Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Riyasat Aur Awam

Riyasat Aur Awam

حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ پاکستان چار فیصد کے قریب شرح سے ترقی کر رہا ہے، مجھے اس بحث میں نہیں جانا کہ یہ شرح ماضی میں کیا تھی مگر اس بحث میں ضرور جانا ہے کہ اگر ترقی ہو رہی ہے تو وہ پاکستان کے عوام کے معیار زندگی سے ظاہر کیوں نہیں ہو رہی۔ یہ عجب تضاد ہے کہ ملک کے ترقی کرنے کے دعویٰ سے کئی گنا تیز رفتار کے ساتھ ملک کے عوام خط غربت سے نیچے جا رہے ہیں۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ خود وفاقی ادارہ شماریات کہتا ہے جس نے سماجی معیارات زندگی کے حوالے سے سروے میں 38فیصدگھرانوں کے معاشی حالات کو پہلے سے زیادہ بدتر قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق 12فیصد نے پہلے سے بہت زیادہ بدتر اور 26فیصد نے پہلے سے بدتر قرار دیا، 46فیصد نے کہا کہ ان کے حالات پہلے جیسے ہیں، یہ عین ممکن ہے کہ باقی 12فیصد نے پہلے سے بہتر کہا ہو۔ مزید تقسیم یوں ہے کہ سندھ میں 29فیصد، کے پی کے میں 27فیصد، پنجاب میں 25فیصد اور بلوچستان میں 22فیصد گھرانوں نے معاشی حالات کو برا کہا۔

میں ان بارہ فیصد گھرانوں کو بھی اہمیت دیتا ہوں جو اپنی معاشی حالات کو نہ پہلے سے بدتر کہتے ہیں نہ پہلے جیسا۔ یہ درست ہے کہ جناب عمران خان کی حکومت میں تین شعبوں نے ترقی کی ہے، پہلا شعبہ تعمیرات کا ہے جس میں کالے دھن کی سرمایہ کاری پر سابق دور میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں مگر موجودہ دور میں ایک بولڈ سٹیپ کے طور پرکنسٹرکشن میں اس پابندی کا خاتمہ کیا گیااور اب ہمیں جگہ جگہ نئی ہاوسنگ کالونیاں بنتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ میں چاہوں گا کہ کوئی اس پر بھی تحقیق کرے کہ ان ہاوسنگ کالونیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے کون ہیں، اول، وہ لوگ جو تارکین وطن ہیں، د وم، وہ جن کی آمدن میں گذشتہ دو سے تین برس میں منفی گروتھ کے باوجود اضافہ ہوا۔ د وسرا شعبہ ٹیکسٹائیل کا ہے جس نے دنیا میں بھر لاک ڈاون کے دوران حکومتی پالیسی کا فائدہ اٹھایا جس نے بھرپور رسک لیتے ہوئے اپنی ملز کو کھولے رکھا اور یوں یورپ سے چین تک انڈسٹری بند ہونے سے آرڈرز کا رخ پاکستان کی طرف ہو گیا۔ تیسرا شعبہ فارماسیوٹیکل کا ہے جس کی اندھی کمائی سمجھ میں آنے والی ہے۔

کیا آپ بارہ فیصد عوام کی خوشحالی کو پاکستان کی خوشحالی کہہ سکتے ہیں، میں ایسا نہیں کہہ سکتا کہ میرے سامنے وہ سرکاری ملازمین ہیں جو گذشتہ برس اکتوبر اور اس برس فروری میں وعدہ کیا گیا پچیس فیصد ڈسپیریٹی الاونس کو لینے کے لئے سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ حکومت اپنے دس، بارہ فیصد پیارے ملازمین کی تنخواہیں ڈیڑھ سو فیصد تک بڑھا چکی ہے۔ حکومت زراعت کی ترقی کا بھی دعویٰ کر رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر زراعت نے ترقی کی تو ہم نے گندم سے کپاس تک بنیادی ضروریات کو امپورٹ کیوں کیا، ہم گندم میں ایک عشرے سے زائد سے خود کفیل تھے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اوپر بیان کئے گئے تین شعبوں نے اپنے فائدے کو اپنے ملازمین اور عوام تک بھی پہنچایا او رمیرے پاس اس کی اطلاع نفی میں ہے۔ مجھ پر یہ تاثر واضح ہوتا چلا جا رہا ہے کہ پاکستان کے صرف دس سے بارہ فیصد عوام نے کامیابی اور بہتری حاصل کی جن میں حکمران بھی ہیں جنہوں نے اپنی تنخواہیں دو لاکھ سے آٹھ، آٹھ لاکھ تک ہی نہیں بڑھائیں بلکہ انہوں نے مبینہ طور پر پٹرول کے بحران، چینی کی مہنگی فروخت سے پنڈی رنگ روڈ تک میں اربوں، کھربوں بھی کمائے۔

