یہ بات نوا ز لیگی بھی کہتے ہیں کہ ہم جس شہباز شریف کو بطور وزیراعلیٰ دیکھتے تھے وہ بطور وزیراعظم نظر نہیں آیا۔ وہ اس پر مزید نکتہ ڈالتے ہیں کہ وہ اسی وقت پرفارمنس دے سکتے تھے جب بڑا بھائی اوپر وزیراعظم تھا اور انہیں اس کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔
سچی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نواز لیگ کے حامی بھی بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں پر شہباز حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جو یہ کہتا ہوکہ پٹرول ہزار روپے لیٹر اور یونٹ سو روپے کا بھی ہوجائے تب بھی نواز لیگ کو ہی ووٹ دوں گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نواز لیگ کا ووٹر محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی اکثریت بہت زیادہ پڑھے لکھے ہونے اور دانشور ہونے کا دعویٰ بھی نہیں رکھتی۔ وہ سیدھی، سیدھی جمع تفریق کرتاہے۔ اسے میٹروز اور موٹرویز بنتی ہوئی نظر آتی ہیں تو خوشی سے پھول جاتا ہے اور اپنی لیڈر کی مدح سرائی شروع کر دیتا ہے۔
جب فوج کے غیر جانبدار ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کے اتحادیوں کو توڑا تھا، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایوان سے آئینی اور پارلیمانی انداز میں تبدیلی لائی گئی تھی تو یہی سمجھا جا رہا تھا کہ شہباز شریف جیسا جادوگر آ گیا ہے اوروہ سب کچھ بدل کے رکھ دے گا۔ بہت ساری امیدیں اسحق ڈار سے تھیں کہ مفتاح اسماعیل تو ڈالر کو قابو نہیں کرسکے، اسحق ڈار ضرور کر لیں گے مگر ڈالر نے بھی مہنگا ہونے کے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئیے۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف جو کرکے گئے ہیں وہ عوام کوبتایا اور سمجھایا ہی نہیں جا سکا۔ عوام کو بتانے کے لئے بہت زیادہ گھمن گھیریاں مفید نہیں ہوتیں بلکہ سیدھی سادی دوٹوک باتیں ہوتی ہیں۔ شہباز حکومت مہنگائی کا بخار دے رہی تھی تو اسے عوام کو بتانا چاہئے تھا کہ اس سے پہلے وہ جس عطائی کا شکار تھے وہ ڈیفالٹ کے ٹائیفائیڈ سے یقینی موت دے رہا تھا۔
مجھے ایک احمق مسلم لیگی ملا جو مہنگائی پر سخت غصے میں تھا اور کہہ رہا تھا کہ سیاست قربان کرکے ریاست بچانے کے نعرے سے کہیں زیادہ بہتر تھا کہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے دیتے۔ وہ دلیل دے رہا تھا کہ اس کے ساتھ ہی ہمارے سارے قرضے ختم ہوجاتے اور ہم ایک آزاد ملک کے طور پر ابھر کے سامنے آتے۔ سچ کہوں، اس قسم کی باتیں عمران خان کے منہ سے ہی سجتی ہیں اور کم آئی کیو والوں کو بے حد متاثر کرتی ہیں۔
اس آئی کیو لیول والوں کے لئے وہی ایک کمیونٹی کے لطیفے ہیں کہ قومیں وہی بنتی ہیں جو امریکا سے ٹکر لیتی ہیں، وہ ان پر حملہ کرتا ہے اور پھر وہ مقابلے پر سپر پاور بنتی ہیں۔ پھر یہ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر وہ امریکا سے جنگ میں وہ جیت گئے تو پھر کیسے سپرپاور بنیں گے سو غلامی نامنظور کے نعرے سے دستبردار ہوتے ہوئے امریکا میں بہتر تعلقات کے لئے لابنگ فرمیں ہائر کرلیتے ہیں۔ اس ذہنی طور پر غلام گروہ کے ساتھ کوئی مکالمہ نہیں ہوسکتا۔ یہ اپنے کپتان کے ساتھ امریکا سے جنگ کرنے پر بھی تیار ہوتے ہیں اور امریکا سے مدد مانگتے ہوئے بھی انہیں شرم نہیں آتی۔ شرم تو انہیں اپنے ملک کی فوجی اور سماجی امداد بند کروانے کی کوششیں کرتے ہوئے بھی نہیں آتی۔
