میں نے لکھا، نئی بات میڈیا گروپ، کی طرف سے تنخواہوں کی بروقت اور باقاعدہ ادائیگی ہم صحافیوں کی تنخواہ کے لئے ترسنے کی عادتیں ہی نہ خراب کر دے، یہ ایک زبردست خوشگوار سرپرائز ہے تو اس پر دوستوں کا ردعمل دلچسپ اور حوصلہ افزا تھا۔ ہوا یوں کہ مہینے کے شروع کے دنوں میں ہی اس پیغام نے کہ آپ کی تنخواہ آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی گئی ہے، ایک نامعلوم سی خوشی کے ساتھ ساتھ انجاناخوف بھی پیدا کر دیا کہ اگر اتنی جلدی ملنے والی یہ تنخواہ جلدی، جلدی ہی خرچ کر دی تو آگے کیابنے گا۔ آپ یقین نہیں کر سکتے کہ ہمارے نوے فیصد صحافیوں کو وقت پر تنخواہ لینے اور خرچ کرنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ میں نے کئی صحافیوں کو اس وجہ سے دفتر آنے سے انکار کر تے ہوئے بھی دیکھا ہے کہ ان کی جیب میں موٹرسائیکل میں پٹرول ڈلوانے کے پیسے بھی نہیں رہے جبکہ دوسری طرف کچھ مہربانوں کی وجہ سے عوامی تاثر ہے کہ صحافیوں کو تنخواہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کیونکہ انہیں لفافے ملتے ہیں۔
لفافوں کی بات بعد میں کریں گے کہ نہ تو ہر صحافی کے پاس اپنا جہاز ہوتا ہے اور نہ ہی ہر صحافی گیلے تیتر شکار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر کئی اداروں میں برس ہا برس، کئی کئی ماہ کی تاخیر سے ملنے والی تنخواہ کی مشکل بلکہ ذلت کو برداشت کیا ہے۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ میں نے جس ادارے سے ملازمت کا آغاز کیا اسی ادارے میں ہمار ے بزنس کے ہیڈ عثمان توحید اور موجودہ ایڈیٹر اسد شہزاد بھی ہوا کرتے تھے۔ تنخواہیں بہت کم تھیں مگر صحافیوں کی تنخواہوں کے حوالے سے دلچسپ فلسفہ یہ ہے کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ تنخواہوں کا کم ہونا نہیں ہوتا بلکہ تنخواہوں کئی کئی ما ہ تک نہ ملنا ہے، کم تنخواہ دوسرا مسئلہ ہوتی ہے مگر یہ مسئلہ عالمگیر نوعیت کا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ملازمین کو ہمیشہ اپنی تنخواہ تینتیس فیصد کم لگتی ہے چاہے وہ جتنی مرضی ہو۔ بہرحال میری تنخواہ غالبا ساڑھے تین ہزار روپے تھی اور وہ بھی کئی ماہ سے نہیں ملی تھی۔ یادش بخیر، رمضان گزرا اور عید آ گئی اور ہم صحافیوں میں ہاہاکار مچ گئی کہ صبح عید پر کیا کھائیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رات ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ تھیلوں میں بھر کے پیسے آئے تھے، بعض کو پوری اور بعض کو آدھی تنخواہ نقد وصول ہونے پر جشن کا سماں تھا تاہم اس امر کا ضرور اعتراف ہے کہ الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد تنخواہوں اورمراعات کی صورتحال بہت بہتر ہوئی۔
مجھے دو، تین اداروں میں نوکری کے بعد احساس ہوا کہ تنخواہ نہ ملنے کے باوجود معاشرے اپنی عزت برقرار رکھنی ہے تو اس کے لئے کوئی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ میں ایک ایسے ادارے میں تھا جس کے سینکڑوں کارخانے تھے مگر تنخواہ وہاں بھی لیٹ ہوجاتی تھی۔ حکمت عملی یہ طے ہوئی کہ میں نے اپنی تیرہ ہزار تنخواہ میں سے ہر مہینے ایک سے دو ہزار روپے بہت کوشش کے ساتھ اس طرح بچانے شروع کر دئیے جس طرح کوئی کمیٹی ڈالی ہو اور یوں ایک برس کے اندر اندر میں اس فکر سے آزاد ہو گیا کہ تنخواہ آئی ہے یا نہیں، الحمدللہ گھر اپنا تھا کرایہ نہیں دینا پڑتا تھا اور میں مہینے کے شروع میں ہی بنک سے مہینے بھر کا خرچ گھر دے دیتا تھا۔ اس بچت کی عادت نے بہت فائدہ پہنچایا۔ یہ بھی اللہ رب العزت کا بے پایاں کرم ہے کہ مجھے کبھی بے روزگاری نہیں دیکھنی پڑی کہ جب بھی ایک ادارہ چھوڑا تو دوسرا ادارہ موجود ہوتا تھا بلکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک ادارے نے مجھے یہ کہہ کر نکال دیا کہ آپ دوسرے ادارے میں جاب شروع کر چکے ہیں اور اس میں ہمارے نام نہاد پروفیشنل جرنلسٹس نے بھی اپنا کردارادا کیا۔ اس ادارے نے میرے تمام واجبات بھی دبا لئے اور دوماہ کی تنخواہ بھی، پھر اللہ رب العزت نے اس کی کامیابی اورمقبولیت کو دبا لیا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ بہت سارے مالکان کو ہمارے نام نہاد پروفیشنل جرنلسٹس ہی غلط راہ پر ڈالتے ہیں جیسے میں ایک اخبار میں چیف رپورٹر تھا اور وہ اخبار اپنے وقت میں اتنا کامیاب تھا کہ اس کی لاہور میں اشاعت باقی تمام قومی اخبارات کی یہاں مجموعی اشاعت سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ ایک پروفیشنل جرنلسٹ ہونے کے دعوےدار صاحب اخبار کے مالک کے پاس گئے اور پیش کش کی کہ آپ رپورٹروں کی تنخواہوں پر مجموعی طور پر لاکھوں روپے ضائع کرتے ہیں، میں آپ کو رپورٹر دوں گا جو نہ صرف اپنی تنخواہ نکالیں گے بلکہ آپ کو بھی نوٹوں کی بوریاں لا کر دیں گے۔ میں نے اس اخبار کی چیف رپورٹری کو سلام کیا اور ایک دوسرے اخبار کو بطور عام رپورٹر جوائن کر لیا، وہ اخبار بھی زوال کا شکار ہو گیا۔
یہ تاثر کہ صحافیوں کو تنخواہ کی ضرورت نہیں شائد تین سے پانچ فیصد کے حوالے سے درست ہے جو واقعی اپنی تنخواہیں اپنے اکاؤنٹس سے نکلواتے تک نہیں ہیں کیونکہ ان کے دھندے ائیرپورٹوں، کسٹم ایکسائز دفتروں، سیکرٹریٹوں، آئی جی اور سی سی پی او وغیرہ وغیرہ کے آفسوں، تبادلے کروانے اور ٹھیکے دلوانے سے چلتے ہیں جبکہ عام صحافی کے گھر والے اس کے موڈ کی شگفتگی اور چہرے کی مسکراہٹ سے اندازہ لگالیتے ہیں کہ تنخواہ آ گئی ہے۔ پچانوے فیصد صحافیوں کو تنخواہوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے اوران کے پاس کرپشن کا اتنا سا موقع اور اہلیت بھی نہیں ہوتی کہ اپنی سالگرہ پر پیارے بھائی قیصر شریف کے کیک کی پیار بھری کرپشن سے منہ میٹھا ہی کر سکیں۔ ان کی پھٹ پھٹیوں کی ٹینکیاں خالی ہوتی ہیں چاہے ان کے اخبارات کے صفحات اشتہاروں سے بھرے ہوں۔ بہت سارے لوگ تنقید کرتے ہیں کہ کارپوریٹ کلچر کے مالکان کے آنے کے بعد صحافت نہیں رہی جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ کارپوریٹ کلچر کے مالکان کے آنے سے ہی صحافی بچا ہے اورانہی کی وجہ سے آج اعلیٰ تعلیم کے ہر دوسرے ادارے میں صحافت پڑھائی جا رہی ہے۔ اگریہ مالکان اپنے دوسرے کاروباروں سے اس کاروبار میں انویسٹ نہ کرتے تو صحافت دم توڑ چکی ہوتی۔ مجھے بھی آپ کی طرح موجودہ اداروں سے بہت ساری شکایات ہیں مگر اس کے باوجود صحافت کا بطور ادارہ کردار دوسرے بہت سارے اداروں سے بہتر اور شاندار ہے اور مجھے یہ گواہی دینے میں بھی کوئی عارنہیں کہ میں اپنی من مرضی سے لکھتا اور بولتا ہوں اگرچہ یہ آزادی کم اداروں میں باقی ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے صحافتی اداروں کو استحکام عطا کریں اورمالکان کو صحافتی اور معاشی شعبوں میں ایسی ہی اعلی روایات قائم کرنے کی توفیق عطا کریں کہ یہ روایات اچھی صحافت کی بنیادی شرائط اور ضروریات میں سے ہیں اور اچھی صحافت سے ہی ایک اچھی جمہوریت اور اچھی جمہوریت سے ایک اچھا پاکستان بنایا جا سکتا ہے۔ کورونا صحافت پر دوسرا برا وقت تھا اورپہلا اس وقت آیا تھا جب سرکاری اشتہاروں کے حوالے سے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے کلہاڑا چلا یا گیا تھا، ا س کلہاڑے نے بھی صحافت کے درخت کی بہت ساری وہ شاخیں بھی کاٹ دیں جن پر پھل اور پھول آنے کے بہت سارے امکانات تھے۔ میرے کارکن صحافی دوست زاہد عابد نے درست بات کی کہ صحافت میں خرابی حالات کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ وقت پر تنخواہ ملنا بھی ہمیں شاد و آباد کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں ٹریڈ یونینوں اورکارکنوں کی طرف سے برے مالکان اور بری روایات پر تنقید ان کا حق ہے وہاں تعریف اچھی روایات فروغ دینے والے مالکان کا حق۔ معروف قول ہے کہ آپ اس وقت تک اللہ کے شکرگزار بندے نہیں بنتے جب تک آپ اس کے بندوں کا شکریہ ادا نہ کریں۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہی ادارے پھلتے پھولتے ہیں جن کے محنت کش خوش اورمطمئن ہوتے ہیں۔ کرونا کی اقتصادی حوالوں سے تباہ کاریوں کے باوجود چیئرمین نئی بات میڈیا گروپ چوہدری عبدالرحمان اور مینیجنگ ڈائریکٹر چوہدری عبدالخالق نے ادارے کی قابل تعریف روایات کو زندہ و تابندہ رکھا جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