پروفیسر صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے، "میں نے اپنی کسی پولیٹیکل تھیوری کو اتنی جلدی پریکٹیکل ہوتے نہیں دیکھا، ابھی تمہارے کالم کی سیاہی خشک نہیں ہوئی کہ عمران خان جس سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں اوروزیراعظم نے ذاتی دلچسپی لے کر حدیبیہ شوگر ملز کا کیس دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہے جسے ہائیکورٹ بند کر چکی اور سپریم کورٹ اس حکم کی توثیق کر چکی سو یہ معاملہ طے شدہ ہے۔ یہ تمام الزامات ویسے ہی ہیں جیسے شہباز شریف پر بے نامیوں کے لگائے گئے حالانکہ شہباز شریف پنجاب کا وہ انتظامی سربراہ رہا ہے کہ اس کے انداز حکمرانی اور انتظامی فیصلوں کو مثال بنانے کی ضرورت ہے"۔ میں آپ کو بتا چکا کہ پروفیسر صاحب ہماری یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سب سے سینئر استاد رہے، پولیٹیکل ٹرینڈز ان کا خصوصی سجیکٹ رہا اور ابھی حال ہی میں ریٹائرہوئے ہیں۔
میں نے پوچھا، یہ کون سے فیصلے ہیں جن کو مثال بنا کے پیش کرنا چاہئے، جواب ملا، "بیانات نہیں ٹھوس خبروں کو تفصیل سے پڑھا کرو اور ان خبروں کے ساتھ جڑے ڈاکومنٹس کو بھی جن کے اندر اعداد وشمار اور حقائق ہوتے ہیں۔ شہباز شریف کی ضمانت کے فیصلے کے ساتھ جڑے کاغذوں میں بہت ساری خبریں ہیں، ثبوت ہیں جو ان عدالتی فیصلوں کا پس منظر بتاتے ہیں جن میں کہا گیا کہ شہباز شریف نے بطور حکمران نہ کبھی رشوت لی اور نہ کبھی کک بیکس، نہ کبھی ذاتی مالی فائدہ لیا، نہ اپنے خاندان کو پہنچایا۔ اب چینی کے معاملات ہی دیکھ لو۔ شہباز شریف کے اپنے بیٹے کی شوگرملزہیں، شہباز شریف کے بھائیوں نواز شریف اور عباس شریف کی فیملی کی شوگر ملز ہیں مگر شہباز شریف فیصلے کس طرح کرتا رہا، وہ سب قوم کے سامنے آگیا ہے، اگر تمہیں علم نہیں اور لمبے لمبے ڈاکومنٹس پڑھنے کا وقت بھی نہیں تو سنو۔۔"
"پہلا واقعہ 2014-2015 کا ہے، پنجاب حکومت نے گنے کی امدادی قیمت 180روپے فی من مقررکی اور سندھ نے 150 روپے۔ سندھ میں اس قیمت پر کسانوں کا حکومت سے جھگڑا ہو گیا اور معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں چلا گیا۔ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ فی من قیمت 172 روپے ہو گی جس میں سے 160 روپے شوگرملز جبکہ 12 روپے سندھ حکومت ادا کرے گی جس پر پنجاب میں شور مچ گیا کہ ہماری شوگر ملیں سندھ کی شوگرملو ں کا قیمت میں بیس روپے فی من کا فرق ہونے کی وجہ سے مقابلہ نہیں کر سکیں گی لہٰذا پنجاب حکومت امدادی قیمت کم کرے یا سب سڈی دے۔ تم صحافی ہو، پتا لگاو کہ ایک اتوار کے روز جب جاتی امرا میں پورا خاندان جمع تھا، عباس شریف کا بیٹا یوسف بھی تھا، شہباز شریف کا بیٹا سلمان بھی تھا، اسحاق ڈار بھی پہنچے ہوئے تھے اور خود میاں نواز شریف بھی تھے۔ شہباز شریف سے کہا گیا کہ پنجاب میں شوگر ملزکا بیڑہ غرق ہوجائے گا، کسان کو قیمت کم دیں یاسب سڈی دیں جو عدالتی فیصلے کے بعد عین قانونی اور منطقی ہے۔ تم آج شہباز شریف پر بے نامیوں کے الزام لگاتے ہو، وہ دیوانہ ڈٹ گیا اور قطعیت سے بولا، مجھ سے استعفیٰ لکھوا لیں مگر میں نہ کسان کا نقصان ہونے دوں گااور نہ ہی پنجاب کے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ شوگرملوں کو سب سڈی کی صورت دوں گا۔ شہباز شریف کے ڈٹ جانے پر پنجاب کی ملوں کواپنے پاس سے کسانوں کو چودہ ارب نوے کروڑ روپے اضافی دینے پڑے جن میں خود اس کے بیٹے اور بھتیجوں کی ملوں کے ایک ارب دس کروڑ روپے شامل تھے۔ دوسری طرف اگر سندھ کے برابر سب سڈی دے دی جاتی تو پنجاب کے خزانے سے 8ارب 90کروڑ روپے جاتے، شہباز شریف کے بیٹے کی ملز کو174 اور نواز، عباس شریف فیملی کی ملز کو 247 ملین ملتے۔۔"
