Thursday, 09 January 2025
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Sarak Roti Deti Hai, Zindagi Deti Hai

Sarak Roti Deti Hai, Zindagi Deti Hai

میں نے موٹرویز اور میٹروز کی تعریف کی تو جہالت کا ایک پہاڑ بولا، میں سڑکوں کو کیا کروں، کیا ان سڑکوں کے ساتھ لگا کے روٹی کھائوں، کیا ان سے علاج کروائوں یا اپنے بچوں کو تعلیم دلائوں۔ سڑکیں تو کمیشن لینے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور میرا یقین بڑھا کہ آپ ایم بی بی ایس اور پی ایچ ڈی کرکے بھی جاہل، ہٹ دھرم اور بے وقوف ہوسکتے ہیں۔

مجھے نوے کی دہائی یاد آ گئی جب میاں نواز شریف پاکستان کی پہلی موٹر وے بنا رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ اس میں سے چارسو ارب روپے کمیشن کھائی گئی ہے یعنی چالیس ارب روپوں کے پراجیکٹ میں سے چارسو ارب کی کرپشن۔ انہی کہانیوں نے ایک ایسی نسل کو جنم دیا جن کے سامنے عقل، منطق اور دلیل جیسی چیزیں بے کار ہیں۔ میری یہ تحریر ایسے پڑھے لکھے جاہلوں کے لئے نہیں ہے، وہ اس سے آغاز میں ہی رخصت ہوسکتے ہیں۔

باقی سڑکوں کی بات بعد، پہلے اس موٹر وے کی کرتے ہیں جو سب سے پہلے بنی۔ مجھے آج تک بھارت کے وزیراعظم اندر کمار گجرال سے مشرف دور میں لاہور کے پریس کلب میں ہونے والی ایک ملاقات یادآ گئی جس میں وہ صدر کے کمرے میں سینئر صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کر رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو پاکستان میں کیا اچھالگا۔ ا نہوں نے جواب دیا کہ وہ اپنی پتنی کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد تک موٹروے پر گئے، وہ ایسی شاندار سڑک ہے کہ اس جیسی پورے ہندوستان میں ایک بھی نہیں ہے۔ اس جواب پر میرے چہرے پر مسکراہٹ ا ٓگئی، بطور پاکستانی میرا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا۔

میں مانتا ہوں کہ تعلیم اور صحت سے لے کر پانی کی فراہمی تک ہر منصوبہ اہم ہے مگر جب ہم کسی ملک میں جاتے ہیں تواس کے انفراسٹرکچر کا اندازہ سب سے پہلے ہم اس کی سڑکیں دیکھ کے ہی لگاتے ہیں اور کسی قوم کے مہذب ہونے کااندازہ ان کی ٹریفک سینس سے۔ مجھے یاد ہے کہ جب دس بارہ برس پہلے میں استنبول گیا اور وہاں پر چوراہوں پر کسی ٹریفک کانسٹیبل کو نہ پایا کہ وہاں کیمروں کے ذریعے مانیٹرنگ ہورہی تھی اور کوئی سگنل نہیں توڑ رہا تھا تو میرے لئے یہ حیرانی کی بات تھی کیونکہ لاہور میں ایسا نہیں تھا، شہباز شریف نے سب سے پہلے لاہور کو سمارٹ سٹی بنا یا۔

واپس سڑکوں کی طرف آتے ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ روٹی نہیں دیتیں مگر ایسے کہنے والے احمق ہیں، متعصب ہیں، جاہل ہیں کیونکہ سڑکیں روٹی، روزگار کی صورت میں دیتی ہیں۔ میری بات پلے سے باندھ لیجئے کہ کوئی بھی حکمران آپ کے گھر آ کے آپ کے منہ میں روٹی نہیں ڈال سکتا وہ آپ کو کاروبار اور روزگار کے مواقعے دے سکتا ہے۔ جیسے ہم تبدیلی کے نام نہاد دور میں کہا کرتے تھے کہ حکمرانوں کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ لنگر خانے چلیں بلکہ ان کی کامیابی ہے کہ کارخانے چلیں کہ جب کارخانے چلتے ہیں تو مجرموں اوربھکاریوں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے اور جو رہ جاتے ہیں انہیں روٹی دینے کے لئے بہت سارے کھاتے کماتے مخیر حضرات موجود ہوتے ہیں۔

