کالم کا یہ عنوان نامکمل ہے اور حالات کی پوری عکاسی نہیں کرتا، اسے آپ شفقت محموداورمراد دونوں کے نام کے ساتھ پڑھیں تو زیادہ بہترہو گا بلکہ اگرتعلیم سے آگے بڑھ کے پورے ملک بارے سوچنا ہے تو سوال اٹھا سکتے ہیں کہ عمران خان، شفقت محمود اور مراد راس کے بعد ملک کہاں کھڑا ہو گا مگرمیں اس وقت تعلیم کے بارے سوچ رہا ہوں جس کے بارے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان دو اڑھائی برسوں میں ملک کی معیشت زیادہ تباہ ہوئی ہے، صحت کا شعبہ ہوا ہے یا زراعت مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ باقی شعبوں کے مقابلے میں تعلیم کے شعبے کی تباہی کے اثرات عشروں تک بلکہ نسلوں تک جائیں گے۔
شفقت محمود کی وزارت میں ہم نے نالائقوں، کاہلوں، نکمّوں اور ہڈحراموں کی ایک پوری نسل تیا ر کر دی ہے جو ایک برس بعد بھی تعلیمی ادارے کھلنے پر خوش نہیں اور شفقت محمود سے سکول، کالجز بند رکھنے کی شفقت چاہتی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جسے بغیر پڑھائی، محنت اور امتحانات کے کامیاب ہونے کی عادت ڈالی گئی ہے اور خدشہ ہے کہ اب یہ عادت عمر بھران کے ساتھ رہے گی۔ یقین مانئے، میں کسی کمپنی کا سی ای او ہوتا تومیں اپنی کمپنی کے ملازمت کے اشتہار میں ہی لکھ دیتاکہ شفقت محمود کے دور والے طالب علم اپلائی کرنے کی زحمت نہ کریں بلکہ اپنے گھروں میں چارپائیاں ہی توڑتے رہیں۔ شفقت محمودنے اس وقت بھی تعلیمی ادارے بند رکھے جب پوری دنیا میں کرونا کی دوسری بدترین لہر کے باوجود انہیں کھلا رکھا گیا تھا کیونکہ وہ قومیں اپنے ہی مستقبل کی دشمن نہیں تھیں اور ہمارے دفاتر، کارخانے اور بازار تک کھلے تھے مگر تعلیمی ادارے بند تھے۔
یونیورسٹیوں اورکالجوں کے طالب علموں نے ٹوئیٹر سمیت سوشل میڈیا پر جعلی اکاونٹس کی بھرمار کر رکھی ہے اور وہاں سے شورمچایا جاتا ہے کہ کرونا کے نام پر تعلیمی ادارے بند رکھے جائیں۔ میرے خیال میں شفقت محمود اینڈ کمپنی کا نوجوانوں میں تعلیمی ادارے بند رکھ کر اور بغیر امتحانات پاس کرنے کی اجازت دے کر مقبول ہونے کا منصوبہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی اپنی شہ رگ کاٹ کے شہرت اورمقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ان جعلی اکاونٹس پر لونڈے لپاڈے اور ٹک ٹاک بنانے والی لونڈیاں تڑپ تڑپ کر آتی ہیں کہ ان کی موج مستی کے دن ختم نہ کئے جائیں اور ان میں بعض والدین بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ میں نے ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک بی بی نے منظر کشی کی تھی کہ آئسولیشن وارڈ میں آکسیجن لگے بچے کوہچکیاں لیتے ہوئے دیکھتی ماں نے اپنی آنکھیں اور گلا آنسووں سے صاف کیا اور کہا، میرے بچے کو دوبارہ زندگی ملی تو میں کبھی اس کو سکول نہیں بھیجوں گی تومجھے ہنسی آ گئی کہ ہر فراڈن ملکہ جذبات اور ہر فراڈیا خلیل الرحمان قمر بننے کے چکر میں ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے گھر سے باہر نکلے تو کورونا کا شکار ہوجائیں گے یا خدانخواستہ موت کا تو وہ اپنے بچوں کو اپنے گھروں میں بند رکھیں۔ انہیں موبائل فونوں، لیپ ٹاپوں اور کمپیوٹروں کے اسیر بنائے رکھیں مگر وہ لوگ جوپڑھنا چاہتے ہیں اوروہ قوم جو آگے بڑھنا چاہتی ہے اس کا راستہ نہ روکیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے ایک پوری نسل تباہ کر دی ہے، اس کی نفسیات تباہ کر دی ہے۔
بات صرف طالب علموں کی نہیں ہے بلکہ ایجوکیشن کی پوری انڈسٹری کی ہے۔ اس دورمیں پرائیویٹ سکولوں، کالجوں اوراکیڈیمیوں میں پڑھانے والے سات لاکھ کے لگ بھگ اساتذہ بے روزگار ہوئے ہیں، پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے مطابق دس ہزار کے لگ بھگ سکول بند ہو گئے ہیں حالانکہ سکول وہ مقامات رہے جہاں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد نوے فیصد سے بھی زائد رہا مگر حکومت نے وہ بازار کھلے رکھے جہاں ایس او پیز کی خلاف ورزیاں نوے فیصد سے زائد تھیں۔ میں نے ایک بازارمیں بڑھتی ہوئی سبزی کی ریڑھیوں کے بارے وہاں کی انجمن تاجران کے عہدے دار سے پوچھا تو اس نے ہنس کر کہا کہ بے روزگار ہونے والے ٹیچروں کے لئے اس سے بہترکوئی دوسراکاروبار ہی نہیں تھا اور اب تو جیولرز بھی پھل، سبزی کی دکانیں کھول رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کو تنخواہیں تو مل رہی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر گریڈ چود ہ سے اٹھارہ تک کے سینئر ٹیچرز کی طرف سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواستوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ پنجاب میں اس وقت جہاں ماہانہ دو سو کے قریب اساتذہ معمول میں ریٹائر ہو رہے ہیں وہاں استاد رہنما کاشف چوہدری کے مطابق پانچ سو کے قریب وہ اساتذہ ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں جن کی مدت ملازمت پچیس برس ہو چکی ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ حکومت ان کی پنشن اور گریجوایٹی ختم کرنے کا آرڈر کسی وقت بھی جاری کر سکتی ہے لہٰذا ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ قبل ازوقت ریٹائر ہوجائیں یوں پنجاب میں جہاں چھہتر ہزار اساتذہ کی کمی تھی وہ اب بیاسی سے چوراسی ہزار تک پہنچ چکی ہے اور اب کالجوں کے بعد سکول بھی عارضی ٹیچروں (سی ٹی آئی کے بعد ایس ٹی آئی) سے چلانے کا پروگرام ہے نہ معیار تعلیم کے ذمے دار ہو سکتے ہیں اور نہ ہی نتائج پر جوابدہ۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ شفقت محمود تو محض عنوان ہیں اصل تباہی مراد راس مچانے جا رہے ہیں جو ٹوئیٹر پر وزیر تعلیم مقرر ہیں۔ اس دورمیں پروفیسروں، لیکچرروں اور ٹیچروں کی تنخواہوں میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی، اس دور میں بیرون ملک ریسرچ کے ساتھ ساتھ اندرون ملک زیور تعلیم جیسے اعزازئیے بھی بند کر دئیے گئے ہیں جو سابق دور میں وافر دستیاب تھے۔ ایچ ای سی کے بجٹ کے ساتھ ساتھ پی ای ای ایف یعنی پیف کے نام سے انڈوومنٹ فنڈ بھی محدود بلکہ محدودتر ہو گیا۔ زیور تعلیم وہ فنڈ ہے جس کے تحت مختلف اضلاع میں بچیوں کو حاضری اورکارکردگی پر ایک ہزارروپے مہینہ جیب خرچ دیاجاتا تھا۔ اسی دورمیں پیف کے ادارے اور سکولوں کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اور اب مراد راس یہاں انصاف آفٹر نون سکول ہی نہیں بلکہ انصاف اکیڈیمیاں بھی سرکاری فنڈز کے ساتھ کھولنا چاہتے ہیں اور میرے خیال میں کسی بھی سیاسی جماعت کے نام اور ایجنڈے کے ساتھ سکول کھولنا سب سے بڑی ملک دشمنی ہے جہاں آپ ایک پارٹی کے ذہنی غلام پیدا کریں گے۔
اب خدا، خدا کر کے سکول کھلیں گے تو مراد راس پنجاب کے اساتذہ سے خوشحالی فنڈز کے سروے کروائیں گے۔ یہ اساتذہ سے غیر نصابی کام لینے کا وہ منحوس یوٹرن ہے جس کی وجہ سکول کھلنے کے بعد بھی امکان ہے کہ اساتذہ پڑھانے کے لئے دستیاب نہیں ہوں گے۔ یہ اساتذہ کبھی پولیو کی ڈیوٹی دیتے ہیں اور کبھی باردانہ تقسیم کرتے ہیں اور اس وقت بھی وہ اینٹوں کے ان بھٹو ں کا سروے کر رہے ہیں جنہیں حکومت زگ زیگ ٹیکنالوجی پرلانے کے لئے قرضے دینا چاہتی ہے اور اسی لئے سکول کھلنے کی تاریخ بڑھائی گئی ہے۔ دوسری طرف اساتذہ تنخواہیں نہ بڑھنے پر اگلے ماہ لانگ مارچ اور اسلام آبادمیں احتجاج کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں یعنی جب سکول کھلیں گے تو اور بھی بہت کچھ کھل جائے گا، اگر کچھ نہیں کھلے گا تووہ کتابیں ہوں گی جن کی فراہمی ابھی مشکوک ہے۔ حکومت ایک کتاب ایک نصاب کاڈراما رچانے جا رہی ہے اور تشویش ہے کہ اس سے نہ صرف طالب علموں میں تحقیق کا خاتمہ ہو گا، رٹا سسٹم کا فروغ ہو گا بلکہ یہ نصاب شائد گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد ہی دستیاب ہو سکے گا یعنی مزید موجیں ہی موجیں۔
جناب شفقت محمود اور جناب مراد راس نے اڑھائی برس میں جوتباہی مچائی ہے، اللہ پاک انہیں صحت اور زندگی دیں، وہ جب رخصت ہوں گے تو اس تباہی کو مکمل کرچکے ہوں گے۔ ان کے پانچ برسوں کی تخریب کی تعمیر اگلے بیس برسوں میں بھی کر لی گئی تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ دونوں پاکستان کی تاریخ کے بدترین وزرائے تعلیم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