باتیں تو بڑی بڑی ہوتی ہیں کہ صدر وفاق کی علامت ہے اور گورنر وفاق کے نمائندے، یہ نہ کسی کو جوابدہ ہیں اور نہ ہی انہیں عدالتیں براہ راست کوئی حکم دے سکتی ہیں اورمیرا سوال ہے کہ کیوں، کیا یہ پاکستان کے شہری اور سیاستدان نہیں، کیا یہ آئین کے تابع نہیں اور ہمارے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں، مراعات اور پروٹوکول نہیں لیتے۔
یہ بات نہیں کہ عمر سرفراز چیمہ کی ملکی آئین اور صوبے کی انتظامیہ کے ساتھ دھینگا مشتی دیکھ کر میرے ذہن میں یہ سوال آیا ہو بلکہ ایسی باتیں تو خود گفتار کے غازی عمران خان کرتے رہے، گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹیاں بنانے کے وعدے کرتے رہے۔
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ معزز و محترم صدر مملکت ہوں یا صوبوں کے گورنرز ان کی تین ہی مصروفیات ہیں، اول یہ سوتے ہیں، دوم یہ اوتھ کمشنر کے طور پر کام کرتے ہیں اور سوم سازشیں کرتے ہیں۔ تیسرا کام یہ اس وقت کرتے ہیں جب انہوں نے عدم استحکام پھیلانا ہو، صوبے کے مینڈیٹ کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہو۔
صدرا ور گورنر قوم کو ہر برس مجموعی طور پر کئی ارب روپوں میں پڑتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے، بصدا حترام کہنے دیجئے کہ ہم صدر وہ لاتے ہیں جو قوم کے بجائے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی نہیں بلکہ غلامی کرتا ہے، اپنے لیڈر کے احکامات کو آئین سے بھی بالاتر سمجھتا ہے اور اگر کسی کو یقین نہ ہو تو عارف علوی صاحب کا اب تک کا کردار دیکھ لے۔ آپ نے صدر مملکت کے بجائے عمران خان صاحب کے پرسنل اسسٹنٹ یا کلرک کے طور پر ہی کردارادا کیا ہے۔
آپ کا غیر آئینی کردار قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں بھی محفوظ ہو گیا ہے۔ بات صرف عارف علوی کی ہی کیوں کی جائے کیا میاں نواز شریف نے اس شخصیت کو صدر نہیں بنایا جو کراچی کی جیل میں ان کے لئے دہی بھلے لایا کرتے تھے اور بات اگر وفاق کی علامت ہونے کی ہے تو پھر آپ تمام دندان سازوں کو وفاق کی علامت قرار دے دیں، یہ اعزاز کراچی کے ایک دندان ساز کے پاس کیوں رہے۔
صدر کے عہدے کا مخمصہ یہ ہے کہ اگر اسے کمزور رکھا جائے تو یہ کلرک بن جاتا ہے اور اگر اسے مضبوط کیا جائے تو یہ آمر بن جاتا ہے تو ایسے عہدے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہم نے یہ عہدہ برطانوی پارلیمانی نظام سے لیا ہے مگر برطانیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے بادشاہ (یا اب ریکارڈ بوڑھی ہوجانے والی ملکہ) کے کردار کو تحفظ دینا تھا تو ہمارے پاس کون سی اکبر بادشاہ کی اولاد چلی آ رہی ہے کہ ہم اس کے لئے یہ عہدے اور ایوان تخلیق کرتے رہیں، الا ماشااللہ ہمارے صدور کی قابلیتیں کیا رہی ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔
موجودہ صورتحال کا جائزہ لیجئے، یہ بات طے شدہ ہے کہ صدر کو وزیراعظم کی سمری پر عمل کرنا ہو تا ہے، وہ پہلے پندرہ دن اور پھر دس دن تک سمری کو روک سکتا ہے مگراس کے بعد اس کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ جب فیصلہ ہی وزیراعظم کا چلنا ہے تو پھر سوال ہے کہ اس میں صدر کے دفتر کی کیا ضرورت ہے۔ خوا مخواہ کے ہیر پھیر ہیں جن کا حاصل حصول بھی کچھ نہیں ہے۔
مجھے تو یہ لگتا ہے کہ ہم نے یہ عہدہ اصل میں فوجی آمروں کے لئے رکھا ہوا ہے جیسے صدر ایوب، صدر ضیا اور صدر مشرف۔ اب فوج کہہ رہی ہے کہ اس نے نہ تو مداخلت کرنی ہے اور نہ ہی مارشل لا لگانا ہے تو پھر اس عہدے کا ویسے ہی کوئی استعمال نہیں رہ جاتا، اسے ختم کرکے بڑی بچت کرنی چاہئے اوراس کے ساتھ ساتھ گورنروں اور ان کے قلعوں کو بھی ختم کرنا چاہئے۔ سب سے
