Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Sarkari Mulazmeen Banam Nigran Wazir e Aala Punjab

Sarkari Mulazmeen Banam Nigran Wazir e Aala Punjab

میں نے سرکاری ملازمین کی بہت تنظیموں کے ڈھیر سارے رہنماوں کو بہت ساری مثالیں دے کر بتایا کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ دردِ دل رکھنے والے، فہم اور منطق سے کام لینے والے ایک اچھے انسان ہیں، یہ سب کی سب مثالیں میرے اپنے تجربات تھے جن میں ہم نے ڈاکٹروں اور تاجروں سمیت بہت سارے طبقات کے لئے بہت کچھ اچھا کیا تھا، ان کے مسائل حل کئے تھے، ان کے دکھ درد سمیٹے تھے، ان کی چیخ و پکار میں ہمیشہ ان کی آواز بنے۔

ایپکااور اگیگا سمیت دیگر تنظیموں کے رہنماؤں کا مجھ سے اتفاق تھا مگر ان کا سوال تھا کہ پھروزیراعلیٰ اپنے چند ماہ کے اقتدار میں سرکاری ملازمین کو ریلیف دینے کی بجائے ان کے لئے مسائل کیوں بڑھا رہے ہیں، ان کی تنخواہوں اور مراعات میں مسلسل کمی کیوں کر رہے ہیں جبکہ مہنگائی کا عفریت پہلے ہی تنخواہ دار طبقے پر سب سے زیادہ حملہ آور ہے اور پھر پینشنرز، جو بوڑھے اور لاچار ہیں، جنہوں نے زندگی بھرخود کما کے کھایا ہے اور اس عمر میں بھی اپنی پینشن سے اپنی زندگی، اپنی صحت اور اپنی عزت تک کو سنبھالے ہوئے ہیں۔

ان کا سوال تھا کہ اگر وزیراعلیٰ آدمی ہیں تو یقینی طور پر ان کے بیوروکریسی کے مشیر اچھے لوگ نہیں۔ وہ صرف طاقتوروں کے نمائندے ہیں، یہ مشیر عثمان بزدار یت، کا تسلسل ہیں جس نے بڑے اور طاقتور افسران کو ڈیڑھ سو فیصد ایگزیکٹو الاونس دے دیا اور غریب سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں تفاوت کو دور کرنے والے ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کو کئی برس پرانی تنخواہ پر لاگو کیا جس سے پچیس فیصد کم ہو کے عملی طور پربارہ سے تیرہ فیصد رہ گیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ نگران وزیراعلیٰ سے کہیں کہ وہ پنجاب کے دس لاکھ سرکاری ملازمین میں ایک سروے کروا لیں کہ ان کے دور کو کیسے یاد رکھا جائے گا۔

میں خود حیران ہوں کہ پنجاب کی نگران حکومت کو سرکاری ملازمین کے حوالے سے بنیادی اور پالیسی فیصلے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ درست کہ اس حکومت نے کسی بھی دوسری نگران حکومت سے زیادہ وقت گزارنا ہے مگربہرحال اس نے چلے جانا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت اکتوبر، نومبر میں رخصت ہوجائے گی اور سازشی تھیوریاں درست ہیں تب بھی ایک آدھ برس اور۔ اس حکومت کے پانچ برس رہنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ پینشنرز اور سرکاری ملازمین پرسوں منگل کے روز ایوان وزیراعلیٰ کے سامنے دھرنا دے رہے ہیں اور ان کا مطالبہ عین آئینی اور اخلاقی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں وفاق، سندھ اورخیبرپختونخواہ کے سرکاری ملازمین کے برابر سمجھا جائے۔ جب وفاق اور باقی صوبے اپنے ملازمین کو رننگ بیسک، پر پینتیس فیصد اضافہ دے رہے ہیں تو پنجاب جو دوسرے صوبوں سے زیادہ باوسائل اور مال دار سمجھا جاتا ہے وہ اپنے سرکاری ملازمین کو انیشئل بیسک، پر تیس فیصد اضافہ کیوں دے رہا ہے جو عملی طور پر آدھے سے بھی کم رہ جائے گا۔ کچھ رہنماؤں کا خیال یہ ہے کہ انہیں اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنا چاہئے جہاں سے وہ ریلیف لے سکتے ہیں۔

میرے علم میں بیوروکریسی کے مشیروں کے مشورے پر وزیراعلیٰ کے کچھ ایسے فیصلے موجود ہیں جہاں افسر شاہی نے من مانی کی اور پھر عدالت کے حکم پرحکومت کو وہی کرنا پڑا جو اگر وزیراعلیٰ خود کرتے تو بہت بہتر، بہت اچھا ہوتا۔ مجھے واقعی علم نہیں کہ وزیراعلیٰ کن لوگوں کے ہاتھوں اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ جس طرح ڈاکٹروں کوسکیورٹی بل پر سنا گیااورنامناسب یہ تھا کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح ہڑتال کے بعد سنا گیا اسی طرح سرکاری ملازمین کو بھی سنا جائے کیونکہ ان کے سامنے تصویر کا ایک ہی رخ پیش کیا جا رہا ہے۔

