یہ کنئیرڈ کالج فار ویمن میں اس مذاکرے میں ڈسکس کئے گئے ایشوز ہیں جس کا عنوان ڈیجیٹل دور میں موجودہ صحافت کو درپیش چیلنجز اور مواقع تھا۔ میں نے سٹوڈنٹس کو بتایا کہ ہر مشکل ایک موقع بھی ہوتی ہے۔ ہر ہمت، جرات اور علم والا ہر مشکل سے ایک نئی کامیابی نکالتا ہے مگر ہر تھڑدلے کو ہرنئے موقعے میں کوئی نہ کوئی نئی مشکل نظرآتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک اخبار میں چیف رپورٹر تھا کہ وہاں رجیم چینج، ہوگیا۔
مجھ سے اس پولیٹیکل پارٹی کی بیٹ لے لی گئی جس کی کوریج میں، میں خود کو بڑا ایکسپرٹ سمجھتا تھا اورایک دوسری بڑی سیاسی جماعت کی رپورٹنگ کی ذمے داری دے دی گئی۔ اب یہ زیرو سے شروع کرنے والا کام تھا مگر میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ بیٹ کی اس تبدیلی نے مجھے نئے نکتہ نظر سے متعارف کروایا، نئے واقف کار اور دوست دئیے، معاملات کو سمجھنے کا ایک نیا رخ میرے سامنے آیا۔
میں نے انہیں بتایا کہ مشرف دور میں نئے نئے چینل بنے تو بہت سارے نوجوانوں نے سوچا، یہ حامد میر اور کامران خان کیا بیچتے ہیں، ہم اس شعبے میں جائیں گے تو انقلاب برپا کر دیں گے۔ صحافت کی تعلیم کی ڈیمانڈ بڑھی تو ہر سرکاری اور غیر سرکاری کالج اور یونیورسٹی نے جرنلزم ڈپیارٹمنٹ کھول لئے۔ اب سوال یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی جتنی توسیع ہوسکتی تھی، اسی نوے فیصد ہو چکی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ہزاروں ڈگری ہولڈرز کہاں جائیں گے مگر سوشل میڈیا نے نوکری اور کاروبار دونوں کے ہی ان گنت مواقعے پیدا کر دئیے یعنی آپ اپنی دنیا پیدا کرا گر زندوں میں ہے۔
کہا گیا، صحافت آزاد نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ صحافت تو بہت سارے ملکوں سے کہیں زیادہ آزادبھی ہے اور ذمے دار بھی مگر آپ کے تصور ات باندھ دئیے گئے ہیں۔ کسی بھی مہذب، آئینی اور جمہوری ریاست میں آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی نہیں ہے۔ مجھے ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے مگر میرا ہاتھ آپ کے گال پر تھپڑ کی صورت نہیں پڑ سکتا۔ آپ ایک سیاسی جماعت کو آئیڈیلائز کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ جو اول فول منہ میں آئے وہ بک دیا جائے۔ جو سیاسی او رغیر سیاسی الزام سمجھ میں آئے لگا دیا جائے۔ جو گالی دی جا سکتی ہو وہ دے دی جائے اور جو نقل اتاری جا سکتی ہو وہ اتار لی جائے تو یہ آزادی نہیں ہے۔ یہ بے شرمی، بے حیائی اور لاقانونیت ہے۔ کہا گیا پیمرا جیسے ادارے کیوں، یہ آزادی پر قدغن ہیں۔
میں نے جواب دیا ہرگزنہیں۔ مجھے اور تمہیں مری، کاغان اور سوات جانے کی آزادی ہے اور میں یہ کہوں کہ ہر پہاڑ پر ہر موڑ کے ساتھ جنگلا کیوں لگا ہے، یہ میری نقل و حرکت کی آزادی کے منافی ہے اور میں اس جنگلے کو نہیں مانتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں کبھی مری نہیں پہنچ سکوں گا بلکہ وہیں کسی کھڈے میں گرا پڑا مرا ہوں گا۔ ایک بزرجمہر کہنے لگے، سیٹھ صحافت میں آ گیا ہے، صحافت کوئی کاروبار نہیں، یہ تومشن ہے۔ میں بچوں کو پاگل بنانے والی کتابی باتوں پرہنس پڑا۔ میں نے کہا کہ میں نے بڑے بڑے پروفیشنل صحافیوں کے اخبار میں بھی کام کیا مگر خدا کی قسم ٹکے کی عزت نہیں تھی۔
