کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ باقی چار برس گزرنے کے بعد مریم کا پنجاب اور شہباز کا پاکستان، کیسے ہوں گے، میں ان کا تصور کرسکتا ہوں، پنجاب کے شہر یورپ کے شہروں کا مقابلہ کررہے ہوں گے اور پاکستان دنیا کی بیس کامیاب معیشتوں میں شامل ہوگا۔ عمران خان کے دور کی صورت میں پاکستان نے اپنی عمر کے بدترین چار برس دیکھے ہیں اور دس اپریل دو ہزار بائیس کے بعد دو برس تو سیدھے سادے پاکستان کی گاڑی کو کھائی میں گرنے یعنی ڈیفالٹ ہونے سے روکنے میں لگ گئے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ شہباز شریف نے کیا ہی کیا ہے تو میں کہتا ہوں کہ عمران خان اس بات کو یقینی بنا کے گیا تھا کہ پاکستان خدانخواستہ ختم ہوجائے۔ اس نے سی پیک ہی ریورس نہیں کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ترکی اور سعودی عرب جیسے دوستوں کے ساتھ بھی تعلقات بھی تباہ کر دئیے تھے۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں رخصتی دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا، ریاست کو ڈبوتے ہوئے اپنی سیاست بچانے کی کوشش کی، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرکے معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر موصوف رخصت ہو ئے۔
بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا کے کیا کارنامہ کیا جتنی مہنگائی ہوگئی اس سے تو بہتر تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہی کر جاتا۔ ایسی باتیں کرنے والے وہی ہیں جو پاکستان کے آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج کے موقعے پر اپنی تنظیموں کے ذریعے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے مظاہرے کروا رہے تھے اور اس وقت بھی ایک ناکام و نامراد سول نافرمانی مہم چلا رہے ہیں جس میں بیرون ملک پاکستانیوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو ترسیلات زر نہ بھیجیں تاکہ پاکستان کو معاشی مشکلات کا شکار رکھا جا سکے۔ ان کی یہ کال اسی طرح ناکام ہورہی ہے جس طرح ان کے جلسے ناکام ہوئے، ایس سی او کانفرنس کے بعد فائنل کال کے نام پر اسلام آباد پر دھاوے ناکام ہوئے، الحمدللہ، محب وطن پاکستانی پہلے سے زیادہ ڈالر، پاونڈ اور ریال بھیج رہے ہیں، ریمیٹینسز کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔
شہباز شریف اور ان کی ٹیم اگر ملک کو ڈیفالٹ سے نہ بچاتے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تین سو ا تین سو روپے لیٹر پر جانے والا پٹرول ہمیں تین سوا تین ہزار روپے لیٹر بھی نہ ملتا، چالیس پچاس روپے یونٹ پر ملنے والے بجلی چار اور پانچ سو روپے یونٹ پر بھی دستیاب نہ ہوتی کیونکہ ہماری پیداواری صلاحیت ہی دو گھنٹوں تک محدود ہو کے رہ جاتی۔
خدانخواستہ، پاکستان ڈیفالٹ کرتا تو ہمارے امپورٹ اور ایکسپورٹ کے معاہدے معطل ہوجاتے اوراس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ تمام بازار بند ہوجاتے جن میں امپورٹڈ سامان ملتا ہے چاہے وہ گاڑیوں یا سولر کی بیٹریاں ہوں یا چینی کے ڈنر کے سیٹ۔ ایکسپورٹ کے معاہدے معطل ہونے کا مطلب ہوتا کہ صرف فیصل آباد اور ارد گرد کے علاقوں میں ٹیکسٹائل سے وابستہ ایک کروڑ محنت کش بے روگار ہوجاتا۔ جب یہ بازار اور کارخانے بند ہوتے تو پھر غریبوں نے امیروں کے علاقوں پر حملے کرنے تھے تاکہ وہ اپنے بچوں کے لئے روٹی چھین سکیں۔ یہ تھا وہ پاکستان جس کی بنیاد عمران خان نام شخص اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے رکھ کے گیا تھا۔
