یوں توصحافی کی مسجداس کا قلم اور ادارہ ہوتاہے جس سے اور جہاں وہ حق اور سچ کی مشکل عبادت کرتاہے مگر نئی بات، کے گروپ ایڈیٹر جناب عطاءالرحمان نے واقعی ایک بہت ہی خوبصورت مسجدتعمیر کر دی ہے۔ یہ مسجدفیروزپور روڈپراچھرہ اوررحمانپورہ کے درمیان شاہ دین سکیم میں ہے جہاں ہمارے شہر کی سب سے بڑی ماربل، فرنیچر اور تعمیراتی اشیاءکی مارکیٹ ہے۔ میری زندگی کابڑا عرصہ اسی علاقے میں گھومتے پھرتے گزرا ہے لہٰذا مجھے نمازجمعہ کی ادائیگی کے لئے وہاں پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ایک کنال سے کچھ بڑے پلاٹ پر مسجد کی تعمیر یقینی طور پر ایک بڑے بجٹ کی متقاضی ہوتی ہے اورمیرے لئے حیران کن تھا کہ ایک درویش صحافی بھی اتنی اضافی رقم رکھتا ہے کہ وہ مہنگائی کے اس دورمیں مسجد کی تعمیر جیسی بڑی نیکی کر سکے جب عام لوگوں کو کھانے کے لالے پڑے ہوں۔
اگر آپ جناب عطاءالرحمان سے نہیں ملے تو آپ علم، سادگی اور دیانتداری کی ایک درسگاہ کی زیارت سے محروم رہے ہیں۔ اسلام، تاریخ اور سیاست ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں اور وہ بہت ساری گتھیاں جو بہت ساری کتابیں اور گوگل سے بھی نہیں کھلتیں وہ ان سے تھوڑی دیر کی گفتگو سے وا ہوجاتی ہیں۔ عطاءالرحمان، مولانامودودی کے تقریباًمحلے دار رہے سو ان سے بہت ساری نشستیں رہیں مگر یوں ہواکہ جماعت اسلامی نے اپنی راہ اور سوچ کچھ مختلف کرلی توجناب عطاءالرحمان آئین اورجمہوریت کے تحفظ اور عوام کے مفادات کے ساتھ پکے پکے جڑ گئے۔ مجھے حسن کارکردگی کے بہت سارے صدارتی تمغوں کے ناموں پر اعترا ض رہا ہے مگر ان کو ملنے والا تمغہ ان کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے سو فیصد میرٹ ہے۔ عطاءالرحمان، مجیب الرحمان شامی کے ساتھ ہفت روزہ زندگی میں بھی رہے، وہ نوائے وقت سے وابستہ تھے جب چوہدری عبدالرحمان کی دعوت پر سپرئیر یونیورسٹی میں جرنلزم ڈپیارٹمنٹ کی بنیاد رکھی اور اس وقت یہ ڈپیارٹمنٹ شہر ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں صحافت کی نصابی اور عملی تربیت کا بہترین مرکزمانا جاتا ہے اور پھرانہوں نےنئی بات، اخبار کی داغ بیل ڈالی، یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ایک نیا اخبار سامنے لانا اور چلانا ناممکن باتیں ہیں۔ کہا یہ جاتاہے کہ ایک نیا جھوٹا مذہب تو چلالیا گیا مگر ایک اخبار وہ بھی نہیں چلا سکے اور یہ کہ ملک میں پرائیویٹ ہاوسنگ سیکٹر کے سب سے بڑے ڈویلپرکوبھی اپنا اخبار بند کرنا پڑا مگر نئی بات، چلا اور ماشاءاللہ سنسنی خیزی سے پاک مثبت، نظریاتی اور عوامی صحافت کی علامت کے طور پر خود کو صحافت کے شعبوں میں منوا ٰیا بھی، جس کاکریڈٹ ان دونوں شخصیات کو ہی جاتا ہے۔
میں نے جناب عطا الرحمان سے پوچھا کہ یہ خوبصورت مسجدکیسے بنی تو علم ہوا کہ جس پلاٹ پر تعمیر ہوئی، کمرشل علاقے میں وہ قیمتی پلاٹ ان کی ہمشیرہ زہرہ حمید اور ان کے شوہرعبدالحمید اوپل مرحوم کا خریدا ہوا تھا۔ احادیث کے مطابق نیک اولاد سب سے بہتر صدقہ جاریہ ہے مگربہن اور بہنوئی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ اپنی آخری عمر میں اس خواہش کا بار بار اظہار کرتے تھے کہ وہ کچھ ایسا کر کے جانا چاہتے ہیں کہ ان کے بعد ان کے لئے دعائے خیر ہوتی رہے۔ انہوں نے اپنی وفات سے قبل رشتے داروں اور محلے داروں کے سامنے اس مکان کی رجسٹری جناب عطا الرحمان کے حوالے کر دی اور اس جگہ پر ایک مسجد کی تعمیر کی خواہش کا اظہار کیا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس نیک مقصد کے باوجود کچھ ایسے بھی تھے جن کی نظر اس قیمتی پلاٹ پر تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ایک لاولد جوڑا اس دنیا سے چلا گیا ہے تو اب وہ گھر ان کے پاس آنا چاہئے بہرحال اللہ پاک سب کو ان کی نیتوں اور کاموں کا بہتر اجر دینے والے ہیں کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد مسجد کی تعمیر کا آغاز ہو گیا۔ اس نیک کام میں مرحومہ مغفورہ زہرہ حمیدکا زیور بھی استعمال ہوا، خاندان کے لوگوں نے بھی کنٹری بیوشن کی اور محلے داروں نے بھی اپنا حق ادا کیا۔ میں جب پہلی مرتبہ وہاں پہنچا تو محترم مجیب الرحمان شامی، علاقے کی مقبول ترین شخصیت میاں اسلم اقبال اور دیگر عمارت کی تعمیر اور تکمیل کے بعد افتتاح کر چکے تھے۔ گذشتہ جمعے کی بات ہے کہ مسجد نمازیوں سے کھچاکھچ بھر گئی اور خیال کیا جا رہا ہے کہ رمضان میں یہ اہل ایمان کے لےے چھوٹی پڑ جائے گی لہٰذا اس کے ایک عالی شان مینار کی تعمیر سے پہلے اہل علاقہ کی معاونت سے دوسری منزل تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
ایک اور دلچسپ بات جو دیکھنے اور سننے میں آئی وہ جمعے کی تقریر تھی۔ خطیب صاحب نوجوان مگرصاحب علم شخصیت تھے اور وہ اپنی تقریر سو فیصد بریلوی مکتبہ فکر کے مطابق کر رہے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مولانا مودودی علیہ رحمہ سے تعلق رکھنے اور فیض حاصل کرنے والے بالعموم دیوبندی مکتبہ فکر سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے جناب عطاالرحمان سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ یہ تبدیلی کیسے آ گئی تو انہوں نے مجھے ایک اور درس دیا اور وہ یہ تھا کہ تشریحات سے اسلام کو فرق نہیں پڑتا۔ اسلام وہی ہے جو قرآن ہے، قولی اور فعلی احادیث ہیں۔ تمام مکاتب فکر کی بنیاد ایک ہی ہے۔ ہم اس موقعے پربحث کو کچھ آگے لے گئے اور وہ مجھے بتا رہے تھے کہ جب انہوں نے علامہ محمد حسین اکبر کے ساتھ ایران میں زیارات کا سفرکیا تو انہوں نے وہاں پڑے ہوئے قرآن پاک کے نسخوں کو کھول کھول کے دیکھا، وہ تمام صحائف وہی تھے جو ہمارے ہاں ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ اہل علاقہ کی خواہش تھی کہ یہاں بریلوی مکتبہ فکر کے امام اور خطیب ہوں اور انہوں نے اس خواہش کا احترام کیا۔ میں نے بھی یہی جانااور سمجھا کہ تمام فرقے ہمارے ہیں، یہ تاریخ اور تشریح کے فرق ہیں جنہیں ہم تبدیل نہیں کر سکتے اورقیامت کے روز ہم سے ہمارے فرقے کا نہیں، اللہ عزوجل اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان اور اعمال بارے پوچھا جائے گا۔
جناب عطاءالرحمان خواہاں ہیں کہ مسجد کے احاطے میں صحن سے جڑی جو جگہ باقی ہے وہاں ایک قرآن انسٹی ٹیوٹ بنایا جائے جو جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہو اور قرآن کریم کے ترجمے، تفہیم اور تشریح کی جدیدترین درسگاہ کا درجہ رکھے۔ میں جامع مسجد زہر ہ حمید کے صحن میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ عام لوگ صحافیوں کے بارے کیسی رائے رکھتے ہیں مگر ہم صحافیوں میں بھی کیسے کیسے درویش اور مست ملنگ ہیں۔ ایک قیمتی پلاٹ جس پر قبضہ ہو سکتا تھا اور کروڑوں روپے کھائے جا سکتے ہیں اس پر اپنی فیملی کے ساتھ مل کر مسجد بنا دی گئی ہے کہ وہاں سجدے کئے جاتے رہیں، اللہ اور اس کے رسول کا ذکر بلند ہوتا رہے۔ میں اپنے ارد گرد جب ہر طرف ظلم، ناانصافی اور لالچ دیکھتا ہوں تو سخت ڈپریشن کا شکار ہوتا ہوں۔ جی کرتا ہے کہ میں اپنا قلم اور مائیک لے کر نکل جاوں اور اپنے مصیبت کے مارے، مسائل کا شکار ہم وطنوں کی مدد کروں۔ ان کی آواز بنوں اور اسے اپنے چینل اور اخبار کے ذریعے ارباب اختیار تک پہنچاوں کہ آوازبلندکرنا میری ذمے داری اورمسائل حل کرنا ان کی ذمے داری ہے۔ ہم صحافیوں کی یہی مسجد ہے اور یہی اذان ہے، یہی فرض ہے اور یہی نفل مگرجب میں اپنے ارد گرد جناب عطا الرحمان جیسے اچھے لوگوں کو دیکھتا ہوں، جامع مسجد زہرہ حمید کے صحن جیسی جگہوں پر بیٹھتا ہوں تو دل اور روح کو سکون ملتا ہے اور مجھے علم ہوجاتا ہے کہ پاکستان کن لوگوں کی وجہ سے چل رہا ہے، ہمارے اصل ہیرو کون ہیں جن پر نہ کالم لکھے جاتے ہیں اورنہ ہی پروگرام ہوتے ہیں۔
نوٹ: جامع مسجد زہر ہ حمید اچھرہ لاہورمیں صدقہ جاریہ قرآن انسٹی ٹیوٹ کی تعمیرکے لئے ملک بھر سے مخیر حضرات رابطہ اور تعاون کر سکتے ہیں کہ وہاں جب جب قرآن پاک کا ایک ایک حرف پڑھایا جاتا رہے گا انہیں اس کا ثواب ملتا رہے گا۔