میں نے نان روٹی ایسوسی ایشن لاہور کے صدر آفتاب اسلم گل سے پوچھا، آپ لوگ سادہ روٹی کیوں آٹھ روپوں سے بڑھا کر بارہ روپوں کی کرنا چاہتے ہیں کہ پانچ، سات یادس افراد پر مشتمل گھرانے کو اگرآپ کی چھوٹی چھوٹی پندرہ روٹیاں ایک سو بیس روپوں میں مل جاتی ہیں تو ان کی قیمت ایک سو اسی روپے ہوجائے گی یعنی پورے ساٹھ روپے زیادہ۔ اس سے توکسی غریب کے گھر کا سارا بجٹ ہی اپ سیٹ ہوجائے گا۔ آفتاب اسلم گل تندور مالکان اور مزدوروں کا نمائندہ ہے لہذا وہ کسی وزیر، وائس چانسلر یا بیوروکریٹ جیسا دکھائی نہیں دیتا۔ اس نے جواب میں سیدھی سیدھی بات کی کہ اگر آٹھ سو ساٹھ روپوں میں ملنے والا آٹے کا بیس کلو کا تھیلا گیارہ سو روپوں کا ہوجائے گا تو وہ کیسے روٹی آٹھ روپے کی بیچ سکتے ہیں بلکہ اس سے پہلے بہت برس یہ تھیلا آٹھ سو پانچ روپوں کا رہا ہے۔
آفتاب اسلم گل ہوں یا میردادخان، میں انہیں بہت عرصے سے جانتا ہوں، یہ محنت کش لوگ ہیں اور محنت بھی ایسی کہ صبح فجر سے لے کر رات گئے تک آگ کے سامنے روٹیاں تھاپنا۔ وہ بتا رہے تھے کہ برس ہا برس سے سادہ روٹی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ بجلی اور گیس سمیت ہر شے مہنگی ہوچکی۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل حکومت نے گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا تھا تو یہ سب تندور والے ناصر باغ میں احتجاج کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ا ب تندوروں پر کام کرنے کے لئے محنت کش بھی نہیں ملتے۔ شہروں میں ماں، باپ جتنے بھی غریب ہوں، وہ اپنے بچوں کو کسی بھی دوسرے کام میں توڈال دیتے ہیں مگر تندورچی نہیں بناتے کہ آخرت کا علم نہیں مگر ان کے بچے سارا دن دنیا کی آگ میں کیوں جھلستے رہیں، سو لیبر دیہات سے لانا پڑتی ہے، اسے رہائش اور کھانا بھی دینا پڑتا ہے۔
اصل میں سادہ روٹی کی قیمت ایک سیاسی معاملہ ہے اور ہر حکومت اسے قابورکھنا چاہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب آٹا ہی مہنگا ہوجائے گا تو روٹی کیسے سستی رہے گی۔ یوں بھی اگر آپ تندور کی روٹی مہنگی نہ بھی ہونے دیں تو نوے فیصد گھروں کی روٹی کا خرچہ آٹے کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ساتھ خودبخود بڑھ جاتا ہے۔ میں حکومتی دعووں پر حیران ہوں جن کے مطابق اس مرتبہ نہ صرف ریکارڈ گندم ہوئی ہے بلکہ حکومت نے مبینہ طور پر ٹارگٹ سے بھی زیادہ خریداری کر لی ہے۔ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی مارکیٹ کا مسلمہ اصول ہے اور سپلائی زیادہ ہونے پر قیمتیں ہمیشہ کم ہوتی ہیں مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے تمام معاشی اصول الٹے سیدھے کر دئیے ہیں، ان کی مت مار کے رکھ دی ہے۔ اب تندور کی روٹی سستی رکھنے کا ایک ہی حل ہے کہ تندور والوں کو آٹے پر سب سڈی دے دی جائے مگر سب سڈی کون سی کوئی حکمران اپنی جیب سے دیتا ہے، یہ بھی عوام کے پیسے ہوتے ہیں اور ایک طرف سے پکڑ کر محض اپنے سیاسی مفادات کے لئے دوسری طرف پکڑا دئیے جاتے ہیں۔ آفتاب اسلم گل دلچسپ سوال کر رہے تھے کہ حکومت کو لاہور میں روٹی کی قیمت کنٹرول رکھنے کی اتنی خواہش کیوں ہے کہ لاہور سے باہر سے دس، بارہ اور پندرہ روپوں تک کی ہوچکی ہے، کیا لاہور میں میڈیا ہے اس لئے؟
