Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Najam Wali Khan
  4. Sach Kya Hai?

Sach Kya Hai?

یہ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں ایک سیمینار تھا جس میں سچ بارے مکالمہ ہو رہا تھا۔ جہاں میرا بھائیوں کی طرح محترم اورجدید دور کی مزاح نگار ی میں منفرد مقام رکھنے والے گل نوخیز اختر کے ساتھ ٹاکرا ہوگیا۔ میں نے کہا، ہر کسی کے پاس اپنا اپنا سچ ہوتا ہے اور یہ ہر کسی کے اندر سے نکلتا ہے۔

سچ وہی ہے جسے آپ سچ سمجھ کے بولتے ہیں جیسے میں نے ایک مرتبہ ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں کہا کہ میرا کشمیر پر سچ یہ ہے کہ اس پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے اور میرے پاس اس کے حق میں بہت سارے دلائل بھی موجود ہیں مگر میرا یہ سچ اس لئے ہے کیونکہ میں واہگہ بارڈر سے چالیس کلومیٹر ادھر لاہور میں رہتا ہوں۔

میں نے یہی پڑھا، سمجھا اور مانا ہے مگر اسی واہگہ بارڈر کو کراس کرکے وہ شخص کو بھارتی سائیڈ پر اٹاری میں رہتا ہے کہ اس کا سچ مجھ سے بہت مختلف ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر پیش کی گئی اس مثال جیسا ہے کہ میں جہاں پر کھڑا ہوا وہاں مجھے 6 کا عدد چھ لگا مگر میرے سامنے، د وسری طرف کھڑے ہوئے کو اگر یہ نو لگاتو وہ بھی سچ بول رہا ہے یعنی ہمارے بہت سارے سچ اس لئے سچ ہوتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارے ارد گرد کیا ہے اور ہمارے سامنے چیزوں کو کس طرح پیش کیاجا رہا ہے۔

سورہ منافقون، قرآن پاک کی 63 ویں سورہ ہے، اس کی کل گیارہ آیات ہیں۔ اس کی پہلی آیت مجھے حیران کرتی ہے جس میں اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی ﷺ سے مخاطب ہو کر ان پر آشکار کیا، جب آپکے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں، (ترجمہ)۔

اس آیت مبارکہ نے میرے تصورکو درست کیا کہ سچ وہی ہے جو آپ دل سے بولتے ہیں ورنہ دنیا کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور منافق اسی کی گواہی دے رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی گواہی، جو سب سے سچی اور سب سے درست ہے، یہ ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں یعنی دنیا کا سب سے بڑا سچ بھی اس وقت جھوٹ ہوگیا جب آپ نے اسے جھوٹ سمجھ کے بولا، دل سے نہ مانا، دل سے نہ بولا۔

میرے بھائی گل نوخیز اختر نے اس کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے مجھے لاجواب کر دیا اور کہا کہ دنیا میں سچ صرف ایک ہے اور اس کے ذریعے تحقیق تک پہنچا جا سکتا ہے اور یہ ہر کسی پر فرض ہے کہ وہ سچ تک پہنچے۔ انہوں نے اس موقعے پر اس وقت گردش کرنے والی ایک دو خبروں کا بھی حوالہ دیاجس میں ایک سیاسی پارٹی کے لوگ کچھ تحقیق کرکے سچ تک پہنچ سکتے تھے مگر انہوں نے جھوٹ بولے۔

یقینی طور پر ان کی بات بھی دلیل کے ساتھ تھی کہ اگر سورج مشرق سے نکلتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ نہیں یہ مغرب سے نکلتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ تحقیق کرے، سچ تک پہنچے اور پھر بیان کرے مگر ہم میں سے بہت سارے ایسانہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پر بھی سچ موجود ہے اور اس تک پہنچنے کی ضرورت ہے اوراس کے بعد انہوں نے مسئلہ کشمیر پر وہی سچ بیان کیا وہ ہماری طرف کا تھا، ہمارا سچ تھا۔ میں اس سے کیسے انکار کر سکتا ہوں کہ تحقیق کے ذریعے سچ تک نہیں پہنچا جا سکتا کہ میرا تو پیشہ ہی یہ ہے۔ صحافت میں ہمیں اپنے د ل سے نہیں بلکہ دماغ سے گواہی دینی ہوتی ہے۔

