میں وزیراعلیٰ سے کہوں گا کہ وہ گذشتہ دس برس سے سرکاری ملازمین کو مختلف صوبوں میں ملنے والے اضافوں پر موازنے کی ایک رپورٹ بنوائیں۔ انہیں علم ہوگا کہ پنجاب کے سرکاری ملازمین وفاق ہی نہیں بلکہ سندھ اور خیبرپختونخواہ کے ملازمین سے بھی بہت پیچھے رہ چکے ہیں جیسے سندھ نے جب تنخواہوں میں بیس فیصد اضافہ دیا تو اس وقت کی پنجاب حکومت نے دس فیصد بڑھائی اور پھر یہ تفاوت ہر سال بڑھتا ہی چلا گیا۔
پنجاب کے سرکاری ملازمین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچائے گااور مسلم لیگ نون کو نقصان جو پہلے ہی ایک مخلوط حکومت ہونے کی وجہ سے مہنگائی کے تمام تر الزامات اکیلے اپنے سر پر اٹھار ہی ہے، اس کی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اقتدار میں بڑی شیئر ہولڈر ہونے کے باوجودسیاسی نقصانات میں حصے دار نہیں بن رہی۔ اس مجموعی اقتصادی اور سیاسی صورتحال کو نواز لیگ کے لئے ایک سازش سمجھا جا رہا ہے۔
اب ہم پنشن کی طرف آجاتے ہیں جس میں صرف پانچ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ جب مہنگائی رئیل انڈیکیٹرز میں چالیس، پچاس فیصد اضافے سے بھی باہر نکل رہی ہو تو ان بوڑھے لوگوں کے لئے پنشن میں پانچ فیصد اضافہ حقیقی معنوں میں ان کی قوت خرید میں ایک بڑی کمی ہے۔ یہ بنیادی طور پر اقتصادیات کا کم اور بنیادی انسانی حقوق کا زیادہ معاملہ ہے۔ جس بزرگ بندے کی انسولین ہی ان پانچ برسوں میں پانچ گنا قیمت پر پہنچ چکی ہو وہ پانچ فیصد اضافے کے بعد اپنی دوا کیسے افورڈ کر سکتا ہے۔
ہم سب کو ان سب بزرگوں کواپنے بزرگوں کی صورت میں دیکھناچاہئے۔ میں اپنے ذاتی تعلق کو سامنے رکھتے ہوئے اس فیصلے کو کچھ بھی نہ کہوں تو ایک غیر ہمدردانہ فیصلہ ضرور کہوں گا جس نے بہت سارے مجبور اوربے کس لوگوں کے دل کو دکھا دیا ہے، اپنی خوراک اور ادویات تک کے لئے پریشان کر دیا ہے۔ جب نگران حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ صرف چار ماہ کی مد ت کے لئے ہے تو اسے غیر مقبول فیصلے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اسے وفاقی حکومت کے دئیے ہوئے اعداد و شمار فالو کرتے ہوئے یہ معاملات طویل مدت کی سیاسی منتخب حکومت پر چھوڑ دینے چاہئیں۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ان معاملات سے ہٹ کے پنجاب کا چار ماہ کا بجٹ شاندار ہے۔ پنجاب حکومت نے چھ سو ارب روپوں کا وہ قرضہ فوری طور پرادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اس برس کے اختتام تک گیارہ سو ارب روپوں تک پہنچ جاتا یعنی یہ پانچ سو ارب روپوں کی سیدھی سادی بچت ہے۔ صحت اور تعلیم کے بجٹ میں اکتیس فیصد اضافہ بھی قابل تعریف ہے۔
زراعت کے لئے مراعات اور آئی ٹی کا ٹیکس فری ہونا بھی تاریخی ہے۔ حکومت نے سو ا تین سو ارب روپے جاری ترقیاتی سکیموں کے لئے رکھے ہیں اور فیصلہ کیا ہے کہ چار ماہ میں پچاس فیصد ترقیاتی سکیمیں مکمل کر لی جائیں گی۔ کاروباری طبقہ خوش ہے کہ پنجاب حکومت نے بھی کوئی بڑے ٹیکس نہیں لگائے۔ کارڈیلرز فیڈریشن کے صدر شہزادہ سلیم اور ڈی ایچ اے ایجنٹس ایسوسی ایشن کے صدر حاجی طلعت بتا رہے تھے کہ ان کے کاروبار بہتر ہونے کی توقع لگائی جار ہی ہے مگر اتنے بہت سارے اچھے، مثبت اور تعمیری اقدامات میں سرکاری ملازمین کے حوالے سے فیصلوں نے تشویش پیدا کر دی ہے۔
ایک دوست وہی ہوتا ہے جو درست بات بتائے اور درست بات یہ ہے کہ پندرہ، سولہ لاکھ ان سروس اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے ساتھ اچھا نہیں ہو رہا جنہوں نے اپنی ہمت، صلاحیت اور استطاعت کے مطابق صوبے کی خدمت کی ہے اور کر رہے ہیں۔