صدر مملکت عارف علوی محض ایک شخص کا نام نہیں، وہ ریاست کے وفاق کی علامت اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں۔ سماجیات اور سیاسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ آزادی جتنی زیادہ اور عہدہ جتنا بڑا ہو ذمے داری بھی اتنی ہی زیادہ اور بڑی ہوتی ہے۔
صدر مملکت آئینی اور عملی طور پر پارلیمنٹ پر تھانے دار بھی ہیں اور اس کے بنائے ہوئے قوانین پر محتسب بھی۔ وہ ہر برس پارلیمنٹ سے خطاب کرتے اور اس کی کارکردگی پر اپنی رائے دیتے ہیں جس کی خاص اہمیت ہے۔ ایسے میں مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے فوج سے متعلق ہی قوانین بارے ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ہے جو ہرگز ناقابل فہم نہیں ہے۔ انہوں نے وفاق کی علامت اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہونے کی بجائے تحریک انصاف کے ایک کارکن کی اپنی حیثیت کو زیادہ اہمیت دی ہے ورنہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اورآرمی ایکٹ کے ترامیمی قوانین کو ہرگز متنازع نہ بناتے۔
میں صدر مملکت کے اس اختیار کی ہرگز نفی نہیں کر رہا کہ وہ کسی بھی قانون پر اپنے لیگل ڈویژن کی مشاورت سے اعتراض عائد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو واپس بھیج سکتے ہیں اور ابھی 9 اگست کو انہوں نے 13 قوانین واپس بھیجے ہیں مگر وہ کسی منظور شدہ مسودہ قانون پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا وقت گزارنے کے بعد اسے متنازع نہیں بنا سکتے۔
میرے پاس صدر مملکت عارف علوی کے بربنائے عہدہ احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے دس سوال موجود ہیں جو انہی دو قوانین کے حوالے سے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگر صدر مملکت ان دونوں قوانین پر اعتراضات رکھتے تھے تو وہ انہیں پہلے بھیجے ہوئے 13 قوانین کے ساتھ واپس بھیج سکتے تھے، انہوں نے واپس کیوں نہیں بھیجے، بظاہر یہی لگتا ہے کہ صدرمملکت انہیں واپس بھیجنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل 75 انہیں پابند کرتا ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو واپس کرتے ہوئے اس پر اپنے اعتراضات بیان کریں اوراسی کے لئے ایوان صدر میں ایک لاء ڈویژن موجود ہے جس کی سربراہی ہائیکورٹ کے جج کے برابر اہلیت والا شخص ہی کرسکتا ہے، کیا صدر مملکت نے اس پر اپنے اعتراضات تحریر کروائے اوراگر نہیں تو کیا یہ ان کے فرائض سے عدم توجہی نہیں تھی۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ ریکارڈ کے مطابق 18 اگست کو تمام قوانین بارے گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہوا، 19 اگست کی دوپہر سے تمام چینلوں نے بریکنگ نیوز چلائیں اور 20 اگست کی صبح تمام اخبارات نے شہ سرخیاں چھاپیں، 48 گھنٹے سے زائد عرصے میں صدر مملکت خاموش کیوں رہے، کیا وہ سو رہے تھے۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ صدر مملکت اسی وقت کیوں بولے جب پی ٹی آئی کے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی کے بعد چئیرمین عمران خان کی گرفتاری بھی ڈال دی گئی اور اسد عمر کو تفتیش کے لئے طلب کیا گیا، کیا اس سے ان کے ردعمل میں سیاسی عمل دخل واضح نظر نہیں آتا۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ وہ پانچ برس سے ایوان صدر میں ہیں اور کیا ان کی عملے کے ساتھ اتنی بھی تال میل نہیں کہ اگر وہ عملے کو کہیں کہ بل واپس بھیج دو تو وہ انہیں بتائے کہ اس کے لئے آپ کے اعتراضات بھی درکار ہیں۔ یقینی طور پر وقار احمد کی بطور سیکرٹری برطرفی کے بعد حمیرا احمد کے پرنسپل سیکرٹری بننے سے انکار نے بھی اس ادارے کے وقار کو مجروع کیا ہے۔ سابق پرنسپل سیکرٹری وقار احمد کا خط ان کی نااہلی کوظاہر کرتا ہے کہ ان کی ٹیبل پر فائلز پڑی ہیں اور انہیں اس کے بارے علم نہیں۔