یہاں سے میرے ذہن میں ایک اور سوال پیدا ہوا کہ کیا تحقیق ہمیشہ سچ کی طرف لے جاتی ہے کیونکہ میں نے بہت ساروں کو سچ سے بھی گمرا ہ ہوتے دیکھا ہے۔ سورة الاعراف کی آیت 186ہے، جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں اورانہیں چھوڑتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکا کریں۔ میں نے بہت سارے لوگوں کی تحقیق کو دیکھا ہے کہ وہ انہیں یکطرفہ دلائل ہی ملتے ہیں یا وہ خود ان دلائل اور حقائق کو اکٹھا کرتے ہیں جن سے وہ اپنی مرضی کا نتیجہ نکال سکیں اور یہاں گل نوخیز بھائی کے مقابلے میں ایک مرتبہ پھر دیانت داری اہم ہوجاتی ہے یعنی تحقیق اہم بھی ہے اور ضروری بھی اس کی بنیاد کیا دیانتداری پر ہے یا بددیانتی پر، اس پر غور کرنا ہوگا۔

سچ کے معاملے میں ہمارے ذہن کی بائیولوجیکل کمپوزیشن بھی بڑا اہم کردارادا کرتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آپ کی سوچ دراصل وہ نیورون ہوتے ہیں جو آپ کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہی نیورونز سے آپ کی سوچ بنتی ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ کسی ایک پوائنٹ آف ویو پر جیسے آپ کا مذہب ہوا یا آپ کا سیاسی نظریہ، اس پر آپ کے ذہن میں جو نیورونز اکٹھے ہوتے ہیں وہ مل کر ایک کلسٹر بنا لیتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ آپ کے دماغ کے اندر جو کلسٹر بنا ہوا ہے وہ سچ نہ ہو مگر وہ اتنا طاقتور ہو کہ اس کے مقابلے میں بننے والے نیورونز کو جگہ ہی نہ دے اور انہیں ختم کرکے رکھ دے۔ یہاں گل نوخیز اختر درست نظر آتے ہیں کہ تحقیق ضروری ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ ہم میں سے کتنے ہوتے ہیں جو اپنے دماغ میں موجود تصورات کے خلاف جنگ کرتے ہیں یا کرپاتے ہیں جیسے ہمارا مذہب کا تصور، ہمارا وطن کا تصور، ہمارا ذات پات کا تصور یا ہمارے سیاسی تصورات۔

سوشل میڈیا نے ہمارے دماغ کی اس نااہلی، کو اس طرح مزید مضبوط کیا ہے اس کے الگورتھم میں ہمیں وہی کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے جو ہم دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں کہ اگر ہم اینٹی پی ٹی آئی ہیں تو ہمیں ٹک ٹاک بھی عمران خان کے خلاف بننے والی ویڈیوز ہی دکھائے گا اور اگر ہم کسی برینڈ یا پراڈکٹ کو پسند کرتے ہیں تو اسی کے مختلف اشتہار نظر آئیں گے یعنی سوشل میڈیا ہمارے ان نیورونز کے کلسٹر میں مزید نیورونز ڈال کے انہیں مضبوط کرے گا اور ہم اپنی چاہت میں پکے ہوجائیں گے۔

سوشل سائنسز میں بلیک اینڈ وائیٹ بہت کم ہوتا ہے، بہت ساری چیزیں گرے ہوتی ہیں اور پھر ہم اس گرے کو کبھی بلیک اور کبھی وائیٹ کے قریب دیکھتے ہیں۔ میرے ساتھ بطور اینکر یہ عام ہوتا ہے کہ ایک ہی واقعے پر مسلم لیگ نون والوں کا سچ کچھ اور ہوتا ہے اور پی ٹی آئی والوں کا کچھ اور، ہوتا یوں بھی ہے کہ پیپلزپارٹی یا جماعت اسلامی والے ہوں تو ان کے پاس دو اور سچ ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحقیق نہیں کرتے۔ میں مانتا ہوں کہ یہ تحقیق کرتے ہیں مگر یہ سب اپنی اپنی تحقیق کے ذریعے اپنے اپنے سچ تک پہنچتے ہیں پھر اللہ جانے سچ کیا ہے؟