میں جس شہباز شریف کو جانتا ہوں اسے میں نے جنوں کی کام کرتے ہوئے دیکھا ہے، یہ وہ سیاستدان ہے جس کی محنت، امانت اور دیانت کی گواہی بلاخوف تردید دی جا سکتی ہے۔ شہباز شریف نے پنجاب کو دوسرے صوبوں سے بہت بہتر بنایا ہے۔ ہم شہباز شریف کے بطور وزیراعظم دور کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا پی ڈی ایم کا وہ دور تھا جس میں انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا اوردوسرا دورگذشتہ برس آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد چار مارچ کو اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے دوسری مرتبہ وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
اس سے پہلے جمہوری حکومتیں فوج اور عدلیہ سے محاذ آرائی کی وجہ سے گھروں کوجاتی رہی ہیں مگر یہ کریڈٹ بھی شہباز شریف کو ہی جاتا ہے کہ انہوں نے ان دو اداروں سے بہترین تعلقات کار قائم کررکھے ہیں۔ لوگ شہباز شریف کو ایک ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سراہتے ہیں ایک سیاستدان کے طور پر نہیں مگر بطور وزیراعظم انہوں نے جس طرح چھبیسویں آئینی ترمیم منظور کروائی اس ماہرانہ سیاست کو داد نہ دینا زیادتی ہوگا حالانکہ کچھ جج ڈٹ گئے تھے کہ وہ حکومت کوآئین میں ترمیم نہیں کرنے دیں گے۔
اس کے لئے انہوں نے آئین سے باہر نکلتے ہوئے فیصلہ بھی کیا جس سے خودا س وقت کے چیف جسٹس نے بھرپور دلائل کے ساتھ اختلاف کیا۔ پاکستان میں تاریخ میں شائد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ جو جج، وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کی راہ ہموار کر رہے تھے، ان لوگوں کی ترجمانی اورپشتیبانی کر رہے تھے جو کہہ رہے تھے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بعد الیکشن کا کوئی ایسا جوڈیشل آڈٹ ہوگا کہ نو مئی کے مجرمان اس سے اقتدار میں آجائیں گے، انہیں اپنے یقینی عہدوں سے محروم ہونا پڑا۔ یہ شہباز شریف کی بطور سیاستدان بہت بڑی کامیابی تھی۔
شہباز شریف کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے اعتماد پر بھی پورا اتر رہے ہیں، فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ قائم کئے ہوئے ہیں اور ان سے ہٹ کے اتحادیوں کی ایسی سیاست بھی سنبھالے ہوئے ہیں جسے مینڈک تولنے جیسا مشکل کہا جا سکتا ہے اور بات صرف اتحادیوں تک نہیں کہ مولانا فضل الرحمان ان کے اتحادی نہیں ہیں مگر اس کے باوجود وہ آئینی ترمیم جیسے اہم موقعے پر ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور یہ بات سیاست کے نام نہاد دانشوروں کے لئے خاص طور پر سمجھنے والی ہے۔
یہاں وزیراعظم شہباز شریف کی بین الاقوامی کامیابیوں کے حوالے سے بھی ایک مکمل مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت شہباز شریف کے دنیا کے اہم ترین ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں جو پاکستان کے لئے اس طرح سود مند ثابت ہور ہے ہیں کہ ایک ڈیڑھ برس پہلے ڈیفالٹ ہوتا پاکستان، بارہ بارہ وزرائے اعظم کی میزبانی، مسلسل تین دنوں میں تین ملکوں آذربائیجان، ازبکستان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اقتصادی تعاون کے معاہدے کر رہا ہے یعنی ایک طرف یہ ہیٹ ٹرک اور دوسری طرف عالمی بینک سے آئی ایم ایف تک بین لاقوامی ادارے شہباز سپیڈ سے بہتری میں تبدیل ہوتے معاشی اشاریوں پر حیران ہو رہے ہیں، انہیں سراہ رہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ عمران خان کا تجربہ نہ کیا جاتا تو نواز شریف کی پالیسیوں سے پاکستان ایشیئن ٹائیگر ہوتا مگر یہ بھی اچھا ہوا کہ اداروں، نے یہ تجربہ کرکے بھی دیکھ لیا اور یہ پھل بھی چکھ کے دیکھ لیا ورنہ حسرت ہی رہ جاتی۔ پاکستان شہباز سپیڈ، سے ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن ہے۔ چار برس بعد ہمارے پاس ایک بہت ہی مضبوط اور خوشحال پاکستان ہوگا اگر دوبارہ کوئی مہم جوئی نہ کی گئی، انشاءاللہ!