پروفیسر صاحب نے اخبار ایک طرف رکھا اور مجھ سے پوچھا، جانتے ہو عمران خان بطور وزیراعظم کس مخالف سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں، وہ شہباز شریف ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جس راستے سے اقتدار کی منزل تک پہنچے ہیں، شہباز شریف بھی اسی شاہراہ کے گھوڑ سوار ہیں۔ عمران خان نواز شریف او رمریم نواز سے خوفزدہ نہیں جو ان کے ووٹ بنک میں تیزی سے نقب لگاتے اور تیزی کے ساتھ تمام ضمنی انتخابات جیتتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک حلقے کا ضمنی الیکشن اور ہوتاہے جبکہ عام انتخابات میں سینکڑوں حلقے ہوتے ہیں اور وہاں نہ تو ضمنی الیکشن جیسی مانیٹرنگ ہو سکتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی طرف سے جان ماری جا سکتی ہے۔ تم کہتے ہوکہ شہباز شریف تو نواز شریف اور مریم نواز سے بھی زیادہ بڑے ٹارگٹ ہیں اور یہی دلیل میری ہے کیونکہ وہ حکومت کی نظر میں زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔
میں پولیٹیکل سائنس کے ریٹائرڈ پروفیسر صاحب کے پاس پولیٹیکل ٹرینڈز جاننے کے لئے گیا تھااور وہ مجھے بتا رہے تھے کہ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے نظر آ رہے ہیں۔ مقتدرحلقوں کے پاس اس وقت ایک سے زیادہ گھوڑے ہیں۔ عمران خان طاقتور ترین دھرے کی پہلی چوائس ہیں مگر دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری کی پشت پر بھی تھپکی دی جا رہی ہے او رپیپلزپارٹی یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ اہم حلقوں کے مقاصد پورے کرکے گڈ بک میں جگہ بنا چکی ہے مگر انہیں بھی کہیں، کہیں شک ہونے لگتا ہے۔ شہباز شریف کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔ پہلے حمزہ شہباز رہا ہوئے اور اسی وقت کہہ دیا گیا تھا اب شہباز شریف بھی باہر آئیں گے اور حکومت کی مرضی کے بغیر، اس کی تمام تر مزاحمت کو نظرانداز کرتے ہوئے آئیں گے۔ شہباز شریف نہ صرف باہر آئے بلکہ عدالت سے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے میں کامیاب ہو گئے۔ حکومت کو اس پر کتنی تکلیف ہوئی جس کا اندازہ حکومت کے ردعمل سے لگایا جا سکتاہے کہ وہ واضح توہین عدالت تک پر اتر آئی۔
پروفیسر صاحب نے کہا کہ اگر تم زیادہ واضح الفاظ میں سننا چاہتے ہو تو سنو کہ عمران خان اور شہباز شریف کی مقتدر حلقوں بارے پالیسی میں رتی برابر فرق نہیں ہے۔ اگر شہباز شریف وزیراعظم بنتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے لئے حکومتی مشینری کی طرف سے کسی قسم کی سرخ فیتہ گیری نہیں ہو گی جو نواز شریف دور میں ہوتی رہی اور خود پرائم منسٹر آفس سے بہت ساری فائلوں پر روایتی اعتراضات لگائے گئے تاہم یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح کے منصوبوں کے حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ عمران خان عوام کے ساتھ ساتھ بہت سارے دوسرے حلقوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے پوری طرح ایکسپوز ہوچکے ہیں۔ وہ نصف سے زیادہ پاکستان کی ایڈمنسٹریشن کے لئے مسلسل عثمان بزدار پر اصرار کر رہے ہیں جو سیاسی اور انتظامی طور پر تباہ کن ہے۔ یہ درست کہ عثمان بزدار کو ہٹانا چند دنوں کا کام ہے مگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو وزارت عظمیٰ بلکہ اسمبلیوں کی مدت کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے جبکہ نظام کو چلانا مشرف دور سے ہی طے شدہ پالیسی ہے۔