دعویٰ یہ ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی بڑھ گئی، ملک کی مجموعی دولت میں اضافہ ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوا بلکہ اس کا مطلب مہنگائی ہے۔ میں بطور پاکستانی شہری اگر ایک گھر کا مالک تھا اور اس کی قیمت پچاس لاکھ روپے تھی جو پچیس فیصد بڑھ کر ساڑھے باسٹھ لاکھ روپے ہو گئی تو میری دولت میں تو یقینی طور پر اضافہ ہوا مگر میری خوشحالی میں نہیں ہوا کیونکہ اگر میں اپنا گھر پچیس فیصد اضافے پر بیچوں گا تو مجھے دوسرا گھر یا کوئی بھی دوسری شے اتنے ہی اضافے کے ساتھ ملے گی یعنی عملی طور پر میں وہیں کھڑا رہا۔ میری مجموعی دولت میں حقیقی اضافہ اس وقت ہوتا جب میرے پاس پچاس لاکھ کے ایک گھر کے ساتھ دوسرا گھر بھی آجاتا اور قیمتیں وہیں رہتیں۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کی فی کس آمدن بڑھ گئی اور یہ دعویٰ بھی گمراہ کن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارہ فیصد پاکستانیوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر اٹھاسی فیصد کی کمائی میں کمی ہوگئی۔ یہ اوسط کچھ اس طرح نکالی گئی کہ آپ کا ایک پاوں جلتے ہوئے کوئلوں میں تھا اور دوسرا برف پر تھا لہٰذا اسد عمر اور شوکت ترین صاحب کے حساب سے آپ مزے میں تھے۔ یہ بارہ فیصد وہ طبقہ ہے جو اس وقت مہنگی کاروں اور پلاٹوں کی خریداری کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں نئی نئی کاریں متعارف ہو رہی ہیں، ہر شہر میں نئے پلاٹ بک رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ان تین برسوں میں غریب، غریب تر ہوا ہے اور امیر، امیر تر۔ ایک پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے دو پاکستان بنا دئیے ہیں۔ ایک امیروں کا پاکستان ہے جس کی گروتھ آپ چار فیصد نہیں بلکہ دس، بیس اور تیس فیصد بھی کہہ سکتے ہیں، کچھ نے تو اپنی جائیدادیں ڈبل کر لی ہیں مگر دوسری طرف بھاری اکثریت وہ ہے جسے معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔ حکمران جس پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ جہانگیر ترین کا پاکستان ہے جس کی پچپن روپے مالیت کی چینی ایک سو دس روپوں میں فروخت ہو رہی ہے حالانکہ اصل پاکستان وہ ہے جو اس چینی کو اپنی محدود کمائی میں دوگنے پیسے دے کر خریدنے پر مجبور ہے، اسی طرح آٹے کی صورتحال ہے، بجلی کے بل ہیں اور بہت ساری دیگر ضروریات زندگی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جو پاکستان ترقی کر رہا ہے اس کا بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے بیس کروڑ سے زائد کے ساتھ کوئی تعلق، کوئی واسطہ نہیں۔ یہ بیس کروڑ وہ ہیں جن میں سے دس کروڑ سے زیادہ ورلڈ بنک کو دئیے گئے اعداد و شمار کے مطابق حکومت سے امداد لینے پر مجبور ہو گئے۔ مجھے یہ المیہ نما لطیفہ دہرانے دیجئے کہ جب عمران خان لنگر خانوں میں کھانا دینے پہنچے تو وزیراعظم کا شکریہ اداکر نے والوں نے کہاکہ اس سے پہلے وہ اپنے گھروں میں کھانا کھایا کرتے تھے۔

پاکستان کی ترقی اس وقت مانی جائے گی جب اس کے ساتھ ساتھ عام پاکستانی بھی ترقی کریں گے۔ پاکستان محض جغرافیے کا نام نہیں او رنہ ہی کچھ فیکٹریوں کی پرافٹ شیٹ کا نام پاکستان کی معیشت ہے۔ پاکستان بائیس کروڑ پاکستانیوں کا نام ہے اور اگران کی اکثریت ترقی سے محروم رہتی ہے تو ترقی کا دعویٰ محض سراب ہے، دھوکا ہے بلکہ بہت سارے حوالوں سے نا انصافی ہے، ظلم ہے۔