میں نے وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے بھی یہ مسئلہ رکھا اورانہوں نے کہا کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب حج سے واپسی کے بعد ان سے بات کریں گے۔ میں جانتا ہوں کہ موجودہ صورتحال میں نواز لیگ کے مخالفین کے لئے انتخابات فتح کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اصل فتح دلوں کی فتح ہے۔

اگر آپ تنخواہوں میں خواہ مخواہ کم اضافہ کریں جب آپ کو وفاق سے پورے وسائل مل رہے ہوں، جب آپ سرکاری ملازمین کی ایل پی آر یعنی ریٹائرمنٹ سے پہلے چھٹیوں کی تنخواہ پر کلہاڑا چلا دیں اور وہ واجبات کم کردیں جس سے بوڑھوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنی ہوں یا کوئی دکان کوئی کاروبار شروع کرنا ہو۔ اس کے ساتھ ہی آپ بزرگ پنشنروں کو ساڑھے سترہ فیصد کی بجائے صرف پانچ فیصد اضافہ دے کر انہیں فکروں، پریشانیوں اور آنسووں کے حوالے کر دیں تو یقینی طور پر اس سے دل دکھیں گے اور میری نظر میں دنیا میں ایٹم بم سے بھی خوفناک شے دکھے ہوئے دل ہیں اور ایسے میں اٹھے ہوئے ہاتھ ہیں، ایک آنسوتمام میزائلوں پر بھاری ہے جو کوئی سپر پاور چلا دیتی ہے۔ ناانصافیوں کے خلاف دل سے جو بات نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے، یہ نالے آسمان چیر جاتے ہیں۔

میں جس محسن نقوی کو جانتا ہوں وہ ایسے فیصلے نہیں کرسکتا جو انصاف پر نہ ہوں، جو غریبوں کی پریشانیوں میں اضافہ کریں، ہسپتالوں میں حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے مارا مارا پھرنے والا محسن نقوی پنجاب کے لاکھوں سرکاری ملازمین اور پینشنرز کے حالات کیسے خراب کرکے جا سکتا ہے؟ یہ وزارت اعلیٰ تو ایسی ہونی چاہئے تھی کہ لوگ دیر، بہت دیر تک یاد کرتے رہتے، دعائیں دیتے رہتے۔

حیران ہوں وہ سرکاری ملازمین کے حوالے سے عثمان بزدار کا تسلسل کیسے ہوسکتے ہیں کہ طاقتوربیوروکریسی کو اضافی تنخواہیں دیتے رہیں اور غریب ملازمین کو ان کا حق بھی نہ دیں۔ اس وقت عوام سے بھی پہلے سرکاری ملازمین ان کی رعیت ہیں اور جب سوال کا دن آئے گا توان سے ہی پوچھا جائے گا کہ کیا آپ نے ترازو کو برابر رکھا؟

میں نے سرکاری ملازمین کوبتایا کہ میرے گمان کے مطابق محسن نقوی کچھ ایسے طاقتور بیوروکریٹ مشیروں کے نرغے میں ہیں جو خود غرض ہیں، وہ انہیں تصویر کا ایک رخ دکھا رہے ہیں۔ میرے پاس ایک سہولت ہوتی تھی کہ جب عوامی ایشوز پر شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ پنجاب فیصلے کرنے لگتے تھے تو وہ مجھے بطور آبزرور میٹنگ میں بلا لیتے تھے اور میں ان کی خوشی یا ناراضی کو سامنے رکھنے کی بجائے پوری دیانت داری سے اپنی رائے پیش کر دیتا تھا۔

میں چاہتا ہوں کہ محسن نقوی کا دور ایک شاندار دور کی طرح یاد رکھا جائے اور کل کلاں جب یہ دوبارہ کسی ذمے داری کے لئے چنے جائیں تو یہ صرف مقتدر حلقوں نہیں بلکہ عوام کی بھی زبردست حمایت کے ساتھ ہوں۔ میں نے سرکاری ملازمین کی تنظیموں کے رہنماؤں سے کہا مجھے رہنے دیں، جس روز بھی پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے اپنے ان مشیروں سے جان چھڑواتے ہوئے اپنے ادارے کے مخلص ساتھیوں اور دیانتدار صحافیوں سے ہی پوچھ لیا کہ کہاں کیا غلط ہو رہا ہے تو نوید چوہدری صاحب سے زین العابدین تک اور زاہد چوہدری سے قیصر کھوکھر تک سب کے سب انہیں سچ بتا دیں گے۔