صدر عارف علوی نے 9 ستمبر 2018 کو مملکت کا یہ سب سے اعلیٰ اور باوقار منصب سنبھالا تھا اور اب وہ پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد آئین کے تحت ملنے والے اس بونس پیریڈ پر ایوان صدر میں مقیم ہیں جو انہیں اگلا صدر منتخب نہ ہونے کی وجہ سے ملا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے رخصت ہونے کے بعد طاقت کے ایوانوں میں وہ پی ٹی آئی کے واحد محافظ اور پشتی بان رہ گئے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جناب عمر عطا بندیال اور جناب عارف علوی سے عمران خان اور ان سے محبت کرنے والوں کی بہت ساری امیدیں تھیں۔ ایک طویل عرصے تک یوٹیوب اور واٹس ایپ گروپوں پر یہ بریکنگ نیوز بیچی جاتی رہیں کہ انہوں دونوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے حالات کو یکسر بدل دیا ہے مگر وہ سب جھوٹ تھا۔ عمرعطا بندیال کے ساتھ بھی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بلکہ گالی گلوچ بریگیڈ نے کم و بیش وہی کچھ کیا جو وہ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں اور اب باری صدر علوی کی ہے مگر میرا سوال ہے کہ عمران خان کی محبت کا شکار کراچی کا یہ بے چارہ دندان ساز ان کے لئے کیا کرسکتا ہے؟
اس امر سے کون انکار کر سکتا ہے کہ موصوف ابھی تک چیئرمین پی ٹی آئی کے وفادار ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما آج تک اپنے بہت سارے کاموں کے لئے انہیں فون کرتے ہیں اور اس سے پہلے عمران خان بھی انہیں حکم جاری کیا کرتے تھے جیسے نومئی سے بہت پہلے انہوں نے صدر علوی کو حکم دیا کہ وہ ان کی اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات کروائیں اور معاملات طے کروائیں۔ عارف علوی نے افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور پر اپنے اختیارات کا بھرپور(مگر غلط) استعمال کیا اور فوج کے سربراہ کو ایوان صدر میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالے گئے وزیر اعظم سے ملاقات پر مجبور کیا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ کراچی کے یہ بھائی صاحب ایسے چمٹ جاتے ہیں کہ پھر جان ہی نہیں چھوڑتے جیسے کوئی انشورنس بیچنے والا چمٹ جاتا ہے یا کوئی ٹیلی مارکیٹنگ کرنے والا۔ پہلے ذرائع سے اور پھر حالات و واقعات سے ثابت ہوگا کہ صدر علوی کی یہ مساعی ناکام رہی اور اس میں سارا ڈس کریڈٹ خود چئیرمین پی ٹی آئی کا ہے کہ وہ وہاں پر ایسے بی ہیو کرتے رہے جیسے وہ ابھی تک وزیراعظم ہوں۔ کہتے ہیں کہ کانفیڈنٹ اور اوور کانفیڈنٹ ہونے میں بہت باریک لائن ہوتی ہے مگر یہی لائن کسی کو عقلمند اور بے وقوف کے درمیان سرحد پار کروا دیتی ہے جیسے نو مئی کے واقعات اوور کانفیڈنٹ ہونے کا نتیجہ تھے۔ ہر گدھا دیوار پھلانگنے سے پہلے خود کو ہرن سمجھتا ہے مگر پتا اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھتا ہے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی سے اب تک وفاداری نبھانے والے علی محمد خان نے عارف علوی نے رابطہ کرکے کہا ہے کہ وہ پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات ٹھیک کروانے کے لئے کردار ادا کریں۔ مجھے کبھی کبھار پی ٹی آئی کے دوستوں پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ احمقوں کی کیسی جنت میں رہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک وہ یہ سودا بیچتے رہے کہ عمران خان کو دو تہائی اکثریت سے واپس لانے کے لئے نکالا گیا ہے۔
میں آپ کو سچی بات بتاوں کہ یہ احمقانہ تھیوری مجھے میرے کئی سینئر صحافی اور تجزیہ کار دوستوں نے بھی پیش کی اور میں ان کے سامنے خاموش ہو جاتا تھا کہ میں انہیں جو کہنا چاہتا تھا منہ پر نہیں کہہ سکتا تھا، بھلا آپ ایک سینئر جرنلسٹ، کالمسٹ یا اینالسٹ وغیرہ وغیرہ کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پپو یار کھچاں نہ مار مگر وہ کچھیں مارتے رہے۔ میں آپ کو پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ جس سطح پر تعلقات ٹھیک کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ نو مئی کے بعد ٹھیک نہیں ہوسکتے بلکہ ان کی خرابی کے لئے نومبر کی آخری تاریخو ں والا احتجاج اور دھرنا ہی کافی تھا جو صرف اور صرف نئے آرمی چیف کی تعیناتی رکوانے لئے تھا جو یہ جانتا تھا کہ یہ صاحب، ان کی اہلیہ اور ان کی دوست کتنے کرپٹ ہیں۔
