عید کی پانچ چھٹیوں کے بعد پیر کا دن پاکستان کی اقتصادی تاریخ کا ایک حیران کن حد تک شاندار دن تھا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی ابتدائی منظوری کی خبروں کے ساتھ اسٹاک ایکسچینج کھلی توا س نے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں بلکہ ہوا میں اڑنا شروع کر دیا۔ یہ تیزی اور بلندی اتنی تھی کہ ایک گھنٹے کے لئے کاروبار روکنا پڑا کہ سانس تو لو اور پھر ایک گھنٹے بعد دوبارہ وہی سلسلہ تھا۔ سٹاک ایکسچینج نے ایک دن میں اڑھائی ہزار کے قریب پوائنٹس میں اضافہ کیا جو پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ ہے اس سے پہلے گذشتہ برس ایک روز میں سترہ سو پوائنٹس کا اضافہ ہوا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کابینہ اجلاس میں بتا رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب دس کروڑ ڈالر اسی ماہ مل جائیں گے مگر ان کا اصل زوراور شکریہ چین کے لئے تھا جس نے پانچ ارب ڈالر رول اوور کر دئیے۔ وہ بتا رہے تھے کہ سعودی عرب بھی دو ارب ڈالر رول اوور کر رہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اور اسلامی ترقیاتی بینک بھی ایک، ایک ارب ڈالر دیں گے۔ اسی روز خبر آئی کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تریپن کروڑ تیس لاکھ ڈالروں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ میں معمولی بہتری کی اور کہا کہ فنڈنگ کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔
پیر کے رو ز ہی ادارہ شماریات نے حیران کر دینے والی خبر دی کہ مئی کے آخر تک مہنگائی کی جو شرح اڑتیس فیصد تک چلی گئی تھی وہ انتیس فیصدپر آ گئی ہے۔ میرے صحافی دوست نے کہا کہ ان اعداد و شمار پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، یہ گورکھ دھندہ ہے۔ میرا جواب تھا کہ جب ہم ان اداروں اور ان کے اعدادوشمار پر اس وقت اعتبار کرتے اور ان کی بڑی بڑی خبریں شائع کرتے ہیں جب یہ اوپر جا رہے ہوں، مایوسی اور ناامیدی پھیلا رہے ہوں تو اس وقت کیوں اعتبار نہیں کرسکتے جب یہ کچھ اچھا بتا رہے ہوں، خوشی دے رہے ہوں، امید پھیلا رہے ہوں۔
میں نے دیکھا، جانا اور جانچا ہے کہ خوشی اور مایوسی دونوں ہی وائرل ہونے والی بیماریوں کی طرح ہیں۔ آپ کے اندر کا موسم اچھا ہوگا تو آپ کو باہر کا موسم بھی اچھا لگے گا۔ آپ کے ساتھی دوست قہقہے لگانے والے ہوں گے تو آپ بھی ہنسیں گے، مسکرائیں گے لیکن اگر وہ رونے دھونے والے ہوئے تو آپ بھی روتے دھوتے رہیں گے۔ مجھے علم ہے کہ اب بھی بہت سارے کہیں گے کہ یہ گلاس آدھا بھرا ہوا نہیں ہے، یہ گلاس تو آدھا خالی ہے۔ ہمارے پی ٹی آئی کے دوست کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے نے پاکستان کو بھکاری بنا دیا۔ میں ان کے بارے دو بارہ بات نہیں کرنا چاہتا کہ خوشی کی محفل میں کیا کام جلنے والوں کا؟
میں نے کالم کو سرخی لگائی کہ شہباز شریف نے کر دکھایا اور میں شہباز شریف کی کام کرنے کی صلاحیت سے برس ہا برس سے بخوبی واقف ہوں۔ مجھے پہلے سے علم تھا کہ وہ کرکے دکھا سکتے ہیں اور مجھے اب ان سے کہنا ہے کہ انہیں وہ غلطی نہیں کرنی چاہئے جو میاں نوا ز شریف اور عمران خان سے ہوئی۔ میں نے ان کا اداروں کے حدود میں رہنے کے حوالے سے بیان دیکھا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ادارے بیس برس تک حدود میں رہیں تو کامیابی قدم چوم سکتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ بہت ساری باتیں کہنی غیر ضروری ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اقتصادی معاملات کی بہتری کے لئے حکومت کے ساتھ غیر معمولی تعاون کر رہے ہیں جس کا خووشہباز شریف اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے لئے ڈالر لانے میں اہم کردارادا کیا۔ میرا ایک مکمل تجزیہ موجود ہے کہ پاکستان آج تک دنیا کی نظروں میں اپنے ہمسائیوں چین، ایران اور افغانستان کی وجہ سے ایک سیکورٹی سٹیٹ ہے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی عالمی برادری میں یہی درجہ اور مقام دلواتا ہے۔ ایسے میں دنیا پاکستان کو اس کی سیاست اور معیشت کی بجائے سٹریٹیجک ڈیپتھ، کے حوالے سے دیکھتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ دنیا کی نظر میں پاکستان کی فوج، پاکستان کی حکومت سے زیادہ اہم سمجھتی جاتی ہے اور ابھی ایک طویل وقت تک یہ پیراڈائم، تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ سو کم کہے کو زیادہ سمجھئے اورمیرے خیال میں شہباز شریف اس کو مجھ سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور اپنی اسی فہم اور سمجھ سے انہوں نے اپنے لئے ایوان وزیراعظم پہنچنے کی راہ بنائی، اپنے بھائی کوکوٹ لکھپت جیل سے لندن اور بھتیجی کو اڈیالہ جیل سے جاتی امرا پہنچایا، اپنے ساتھیوں کو نیب کی حوالاتوں سے وزارتوں کے قلمدانوں تک لے گئے۔
یہ شہبازشریف کی خوش قسمتی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے نو مئی والی غلطی کر دی جس کے بعد ان کا مقتدر حلقوں میں حمایت کا باب سختی سے بند ہوگیا۔ ان کے اسی بیان پر مجھے کہنے کی اجازت دیجئے کہ شہباز شریف خود کو بیسٹ آپشن ضرور سمجھیں مگر واحد آپشن نہ سمجھیں۔
اب اگلے انتخابات کے بارے قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ ایک بات تو میں نے کئی ہفتے پہلے ہی لکھ دی تھی کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری ہونے پر چلی جائے گی اور انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ اس امر کی تصدیق وزیراعظم نے لاہور میں اپنی طویل ترین پریس کانفرنس میں کر دی ہے۔ یہ تاثر غلط طور پر پھیلایا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی بروقت انتخابات جبکہ مسلم لیگ نون ان کا التوا چاہتی ہے۔
اس وقت مسلم لیگ نون خود یہ سمجھتی ہے کہ انتخابات ہوجائیں اوراس کے نتیجے میں ایک مستحکم حکومت قائم ہوجائے تو اگلے پانچ برس میں ملکی ترقی اور قومی خوشحالی کے معجزے برپا ہوسکتے ہیں جیسے اس سے پہلے دو ہزار تیرہ سے دوہزار اٹھارہ کے دور میں دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا، انفراسٹرکچر کی ڈویلپمنٹ کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی، قومی ترقی کی شرح انتہائی زیادہ اور مہنگائی کی شرح انتہائی کم ریکارڈ ہوئی۔ یہ ایک خوش امید امر ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد مسلم لیگ نون کے اندر بھی دھڑے بندی کم سے کم نظر آ رہی ہے۔
ایک برس بعد میاں نواز شریف بھی پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ اس امر کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے وزیراعظم ہوں، بہرحال، وزیراعظم نواز شریف ہوں یا شہباز شریف ہوں، یہ مسئلہ اہم نہیں ہے۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی نہیں کہ میاں نواز شریف کو خدا نے دنیا کا بہترین چھوٹا بھائی عطا کیا ہے جو اپنے کسی بڑے سے بڑے فائدے کے لئے بھی بڑے بھائی سے بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اہمیت اب پاکستان کی ترقی کی ہے، اس کی خوشحالی کی ہے اور شہباز شریف نے اس سال، سوا سال کی مدت میں جو کر دکھایا ہے وہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ اگلے پانچ برس میں اس سے بھی بڑے کرشمے دکھا سکتے ہیں۔