" دوسرا واقعہ دسمبر 2017 کا ہے جب رپورٹ دی گئی کہ چینی سرپلس ہے، اسے ایکسپورٹ کی اجازت دی جائے تو اس پر شہباز شریف نے اوکے کر دیا کہ اگر سرپلس ہے تو ٹھیک، کر دیجئے مگر سمری یہ آئی کہ اس پر سب سڈی بھی دیجئے۔ شہباز شریف نے صاف انکار کر دیا کہ ایکسپورٹ فیڈرل سبجیکٹ ہے پنجاب کیوں دے۔ وفاقی حکومت نے جمع تفریق کرتے ہوئے دس روپے فی کلو سب سڈی کا اعلان کر دیا اور سندھ نے اپنی شوگرملوں کے لئے اضافی نو روپے 30پیسے کا۔ اب اگرسندھ کو فالو کرتے ہوئے شہباز شریف بھی شوگرملوں کو سب سڈی دیتے تو پنجا ب کے خزانے سے 9ارب 30کروڑ روپے جاتے اور خود ان کے بیٹے کی شوگرملز کو230 ملین روپے ملتے، شہباز شریف نے ایک روپیہ نہیں دیا۔۔"۔ پروفیسر صاحب نے لمبا سانس لیا، پانی کا ایک گلاس پیا اور بولے، " تیسرا واقعہ بھی دلچسپ ہے، شہباز شریف نے گنے کی بائی پراڈکٹ ایتھانول کی پروڈکشن پر پنجاب میں دو روپے فی لیٹر ڈیوٹی لگا دی جس پر پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے شور مچایا کہ ایسی ڈیوٹی کسی دوسرے صوبے میں نہیں مگر یہ فیصلہ واپس نہ ہوا، شہباز شریف کے اپنے بیٹے کی شوگر ملز نے اس مد میں ساٹھ ملین کا ٹیکس دیا اور پنجاب حکومت نے اس برس اڑھائی ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ غریب کسان کا بیٹا ہونے کے دعوے دار عثمان بزدار نے شوگرملز پر یہ ٹیکس 20 اگست 2019 کو ختم کر دیا، اب بتاو کیا شہباز شریف اپنی شوگر ملوں کو فائدہ پہنچا رہا تھا یا موجودہ حکومت مافیاوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔۔"
"چوتھا واقعہ سنو، یہ جوبڑ ا شور مچا ہوا ہے کہ رمضان بازاروں میں سستی چینی دی گئی، یہ شہباز شریف دور میں بھی دی جاتی تھی مگراس وقت پالیسی فیصلہ تھا کہ شوگر ملیں سستی چینی خود دیں گی سرکاری خزانے سے کچھ نہیں ملے گا۔ یہ شہباز شریف کا انداز حکمرانی تھا جس میں اس نے اپنے بیٹے کی ملز سے 30ملین اور باقی فیملی کی ملز سے 18ملین روپے خرچ کروا دئیے اور تم کہتے ہو کہ شہباز شریف فیملی کے ارکان کو نوازنے کے لئے منی لانڈرنگ کرتا تھا، ٹی ٹیاں بھیجتا تھا"۔ پروفیسر صاحب نے مزید نوٹس نکالے اور بولے، " شہباز شریف وہ حکمران ہے جس نے تنخواہ ہمیشہ عطیہ کی، ٹی اے ڈی اے نہیں لیا، میڈیکل اور آفیشئل انٹرنیشنل ویزٹس کے ٹکٹ تک نہیں لئے۔ ریکارڈ کے مطابق اگر وہ چاہتا تو وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے 5کروڑ 90لاکھ 32ہزار 793 روپے لینے کا حقدار تھا، شہباز شریف نے نہ صرف وہ چھوڑے بلکہ اپنے ہی خاندان کے کاروبار کو بطور وزیراعلیٰ اپنے ان فیصلوں سے دو ارب روپوں سے زائد کا نقصان پہنچایا۔۔"
پروفیسر صاحب جذباتی ہوگئے، کہنے لگے، " میرے شہر اور میرے صوبے کو تباہ کر دیا گیا ہے، مجھے لاہور کی سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر دیکھ کر شرم آتی ہے۔ میرا دل کرتا ہے خود کشی کرلوں جب میں کینسر کے مریضوں کو ادویات نہ ملنے پر احتجاج کرتے دیکھتا ہوں، جب طلبا کو فیس نہ ہونے پرتعلیمی اداروں سے باہر ہوتے دیکھتا ہوں، پیف جیسے ادارے تباہ ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں۔۔۔ جس وزیراعلیٰ کے ایماندارانہ اور ایفی شینٹ انداز حکمرانی کو طالب علموں کے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے، فیصلہ سازی میں مشعل راہ ہونا چاہئے اسے پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کے لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تم پر فرض ہے کہ یہ سارے حقائق، اعداد و شمار کے ساتھ قوم کے سامنے رکھو تاکہ الزام لگانے والوں کو کچھ شرم آئے"۔ میں اپنے بوڑھے مگر شدید محب وطن استاد کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور احترام کے ساتھ عرض کیا، " سر!میں اپنی ڈیوٹی پوری کر دوں گا لیکن اگر موجودہ حکومت کے پاس اس تمام کو رد کرتے ہوئے کوئی ثبوت ہوئے تو وہ بھی شائع کروں گا، آپ اپنے ملک، صوبے اور شہرکے لئے دعا کرتے ہوئے اپنے شاگرد کے لئے بھی کر دیجئے گا"۔