بہرحال، سوال یہاں پر شہباز شریف کے سولہ ماہ کا ہے کہ وہ کیا کرکے گئے ہیں مگر اس سے پہلے دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ شہباز شریف کو یہ ملک کس حالت میں ملا تھا۔ اس کی مثال کچھ یوں سمجھئے کہ آپ کو ایک چلتی ہوئی گاڑی ملی اور آپ اسے سو کی سپیڈ پر لے گئے تو اس میں آپ کا کمال یہی ہے کہ آپ کو ڈرائیونگ سیٹ مل گئی اور آپ نے ڈرائیونگ کر لی لیکن اگر ہم اس پاکستان کو دیکھیں جو نوازشریف اور شہباز شریف کو 2013 میں ملا تھا، جو بدترین دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کا شکار تھا، جس میں انفراسٹرکچر کی تعمیررکی ہوئی تھی تو اس دور میں اول الذکر دونوں عفریتوں پر قابو پایا گیا اور اس کے بعد ملکی معیشت نے ترقی کرنا شروع کی۔
جب دس برس پہلے یہ ملک نواز شریف اور شہباز شریف کو ملا تھا تو یہ دنیا کی اڑتالیسویں معیشت تھا اور جب وہ چھوڑ کے گئے تھے تو دنیا کی چوبیسویں ا بھرتی ہوئی معیشت۔ کہا جا رہا تھا کہ بہت جلد پاکستان جی ٹوئینٹی کا رکن بن جائے گا مگرپھر وہ منحوس ترین دور آ گیا جس میں عمران اور بزدار نے تباہی کی نئی داستان لکھی۔
جی ہاں، ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ سولہ ماہ پہلے شہبازشریف کو پاکستان کس حالت میں ملا تھا۔ یہ وہ ملک تھا جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے اسے توڑ چکا تھا۔ عمران خان اپنی سیاست بچانے کے لئے جب پٹرول ایک سو ستر روپوں سے ایک سو نوے روپے لیٹر کرنا چاہئے تھا، ڈیڑھ سو روپے کرچکے تھے۔ جب بجلی یونٹ کو پانچ روپے بڑھانا چاہیئے تھا اس وقت پانچ روپے کم کرنے کا اعلان کرچکے تھے۔
میں بار بار کہتا ہوں کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے عوام کو یہ ریلیف، اپنے والد کی کمائی یا شوکت خانم کے عطیات سے نہیں دینا تھا بلکہ اس کے لئے قومی خزانہ استعمال ہونا تھا۔ عمران خان نے ملک اس حالت میں چھوڑا کہ امریکہ سے سعودی عرب تک اور چین سے ایران تک ایک بھی ملک پاکستان سے راضی نہیں تھا۔ یقین کیجئے کہ ایک، دو دوست ممالک کی طرف سے باقاعدہ طور پر کہا گیا کہ یہ کیا نمونہ مسلط کر دیا گیا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس وقت ہم پونے تین سو روپے لیٹر پٹرول اور پچاس روپے یونٹ بجلی پر چیخیں مار رہے ہیں اور اگر عمران خان کی تین برسوں میں ستر برسوں کے ستر فیصد تک قرضے لے کر ایک بھی میگا پراجیکٹ نہ دینے والی حکومت رہ جاتی تو آج سے ایک برس پہلے ہی ملک ڈیفالٹ کر جاتا اور پھر یہ پونے تین سو روپے لیٹر والا پٹرول آج پونے تین ہزار روپے لیٹر بھی نہ مل رہا ہوتااور مہنگی بجلی کے ساتھ جس دو گھنٹے لوڈشیڈنگ کا آپ رونا روتے ہیں، آپ کے پاس ملکی وسائل سے صرف دو گھنٹے بجلی آ رہی ہوتی۔
ہماری معیشت امپورٹ اور ایکسپورٹ کی معیشت ہے۔ جب ہم ڈیفالٹ ہوتے تو نہ امپورٹ رہتی اور نہ ہی ایکسپورٹ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ نہ پٹرول ہوتا نہ بجلی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایکسپورٹ والے تمام کارخانے اور امپورٹ والے تمام بازار بند ہونے سے تین سے چھ کروڑ پاکستانی بے روزگار ہوچکے ہوتے۔ ان کے پاس نہ بچوں کی روٹی کے لئے پیسے ہوتے او رنہ ہی بزرگوں کی دواوں کے لئے بلکہ یہ دوائیں بھی امپورٹڈ سالٹ اورمیٹریل سے ہی بنتی ہیں، یہ بھی دستیاب نہ ہوتیں۔ ہمارے محنت کش بے روزگار ہو کے پوش ایریاز کے گھروں پر حملے کر رہے ہوتے، لوٹ مار ہوتی اور قتل و غارت ہوتی۔
مانیں نہ مانیں، شہباز شریف نے دن رات محنت کرکے، آئی ایم ایف کی سربراہ سے دوست ممالک کے رہنماوں کی منتیں ترلے کرکے آج بھی پاکستان کو رواں دواں رکھا ہوا ہے۔ آج آپ اپنے دفاتر اور بچے سکولوں میں جا رہے ہیں۔ آج آپ کے کارخانے اور گاڑیاں چل رہی ہیں۔
آج آپ کے گھروں میں بجلی اور انٹرنیٹ آ رہے ہیں۔ شہباز شریف نے ایک ماہر ڈرائیور کی طرح پاکستان کی گاڑی کو ایک خوفناک حادثے سے بچا لیا ہے ورنہ عمران خان نے اس گاڑی کا انجن سیز کرنے اور اسے پہاڑ سے نیچے گرانے کی ڈھلوان پر ڈال دیا تھا۔ آپ تھوڑا سا غور کریں تو علم ہوگا کہ کینسر کے مریض اس شخص نے دن رات محنت کرکے کیا کرشمہ کیا ہے، کیسے پاکستان کو بچا لیا ہے۔