گالیاں ہر روز دی جاتی تھیں اور تنخواہ کئی ماہ کے بعد۔ یہ سیٹھ آیا ہے تو یہ تنخواہیں لاکھوں میں لے کر گیا ہے ورنہ بطور چیف رپورٹر دن میری تنخواہ آٹھ ہزار روپے تھی اور بطور چیف رپورٹر ایکسپریس بارہ ہزار روپے۔ میں ذاتی طور پر صحافت میں کارپوریٹ کلچرکو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں نے کہا، صحافت کاروبار بھی ہے کہ اگر میرے ادارے کو اشتہار ہی نہیں ملیں گے تو ہماری تنخواہیں کہاں سے ادا ہوں گی اور جب مجھے تنخواہ نہیں ملے گی یا ادارہ دیوالیہ ہونے پر مجھے فارغ کر دیا جائے گا تو کون سی صحافت رہ جائے گی اور کون سا میڈیا؟
کہا گیا میڈیا عوام کی نمائندگی نہیں کرتا تو میرا سوال تھا کہ پہلے اس امر کا فیصلہ کرلیں کہ میڈیا نے عوام کی نمائندگی کرنی ہے یا ذمے داری کے ساتھ سچ بولنا ہے۔ میں نے کہا کہ ریٹنگز کے ایشو نے میڈیا کی سمت غلط کر دی ہے۔ یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز کی طرح مین سٹریم میڈیا بھی ویوز کے پیچھے بھاگتا ہے۔ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں تو اس کی واحد وجہ یہ نہیں کہ میں جھوٹ بول کے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں بلکہ یہ بھی ہے کہ آپ جھوٹ سننا چاہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ویوز اور ریٹنگز کے ساتھ اشتہار بندھے ہیں یعنی جو جتنا دیکھا جائے گا اسے اتنا ہی پیسہ ملے گاچاہے وہ سچ ہویا نہ ہو۔
میں نے پوچھا، آپ میں سے کتنوں نے ایسی ویڈیوز دیکھی ہیں جن کے ملین، ملین ویوز ہیں اور جن میں بتایا گیا کہ ملک کی طاقتور شخصیت اڈیالہ جیل میں بند ایک پرانے لاڈلے کے سامنے جا کے روتی اور معافیاں مانگتی رہی ہے۔ اب یہ کھرا جھوٹ ہے مگر بِک رہا ہے تو بولا جارہا لہذا میڈیا کے جھوٹ کے آدھے ذمے دار عوام ہیں جو سچ نہیں بلکہ اپنی خواہشات کو خبر وں اور تجزیوں کی صورت سننا چاہتے ہیں۔ اس نے پورے میڈیا کو سٹیج ڈراما بنادیا ہے جو کلیپ کے پیچھے بھاگتا ہے۔ ایک بڑے ٹی وی چینل کے نمائندے نے پوچھا کہ دو، تین سو حاضرین میں سے کتنے اس کے چینل پر ٹرسٹ کرتے ہیں تو جواب میں دو، تین ہی ہاتھ بلند ہوئے یعنی ممی ڈیڈی تعلیمی اداروں والے ٹرسٹ ہی جھوٹ پر کرتے ہیں حالانکہ اس چینل کی ننانوے فیصد نیوز درست ہوتی ہیں، سچ کہوں، ہم حق اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے حق میں ہو۔
ہاں، میں نے اتفاق کیا کہ ویوزکی ضدوڑ نے ہمارے اندر غیر ذمہ داری پیدا کی ہے۔ میں نے صحافت کے اس انجام پر افسوس کا اظہار کیا جس میں مائیک پکڑے کوئی بھی ایرا غیرا نتھو خیرا خود ہی تھانے دار، خود ہی عدالت اور خود ہی جلاد بن جاتا ہے۔
وہ کبھی کسی سے ہاتھا پائی کرتا ہے اور کبھی کسی کے ساتھ الجھتا، دھمکیاں دیتاہے اور اسے صحافت بھی کہتا ہے۔ پہلے کبھی صحافی کی خوبی ہوا کرتی تھی کہ وہ خوش کلام ہے اور اب جو جتنا بدتمیز ہے اتنا بڑا صحافی ہے تاہم مجھے خوشی ہے کہ بہت سارے بڑے چینل اس طرح کی بدتمیزی، بے حیائی اور بدمعاشی کی جرنلزم سے باز آ رہے اور حقیقی قومی معاملات پر وقت خرچ کرنے کی طرف جا رہے ہیں، جی ہاں، اس سے بھی جس میں کرائم سٹوریز کے نام پردیور کے بھابھی سے، بہن کے بھائی سے اور ماں کے بیٹے سے تعلقات چسکے لے لے کر بیان کئے جاتے ہیں سواسے جرنلزم سمجھنے کی بجائے براہ راست ایڈلٹ پورن انٹرٹیمنٹ، ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے۔
اس طرح کے ویوز اور ریٹنگز کے لئے پروگرام صحافت نہیں غلاظت ہی کہلا سکتے ہیں۔ میں نے سٹوڈنٹس سے کہا، یاد رکھو، فوری ویوز کے چکر میں چوولیں مارنے کے مقابلے میں ایمانداری، محنت اور ذمے داری کی صحافت میں راستہ طویل ہوسکتا ہے مگر حقیقی کامیابی اسی میں ہے۔