وہ سمجھتے تھے کہ چند ہزار لوگ جمع کرکے اور چند سڑکوں پر آگ لگا کے پاک فوج کے سپہ سالارکی تقرری پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، کتنے بھولے تھے اور ہیں یہ لوگ، یہ سمجھتے ہیں کہ صدر علوی اب کوئی کردارادا کرسکتے ہیں تو میرا ان سے سوال ہے کہ کیا آپ نے اس ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے کم آئی کیو لیول کے اس بوڑھے اور کمزور شخص کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ کچھ کرسکے۔ آپ نے آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ پر اس سے ٹوئیٹ کی صورت میں جو چول مروائی وہ ایسا ہی تھا جیسے جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کیا گیا۔
آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کی قانون سازی پر عارف علوی نے اپنے پرسنل اکاؤنٹ سے جو ٹوئیٹ کیا تھا اور اس کے بعد اپنے سٹاف تک سے پھڈا مول لے لیا تھا وہ حماقت کی انتہا تھی۔ عمران خان، ان کی اہلیہ اور بہن سمجھ رہے تھے کہ عارف علوی کے ٹوئیٹ کے بعد پارلیمنٹ کی قانون سازی ختم ہوجائے گی، مجھے کبھی ان کی اس معصومیت بلکہ کم عقلی پر ہنسی آتی ہے اور کبھی رونا آتا ہے کہ ہم نے کس لیول کے لوگوں کوکس مقام پر بٹھا دیا تھا۔
مجھ سے میری ذاتی رائے پوچھیں تو میں عارف علوی کو پی ٹی آئی کا ایک ماجھا گاما سیاسی کارکن سمجھتا ہوں، وہ اس سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں ہیں اور میری گواہی لے لیجئے کہ انہوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں، جسمانی طاقتوں اور سیاسی اہلیتوں سے بڑھ کے عمران خان سے وفاداری نبھا دی ہے۔ وہ اس وقت صدرمملکت تو کجا ایک سرکاری کلرک بھی نہیں رہے تھے جب انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالے جانے والے وزیراعظم کی غیر آئینی ایڈوائس پر ایک لمحے میں انگوٹھا لگا دیا تھا اور قومی اسمبلی توڑ دی تھی۔ ابھی چند ہی روز پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کے رشتے داروں اور وکلا نے عارف علوی پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ عمران خان ان سے ناراض ہیں کیونکہ وہ الیکشن نہیں کروا پائے، یہی شکوہ اور ناراضی ان کی عمر عطا بندیال سے بھی ہے۔ پی ٹی آئی کے عقاب سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن کی تاریخ دے سکتے تھے اور یہ کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کو محض ایک بھرتی کا خط لکھا۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ بوڑھا شخص جو صرف عمران خان کے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے باوجود ایوان صدر میں بیٹھا ہوا ہے وہ اس سے کیا توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام معاملات عمران خان اور ان کے احمق مشیروں نے خود بگاڑے ہیں۔ کچھ ان کی نااہلی اور بدقسمتی ہے اور کچھ انہوں غلطی پر غلطی کی ہے۔ مان لیجئے، انہیں قومی اسمبلی سے استعفے نہیں دینے چاہئیں تھے، انہیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں نہیں توڑنی چاہیے تھیں، میر جعفر، میر صادق اور ڈرٹی ہیری جیسی یاوہ گوئیاں نہیں کرنی چاہئے تھیں اور سب سے بڑھ کے انہیں جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور شہداء کی یادگاروں پر حملے نہیں کرنے چاہئے تھے۔ ان سب کے بعد آپ کہتے ہیں کہ صدر علوی پی ٹی آئی کے مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کروا دیں تویہ ناممکن ہے۔