شہباز شریف بہت ہی ماہرانہ انداز میں اپنے پتے کھیل رہے ہیں، ان کی سفیروں سے ملاقات بھی اہم ہے اور مولانا فضل الرحمان کی عیادت نہ کرنا بھی۔ انہوں نے لندن جانے کے لئے جس فلائیٹ کا چناو کیا تھا وہ براستہ دوحہ جا رہی تھی اس کی بھی ایک خاص اہمیت ہے۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ وہ کمرے میں بند رہتے ہیں اور بہت زیادہ لوگوں سے نہیں ملتے جلتے مگر ان کا اندازہ ہے کہ عمران خان کے سعودی عرب کے دورے میں شریف فیملی کا موضوع خاص اہمیت کا حامل ہے۔ عمرا ن خان او ران کے ساتھی چاہتے ہیں کہ سعودی عرب او ر اس کے دوست ممالک شریف فیملی کو جیل میں رکھنے اور سیاست میں حصہ نہ لینے دینے کے عمران خان کے فیصلے کے خلاف دباو نہ ڈالیں کہ یہ دباو اس قسم کا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے ٹھہرا نہیں جا سکتا۔ پروفیسر صاحب مسکرائے اور بولے، شہباز شریف سے کہنا کہ وہ محتاط رہے اور کسی سے کوئی بڑی بات نہ کرے کہ اس سے پہلے بھی اس کے ساتھ کابینہ بنوانے کا تک کا معاملہ ہو چکا ہے۔ ایک طر ف ا س سے وزیروں کے نام ڈسکس کئے جا رہے تھے اور دوسری طرف عمران خان کی شیروانی تیار ہو رہی تھی۔ اب بھی شہباز شریف نے لاہور سے تعلق رکھنے والے رہنماوں کے سامنے کہا ہے کہ وہ دوبارہ جیل جانے کے لئے باہر نہیں آئے بلکہ وہ آگے جانے کے لئے آئے ہیں۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب سابق صوبائی وزیر بلال یاسین نے ان سے کہا کہ جیل میں رہنے کی وجہ سے ان کی صحت کمزو ر ہو گئی ہے جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ وہ ٹھیک ہیں اور اب وہ اقتدار میں دوبارہ جیل جانے کے لئے نہیں آئیں گے۔ اس بات کی گواہی تہمینہ دولتانہ، بلال یاسین، توصیف شاہ، ماجد ظہور، چوہدری شہباز اور دیگر سے لی جا سکتی ہے۔
میں نے پوچھا، شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت مل جانا اور پھر جانہ پانا، یہ کیا معمہ ہے۔ پروفیسر صاحب بولے، یہ سب وہی کچھ ہے جو میں نے تمہیں ابھی بتایا ہے۔ حکومت نے کچھ افسران کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کے لئے تکنیکی بنیادوں پر کھیلنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ایف آئی اے کے حکام اس وقت لاہور ہائی کورٹ میں موجود تھے جب یہ فیصلہ سنایا جا رہا تھا مگر انہوں نے حکومت کے کچھ سیاسی لوگوں کے کہنے پر اس فیصلے پر عملدرآمد رکوا کر اپنے لئے وہی صورتحال پیدا کر لی ہے جو کچھ سرکاری افسران نے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن کے احکامات نہ مان کر کی تھی۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ سرکاری افسران کو بتا دو کہ انہیں آئینی اور قانونی اداروں کے احکامات پر عمل کرنا ہے اور سیاسی لوگوں کی باتیں مان کر چلنے میں ان کے لئے اب ذلت اور خواری ہے۔ ایک اور بات، سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں کے تعلقات کا یہ حال ہے کہ سعودی عرب نے وہ قیدی تک رہا نہیں کئے جن کی رہائی کا وعدہ کیا گیا تھا اور وہ بے چارے اپنی اپنی سزا پوری ہونے پر ہی رہا ہوتے رہے لیکن اب اگر واقعی یہ دورہ کامیاب رہا تو شریف فیملی کے بہت سارے ارکان دوبارہ جیل جا سکتے ہیں اور ا ن کی سیاست پر پابندی لگ سکتی ہے مگر دورے کے کامیاب ہونے کے امکانات ابھی تک کم ہیں۔