چھٹا سوال یہ ہے کہ ایوان صدر ایک سرکاری ادارہ ہے اور اس کے کسی بھی بات کے کرنے کے سرکاری ذرائع اور طریقے موجود ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ صدر مملکت نے عارف علوی کے نام سے اپنے پرسنل ٹوئیٹر اکاونٹ سے ایک ٹوئیٹ کرتے ہوئے ان قوانین کومتنازع بنایا اوراس کے لئے انہوں نے نہ مروجہ اعتراضات کا طریقہ استعمال کیا اور نہ ہی ایوان صدر کا ٹوئیٹر ہینڈلر استعمال کیا۔ بطور عارف علوی ان کی اہمیت بطور دندان ساز تو ہوسکتی ہے مگر بطور صدر انہیں ریاستی مظاہر اور طریقوں کا استعمال کرنا چاہئے۔
ساتواں سوال یہ ہے کہ اب یہ معاملہ متنازع ہو چکا، ہر شخص یہ کہہ رہا ہے کہ حقائق کو سامنے آنا چاہئے مگر جب تک وہ صدر ہیں ان سے تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ حقائق تک پہنچنے کے لئے خود کو کسی بھی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ادارے کے سامنے سرنڈر کریں گے یا وہ صدارتی استثنیٰ کے پیچھے چھپے رہیں گے۔
آٹھواں سوال یہ ہے کہ ان کے ٹوئیٹ کے آخری الفاظ میں معافی بہت معنی خیز ہیں۔ ان کا ایک مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ اس کے ذریعے انہوں نے تسلیم کر لیا کہ قانون ان کی کوتاہی کی وجہ سے اپنی جگہ پر نافذ العمل ہوچکا اورچونکہ ان کے پارٹی چئیرمین پھنس گئے لہذا وہ صدر مملکت ہونے کے باوجود ان سے معافی مانگ رہے ہیں۔
نوواں سوال یہ ہے کہ اب بطور صدر ان کی نظر میں دونوں قوانین کی آئین اور قانونی پوزیشن کیا ہے کیونکہ اس کے تحت تو عدالت بھی قائم ہوچکی، شاہ محمود قریشی کا ریمانڈ بھی دیا جا چکا۔
دسواں سوال بہت اہم ہے کہ کیا صدر مملکت دیدہ و دانستہ قومی اداروں سے لڑنا چاہتے ہیں جیسے ان کی پارٹی کے نادانوں نے جی ایچ کیو، جناح ہاوس اور شہداء کی یادگاروں پر حملے کئے تو انہوں نے ان دونوں قوانین پر حملہ کر دیا جن کا تعلق فوج اور سیکورٹی سے ہے۔
دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بعض وکلاء اس پر پی ٹی آئی کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ قانون نہیں بنے اور یہ کہ ان قوانین بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتے اور اداروں کے اختیارات میں نامناسب اضافہ کرتے ہیں۔ ان سے سوال ہے کہ کیا آپ کی پارٹی نے یہ رائے پارلیمنٹ میں اختیار کی، اس بل میں ترامیم پیش کیں تو اس کا جواب رضا ربانی کے عمل کی صورت میں موجود ہے مگرا س کے بعد کہا گیاکہ ان بلوں پر اعتراضات کودو ر کرکے منظور کیا گیا ہے۔
پیپلزپارٹی اس وقت 90 دن میں انتخابات کی بھی حمایت کر رہی ہے تو اس پر بھی سوال ہے کہ کیا آپ کے وزیراعلیٰ نے مشترکہ مفادات کی کونسل میں نئی مردم شماری (یعنی نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد) پر انتخابات کی حمایت کی تھی یا مخالفت، اگر حمایت کی تھی تو پھر اب مخالفت کرکے کس کو بے وقوف بناتے ہیں۔ صدر مملکت نے صحابہ کرامؓ اور امہات المومنینؓ کی حرمت کے تحفظ کے قانو ن کو بھی یہ کہتے ہوئے واپس کر دیا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوگا اور معصوم لوگ پھنسیں گے۔
میرا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بے گناہوں کو پھنسانے والا غلط استعمال قتل کے قانون کا ہوتا ہے۔ جیلیں ان سے بھری پڑی ہیں جن پر جھوٹے الزامات لگے تو کیا قتل کا قانون بھی ختم کر دیا جائے۔ جناب صدر! کسی بھی درست قانون کے غلط استعمال کو ختم کیا جاتا ہے، ا س قانون کو نہیں۔