کوئی مانے یا نہ مانے دنیا بھر میں ریاستی نظام مضبوط ہوا ہے اوراب ریاست کے خلاف لڑائی اتنی آسان نہیں رہی جتنی آج سے نصف صدی پہلے ہوا کرتی تھی۔ اب ایک ریاست کے خلاف لڑنے کے لئے آپ کو لازمی طور پر دوسری ریاست کی مالی، تکنیکی اور سیاسی مدد اور سہولت کاری درکار ہوتی ہے جیسے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو انڈیا اور افغانستان سے حاصل ہے مگر اس کے باوجود کسی بھی علیحدگی پسند گروہ کے لئے ایک طویل جنگ لڑنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور اس امر پر سب کا اتفاق ہوتا جا رہا ہے کہ معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کی پہلی شرط امن و امان کا قیام ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر اسلام آباد ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کی وہی مدد شروع کر دے جو نوے کی دہائی میں تھی تو بھارت کو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔
میرے سامنے جعفر ایکسپریس کی دہشت گردی ہے۔ جعفرایکسپریس کو ایک ایسے پہاڑی علاقے کی سرنگ میں روکا گیا جو دشوار گزار تھا اور مرکزی سڑک سے پچیس کلومیٹر دور، اس کے بعدخود کش جیکٹیں پہنے دہشت گردوں نے مسافروں کی ٹولیاں بنائیں اور ان کے گرد بیٹھ گئے سو بظاہر یہ ناممکن لگ رہا تھا کہ وہاں پر کسی آپریشن کے ذریعے یرغمالیوں کو رہائی دلائی جا سکے مگر پاک فوج کی انتہائی تربیت یافتہ ایس ایس جی کی ضرار کمپنی نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جب ٹرین روکی گئی تواس کے بعد علاقے کی ناکہ بندی کر دی گئی، پہلے یہ ناکہ آٹھ کلومیٹر پر تھا اوراس کے بعد دو سے چار کلومیٹر پر آ گیا۔
بی ایل اے کی ترجمانی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکائونٹس دعوے کر رہے تھے کہ دو سو سے زائد فوجیوں کو ٹرین سے اتار لیا گیا ہے اور انہیں یرغمالی کہیں دو پہاڑوں پر لے گئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ یہ کام کرتے تو پہلے دو سے تین گھنٹوں میں ہی کر سکتے تھے کہ اس کے بعد وہ گھیرے میں آ چکے تھے۔
اس صورتحال کا عملی اور منطقی جائزہ لیجئے کہ فوج کے پاس ہزاروں نہیں لاکھوں جوان موجود ہیں مگر دہشت گردوں کی فورس چند درجن سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ ان کے بارے اندازہ لگا یا جا رہا تھا کہ وہ ستر کے لگ بھگ ہیں مگر وہ تینتیس نکلے اور تمام کے تمام کتے کی موت مارے گئے۔ یہ کارکردگی اتنی حیرت انگیز تھی کہ پی ٹی آئی کے ویلاگرز کو اسے ڈرامہ تک کہنا پڑا کیونکہ ان کے نزدیک دہشت گردوں کے ناکام ہونے کا کوئی آپشن نہیں تھا۔
میرے سامنے روزانہ ایسی خبریں ہوتی ہیں جن میں دہشت گرد ہماری سیکورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملے کرتے ہیں اور ننانوے فیصد خبروں کے مطابق وہ جہنم واصل ہوتے ہیں یعنی وہ یقینی موت کا انتخاب کر رہے ہیں اور یہ بہرحال ان کے لئے کوئی کامیابی نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ اسے کسی بھی ایک صوبے کی محرومیوں اور حقوق کی جنگ سے جوڑتے ہیں جو درست نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ دہشت گردی ایک انڈسٹری بن چکی ہے اور یہ انڈسٹری اس وقت افغانستان میں لگی ہوئی ہے۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ پاکستان کی پچھلی ملٹری اور پولیٹیکل اسٹیبلشمنٹ کا یہ اندازہ سو فیصد غلط نکلا کہ اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت ہوگی تو پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہو ں گی بلکہ معذرت کے ساتھ کہنے دیجئے، ان دہشت گردوں کو اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتوں میں جب مار پڑتی تھی تو یہ دوڑے دوڑے اور بھاگے بھاگے پھرتے تھے مگر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد انہیں محفوظ اور مستحکم ٹھکانے مل گئے ہیں۔