کسی کو اگر میری بات پر شک و شبہ ہے کہ سڑکیں روٹی دیتی ہیں تو وہ میرے ساتھ سرگودھا، میانوالی، خوشاب، چکوال وغیرہ چلے اور دیکھے کہ موٹر وے بننے کے بعد ان اضلاع نے کتنی ترقی کی۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ ایک کسان جس کے پھل یا سبزی پہلے صرف مقامی منڈی میں ہی فروخت ہوتے تھے اس کے پاس وسیع مواقعے ہوگئے کہ وہ اپنی فصل کاٹ کے کسی ایسے شہر میں بھیج دے جہاں اسے دوگنے دام ملیں۔ آپ کہیں گے کہ اس سے آڑھتی کو فائدہ ہوا مگر آپ کو اتفاق کرنا ہوگا کہ اس فائدے میں کسان بھی شامل رہا۔ سڑکیں کسی بھی ملک کے جسم میں رگوں کی طرح ہوتی ہیں، ان رگوں کی طرح جو خون کی نقل وحمل کرتی ہیں۔ جیسے جسم کے جس حصے میں خون نہ جا رہا ہو وہاں فالج ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح جس حصے میں سڑک موجود نہ ہو اسے معاشی فالج رہتا ہے۔

سڑکیں زندگی بھی دیتی ہیں اور تعلیم بھی۔ میں عثمان بزدار کے شہر تونسہ شریف گیا اور پھر نیشنل ہائی وے پر آگے نکل گیا۔ مجھے وہاں لوگوں نے بتایا کہ ہر برس لازمی طور پر کئی زچہ بچہ کی ڈیتھ ہوجاتی ہے جن کی نارمل ڈیلیوری نہیں ہوتی کیونکہ انہیں بڑے قصبے تک لانے کے لئے سڑک اور سواری موجود نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر سعید الٰہی بتا رہے تھے کہ سابق صدر لغاری موٹروے کے مخالف تھے مگر جب وہ خود بیمار ہوئے اورپھر موٹروے کے ذریعے سفر کرنے پر انہوں نے باقاعدہ میاں نواز شریف کو اس کی مخالفت پر معذرت کا پیغام بھیجا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں وفاقی اور صوبائی دونوں وزرائے صحت نارووال سے تھے مگر وہاں کسی کا بھی ایکسیڈنٹ ہوتا تو اسے لاہور لانا پڑتا اور وہ یہاں پہنچتے پہنچتے ہی مر جاتا۔ بنیادی ضرورت یہ تھی کہ نارووال میں بھی اچھا ہسپتال بنے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ کسی کو ہائیلی سپشیلائزڈ سروسز درکار ہوں تو وہ اس وقت میں ان تک پہنچ سکے جس وقت تک اس کی سانسیں چل رہی ہوں۔ میرے ننھیال کاگائوں گجرات سے چالیس کلومیٹر دور اعوان شریف ہے اور میرے بچپن میں وہاں لاری چار گھنٹوں پہنچایا کرتی تھی اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ روزانہ اس اذیت ناک سفر کے ذریعے کالج یا یونیورسٹی تک پہنچا جا سکے اور جب سڑکیں بنیں اور وہی سفر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہونے لگا تو مجھے اندازہ ہوا کہ سڑکیں تعلیم بھی دیتی ہیں۔

جب سڑکیں بنتی ہیں توآس پاس زمینوں کے مالک امیر ہوجاتے ہیں۔ سڑکوں کے کناروں پر پٹرول پمپوں سے مارکیٹوں تک بہت کچھ بنتا ہے اور ان سب پر انہیں روزگار اورملازمت ملتی ہے جو اس سے پہلے بے روزگار ہوتے ہیں۔ اسی موٹروے کے ذریعے جب سرگودھا کا کینو دوردراز کے علاقوں میں جاتاہے توکسانوں اور آڑھتیوں کو ہی نہیں ٹرکوں کے مالکوں کو کلائنٹ ملتا ہے۔ ان ٹرکوں پر لوڈ اور ان لوڈ کرنے والے روٹی کماتے ہیں اور ان ٹرکوں پرڈرائیوروں وغیرہ کو بھی، انہی سے حکومت کو ٹیکس ملتا ہے جس سے ریاست چلتی ہے۔ جب مری کی سڑکیں اچھی تھیں تو لوگ مری تک ہی جاتے تھے اور جب کاغان ناران کے راستے میں ہزار ہ موٹر وے سہولت دے تو وہاں بھی رش لگ رہاہے اور اگر وہاں جانے کے لئے ہی سڑک ہی نہ ہو تو کیسی سیاحت، کیسا روزگا ر اور کیسی روٹی۔

میں نے موٹرویز اور میٹروز کی تعریف کی تو جہالت کا ایک پہاڑ بولا، میں سڑکوں کو کیا کروں، کیا ان سڑکوں کے ساتھ لگا کے روٹی کھائوں، کیا ان سے علاج کروائوں یا اپنے بچوں کو تعلیم دلائوں۔ سڑکیں تو کمیشن لینے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور میرا یقین بڑھا کہ آپ ایم بی بی ایس اور پی ایچ ڈی کرکے بھی جاہل، ہٹ دھرم اوربے وقوف ہی نہیں مکمل گدھے بھی ہوسکتے ہیں۔