میں نے تندور والوں سے کہا، سادہ روٹی سستی ہی رہنے دو کہ تم لوگ خمیری روٹی، روغنی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آلو سے قیمے والے نان تک میں اچھا نفع نکال لیتے ہو، جواب ملا، آلواور قیمے والے نان کھانے والے کتنے رہ گئے کہ وہ سب بھی برگر، شوارمے پر لگ گئے لہذا آٹا مہنگا ہو گا تو روٹی بھی مہنگی ہو گی کہ اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ ہمارے سینئر رپورٹر اشرف مہتاب کہہ رہے تھے کہ تندور والے کون سا سو گرام کی روٹی لگاتے ہیں۔ تندور کی روٹی کبھی ساٹھ، کبھی ستر اور کبھی اسی گرام کی ہوتی ہے۔ میرا اس پر موقف تھا کہ کم وزن کی روٹی گناہ بھی ہے اور جرم بھی۔ انتظامیہ اخراجات اور منافع کو سامنے رکھتے ہوئے ریٹ مقرر کرے اوراس کے بعد کم وزن روٹی لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے، ان کی دکانیں سیل کر دے۔ ویسے بھی اس وقت آٹھ روپوں کی کوئی ٹافی بھی نہیں ملتی اور یہ تو پوری کی پوری روٹی ہے۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ بارہ روپے نہ کریں، دس روپے کر دیں تو جواب تھا کہ انتظامیہ بات تو کرے، مذاکرات تو کرے کہ اس وقت تو صرف ڈنڈا شاہی چل رہی ہے۔
یقین کیجئے مجھے مہنگائی خطرناک لگتی ہے مگر اس سے کہیں زیادہ خطرناک مصنوعی اور مسلط کی گئی سستائی۔ جیسے میں نے ایک پوش ایریا میں سبزی کی دکان پر لکھا ہوا دیکھا، ٹماٹر بیس روپے کلو، پیاز بیس روپے کلو تو میں نے اس کی تصویر بنا لی اور سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے فوڈ سیکورٹی کے مشیر جمشید اقبال چیمہ کو ٹیگ کر دی، وجہ یہ تھی کہ میں کئی مہینوں سے ان بنیادی آئٹمز کی یہی قیمت دیکھ رہا ہوں۔ ذرا سوچئے کہ بیس روپے کلو میں دکاندار میں اپنا دو، چارروپے کلو کا پرافٹ بھی رکھنا ہے اور دکان کے اخراجات بھی، اسے منڈی سے لانے کا خرچہ بھی ڈالنا ہے۔ اس سے پہلے آڑھتی اور پھڑئیے کا شئیر بھی ہے اور ان سے بھی پہلے کسان نے یہ پیا ز اور ٹماٹر اگانے ہی نہیں بلکہ انہیں منڈی تک بھی پہنچانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان کو ان بیس روپوں میں سے کیا ملتا ہو گا کہ وہ بیج سے لے کر فصل کے جوان ہونے تک کی محنت کرتا ہے۔ مجھے غیر معمولی سستی چیزوں سے اس لئے ڈر لگتا ہے کہ یہی کسان اول اپنے نقصان کے بعدگھاٹے والی فصل لگانے سے توبہ کر لے گا۔ جب ایک دو سیزن فصل نہیں لگے گی تو وہ شارٹ ہوجائے گی۔ جب شارٹ ہو گی تو پھر نہ صرف وہ غیر معمولی مہنگی ہو گی بلکہ اسے قیمتی زرمبادلہ خرچ کر کے درآمد بھی کرنا پڑے گا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سرکاری ریٹ سب فراڈ ہیں، جھوٹ ہیں جیسے بیف اور مٹن کا ڈی سی ریٹ۔ میں نے اسی دکان سے لیموں لئے توان کا سرکاری ریٹ ڈیڑھ سو روپے کلو تھا اور وہ ساڑھے تین سو روپے کلو دھڑلے سے فروخت کئے گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے ہر معاملے میں ہی پاکستان کو بنانا ری پبلک بنا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں میں استحکام کیوں نہیں لاتے۔ محکمہ زراعت ہو، محکمہ خوراک ہو، انڈسٹریز ڈپیارٹمنٹ ہو یا ایگریکلچر مارکیٹنگ کا محکمہ، یہ سب مل جل کر کیا توپ چلا رہے ہیں؟