بدقسمتی کے ساتھ افغانستان میں معیشت کو مضبوط کرنے اور شہریوں کو روزگار دینے والے دونوں شعبوں یعنی صنعت اور زراعت کے کمزور ہونے سے اور ایک طویل عرصے تک جہاد کا کلچر ہونے کی وجہ سے یہ متبادل روزگار سامنے آیا ہے۔ اس خطے پر قانون کی حکمرانی نہیں رہی جس کی وجہ سے وہاں منشیات بھی ہیں اور اسلحہ بھی، وہ سمگلنگ کو کاروبار کہتے ہیں۔ ان تمام فیکٹرز نے جرائم اور دہشت کو ان کا دھندا بنا دیا ہے اور دوسری طرف بھارت ہے جو اس انڈسٹری میں مسلسل سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ وہ کلبھوشن جیسے اپنے ایجنٹ بھیجتا ہے تاکہ غداروں کو ڈھونڈ سکے، انہیں مالی مدد دے سکے۔
یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ خالصہ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کا کہنا ہے کہ اجیت ڈوول جو کہ نریندر مودی کا قومی سلامتی کا مشیر ہے، وہ دہشت گردی کی ان تمام وارداتوں کے پیچھے ہے۔ اجیت ڈوول پاکستان میں موجود انڈین ہائی کمیشن میں را کے ایک انڈر کور ایجنٹ کے طور پر چھ برس گزار کے گیا ہے۔ وہ پاکستان کو بہتر طور پرجانتا ہے اور یہاں کے غداروں سے بھی اس کے رابطے ہیں سو اگر پاکستان میں ریاست کے خلاف لڑائی ہور ہی ہے تو یہ دو دن میں کچلی جا سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے دو اور ریاستیں موجود ہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ اگر پاکستان نے بھی وہی کچھ شروع کر دیا تو یہ خطہ ایک بار پھر پوری طرح بدامنی اور آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ علیحدگی پسندوں، جو دہشت گرد بن چکے، سے مذاکرات کئے جائیں جبکہ حقیقت یہ ہے مذاکرات صرف سیاسی اور جمہوری لوگوں سے ہوتے ہیں، طاقت کا جواب صرف اور صرف طاقت ہی ہوتی ہے۔ کیا خود بھارت نے سکھوں سمیت تمام علیحدگی پسند تحریکوں کو طاقت کے ذریعے نہیں کچلا بلکہ وہ تو سکھوں کے انتہائی مقد س مقام گولڈن ٹمپل پرفوجی بوٹوں کے ساتھ چڑھ دوڑا اور وہاں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ جیسے بڑے لیڈر کو مار ڈالا۔ کُرد ریاست کے لئے ایک طویل عرصہ تک اور تین ملکوں میں تحریک چلتی رہی مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔
سنکیانگ کی مثال الگ ہے اورآرمینیا نے کتنے عشروں سے آذر بائیجان کے ساتھ پھڈا بنا کے رکھا ہوا تھا، آخر کار اسے سرنڈر کرنا پڑا اور وہ فوجی کارروائی کے بعد ہی ہوا۔ پاکستان کی اپنی تاریخ ہے کہ اس نے نوے کی دہائی میں کراچی میں امن ایک بڑے آپریشن سے ہی کیا تب میاں نواز شریف کی ہی حکومت تھی۔ پیپلزپارٹی کے دور میں سوات میں آپریشن ہوا اور اس علاقے کو کلئیر کیا گیا۔
میاں نواز شریف نے دوسری مرتبہ آپریشن ضرب عضب کروا کے ملک کو امن کا تحفہ دیا مگر عمران خان کی حکومت ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی سہولت کار بن گئی، انہیں واپس لے آئی۔ سو اس وقت ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کی حلیف ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں ایک دوسرے کو سپورٹ دیتے ہوئے ریاست سے لڑ رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بی ایل اے کے دہشتگرد جعفر ایکسپریس پر حملہ کرتے ہیں تو عمران خان کے ٹائیگرز سوشل میڈیا پر ان کے ترجمان بن جاتے ہیں اور افغانوں کی وجہ سے تمام تر بدامنی اور بدحالی کے باوجود ان کا وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کہتا ہے کہ افغانیوں کو پاکستان کی شہریت دے دی جائے۔