بڑ ی دلیل یہ ہے کہ گورنر صوبے میں وفاق کا نمائند ہ ہوتا ہے اور عملی صورتحال یہ ہے کہ اگر وفاق میں صوبے سے ہٹ کے دوسری پارٹی کی حکومت ہو تو وہ اپنے گورنر کو صوبے کے عوام کے مینڈیٹ کی نفی کے لئے استعمال کرتی ہے جیسے سلمان تاثیر مرحوم کردارادا کرتے رہے اور جیسے اب عمر سرفراز چیمہ نے وزیراعلیٰ اور کابینہ کی تشکیل میں بھرپور طریقے سے روڑے اٹکائے۔
دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اتنے بڑے گورنر ہاؤس میں ویہلے بیٹھے ہوئے گورنر صاحب کا دل بھی کرتا ہے کہ وہ بھی کوئی اختیار شختیار استعمال کریں، کوئی دبکا شبکا لگائیں۔ مجھے یاد ہے کہ میاں اظہر گورنر پنجاب ہوا کرتے تھے اور انہوں نے امن و امان کے قیام کے حوالے سے اس علاقے میں ایک پولیس آپریشن کروا دیا تھا جہاں انہوں نے اپنا فارم ہاؤس بنایا تھا۔
اس پر غلام حیدر وائیں جیسے مرنجان مرنج وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کا پھڈا پڑ گیا تھا اور اب ہمارے چوہدری محمد سرور صاحب، ان کے ہاتھ میں نون لیگ کے دور میں بھی خارش ہوتی رہی اور پی ٹی آئی کے دور میں بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ جس انسان نے خوش نہ رہنا ہو وہ گورنر بن کے بھی نہیں رہتا۔
ارے ہاں، گورنروں کا ایک بہت ہی اہم کام ہوتا ہے کہ وہ صوبے بھر کی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہوتے ہیں اور اس پر مجھے کہنا ہے کہ آپ اپنی تعلیم پر رحم کریں۔ اگر کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگانا ہو تو آپ بہت ہی زیادہ پڑھا لکھا بندہ ڈھونڈتے ہیں اور جب ڈھیر ساری یونیورسٹیوں کے چانسلر کی بات ہو تو ایسے لوگ بھی سالہا سال تک سربراہ رہتے ہیں جن کی تعلیم کے بارے وکی پیڈیا تک پر کچھ نہیں ہوتا، جی ہاں، تکلف برطرف میں سندھ کے سابق گورنر عمران اسماعیل ہی کی بات کر رہا ہوں۔
وہ گانے بجانے کے شوقین آدمی ہیں اور انہیں گورنر کے طور پر سندھ جیسے باشعور صوبے کی تمام جامعات کا چانسلر لگایا ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایف اے ہیں مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ وہ ایف اے پاس ہیں یا فیل۔ وہ ایسے شہزادے ہیں انہیں یونیورسٹی کے پورے سپیلنگ بھی نہیں آتے تھے لہٰذا جس بھی ماجھے گامے کو گورنر بنائیں کم از کم اسے تعلیم کے ماتھے کی کالک نہ بنائیں۔ یونیورسٹیوں کی حکومتی شعبے میں سربراہی کے لئے دوسرا نظام ہونا چاہئے۔ اسی طرح گورنر کا کام ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اجلاس بھی حکومت طلب کرتی ہے گورنر اس پر محض انگوٹھا لگاتا ہے۔
گورنر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ براہ راست منتخب شخص بھی نہیں ہوتا کہ اس کی جمہوریت کے نام پر عزت کی جائے، وہ کیا ہوتا ہے اور کیا کرتا ہے، اس بارے سب کو علم ہے کہ بس موج کرتا ہے اور مستی کرتا ہے اور ہم کچھ لوگوں کے کچھ نہ کرنے پر سال بھر کے اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے گورنر نے سرکاری خرچ پر تین مالشئیے بھی گورنر ہاؤس میں بھرتی کر لئے تھے کیونکہ وہ کچھ نہ کرتے ہوئے اتنے تھک جاتے تھے کہ انہیں مالش کی ضرورت پڑجاتی تھی۔
زندہ قومیں تجربات سے سیکھتی ہیں، مفید چیزوں کو چمکاتی اور لشکاتی ہیں اور کچرے سے جان چھڑواتی ہیں، ارے بھائی، سسٹم کو آسان کرو، حقیقی کرو، ان تمام جونکوں سے جان چھڑواؤ جو نہ خود کچھ کرتی ہیں ا ور نہ دوسروں کو کرنے دیتی ہیں۔
اسلام آباد کے ایوان صدر میں بھی یونیورسٹی بناؤ یا غیر ملکی مہمانوں کے لئے ریسٹ ہاؤس اور اسی طرح لاہور کے گورنر ہاؤس کو بھی کسی منطقی اورمفید استعمال میں لے کر آؤ۔ مرکزی بلڈنگ کو سلامت رکھو اور بڑے بڑے لانوں کے ساتھ کلاس رومز بنا کے وہاں یونیورسٹی بنا دو۔