Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Sharif Khandan

Sharif Khandan

میں نے مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کو سنا، وہ بتا رہے تھے کہ جب وہ جیل میں تھے تو ان کی بیٹی مریم نے آ کر کہا کہ وہ انہیں بھی گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف نے مریم نواز سے کہا، وہ خود جیل میں بند ہیں، وہ کیا کر سکتے ہیں اور پھر یوں ہوا کہ کوٹ لکھپت جیل میں اپنے والد سے ملاقات کرتے ہوئے مریم نواز کو گرفتار کر لیا گیا، اس وقت ان کے چچا شہباز شریف بھی وہاں موجود تھے۔ وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ جب بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہوا تو اس سے پہلے انہیں آئی سی یو میں منتقل کیا گیا۔

وہ جیلر کو کہتے رہے کہ اپنے بڑے یا چھوٹے بیٹے سے با ت کروا دو مگر اس نے نہیں کروائی اور اڑھائی گھنٹوں کے بعد انہیں اطلاع دی گئی کہ ان کی محبوب اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے اور اب جیلر کا ڈپٹی، مریم نواز کو بتانے جا رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ نواز شریف جلسے کے سٹیج پر اپنے بھائی اور اپنی بیٹی سے ملتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور اس موقعے پر مریم نواز کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ کم ظرفوں اور بے شرموں نے کہا کہ یہ ایکٹنگ ہے اور کہنے والے وہ تھے جو اپنے لیڈر کی بیٹی کو اس کی بیٹی نہیں کہہ سکتے۔ نواز شریف نے تو اپنی بیٹی کو گلے سے لگا لیا اور ان کا لیڈر ایسا بدقسمت آدمی ہے جو اپنی بیٹی کو گلے لگانا تو کجا اس کے بارے سوال کا جواب نہیں دے سکتا، وہ ان رشتوں کی حرمت اور اہمیت کیا جانیں؟

میں میاں نواز شریف کو عشروں سے جانتا ہوں۔ ایک وقت تھا میری ڈیوٹی تھی کہ بطور رپورٹر ان کی کہی اور سنی ہوئی ایک ایک بات کو رپورٹ کروں اور میں گواہی دے سکتا ہوں کہ میں نے نواز شریف کے منہ سے کبھی کوئی غیر اخلاقی بات نہیں سنی۔ میں نے کبھی ان کے منہ سے کسی کے لئے دھمکی نہیں سنی۔ گالی تو بہت دور کی بات ہے کسی کی توہین کرتی ہوئی بات بھی نہیں۔ بہت سارے لوگ حیران ہوئے ہوں گے کہ جس قسم کا جلسہ اور اس جلسے میں جس قسم کا خطاب نواز شریف نے کیا یہ تو متروک ہو چکے، اب سے جلسوں میں نقلیں اتاری جاتی ہیں، لیڈر خود ننگا کرنے، لٹکانے اور نمٹ لینے کی دھمکیاں دیتا ہے۔

ایک ایسے وزیر اعظم کا خطاب، جسے سازش کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا۔ جس پر جھوٹے الزامات کی بھرمار کی گئی۔ جسے خود ہی نہیں جس کی بیٹی، بھائی، بھتیجے سمیت خاندان کے ہر فرد اور ساتھ دینے والے ہر ساتھی کو پابند سلاسل رکھا گیا۔ جسے اپنوں کے جنازوں تک سے محروم رکھنے کا ظلم عظیم کیا گیا مگر اس نے واپسی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ انتقام نہیں لینا چاہتا، وہ اس عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہے، ملک کے لئے ڈبل سپیڈ سے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس شخص نے خطاب کیا اور پورے خطاب میں اپنے مخالف کا نام تک نہیں لیا، ایک منٹ ٹھہرئیے، ایک مرتبہ غلطی سے نام لیا تو اس پر معذرت کر لی، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس کے پاس اپنا ہی بتانے کے لئے بہت کچھ تھا۔ وہ ظلم جو اس سے روا رکھے گئے اور وہ ترقیاتی کام جو اس نے کئے۔

میں اس بات کو دہرا دیتا ہوں کہ اگر پاکستان سے نواز شریف کے ادوار کے کئے ہوئے ترقیاتی کام نکال دئیے جائیں تو باقی صرف مغل بادشاہوں کے بنے ہوئی بارہ دریاں اور قلعے بچتے ہیں یا پھر کسی کے کٹے وچھے بچتے ہیں، نشئیوں کے لئے پناہ گاہیں بچتی ہیں یا پٹرول پمپوں پرگندے باتھ روموں کی صفائی کے لئے واٹس ایپ نمبر اعلان کرنے کے مضحکہ خیز میگا پراجیکٹ بچتے ہیں۔

میں نے نواز شریف کی تقریر سنی تو قرآن پاک کی اس آیت پر میرا ایمان مزید پختہ ہوگیا کہ اقتدار، عزت اور رزق دینے والی صرف اور صرف خدا ئے بزرگ و برتر کی ذات ہے۔ میں نے اپنے یقین کو بڑھایا کہ میرا رب لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ میں نے جانا کہ آخری فتح حق، سچ، صبر اور ایمان کی ہوتی ہے۔ نواز شریف نے اپنے معاملات اللہ جل جلالہ پر چھوڑے اور ہمیں ہر اس شخص سے ڈرنا چاہئے جو خود انتقام لینے کی دھمکیاں نہ دے کہ قرآن پاک کے مطابق اللہ عزوجل سب سے بہتر انتقام لینے پر قادر ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ نواز شریف اس قدر خوش قسمت کیوں ہیں کہ وہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور چوتھی مرتبہ بننے کے بارے میں پیشین گوئیاں ہو رہی ہیں۔ وہ پاکستان کے واحد ایسے سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے خلاف لگنے والے ایک ننگے اورپھر ایک برقعہ پوش مارشل لا کو شکست دی ورنہ ایسا کب ہوتا ہے۔

میں نواز شریف کو اس لئے بھی خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ انہیں شہباز شریف جیسا بھائی اور مریم نواز جیسی بیٹی ملی ورنہ میں نے یہاں بھائیوں کو حضرت یوسف علیہ سلام کے بھائیوں والا کردار ہی ادا کرتے دیکھا ہے۔ یہاں سیاست اور اقتدار کے لئے بھائی، بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتا ہے اور یہاں ایک ایسا چھوٹا بھائی ہے جو اپنے بڑے بھائی کی محبت پر سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی وزارت عظمیٰ کو ٹھوکر مار دیتا ہے اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار۔

میں جلسے کے سٹیج پر شہبا زشریف کو دیکھ رہا تھا، ان کی ڈریسنگ کو دیکھ رہا تھا اور ان کے چہرے پر مسلسل خوشی کو دیکھ رہا تھا، انہیں نواز شریف کے پیروں کو ہاتھ لگاتے ہوئے دیکھ رہا تھا، انہیں جوش اور جذبے کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ شہباز شریف نے اس مفادپرستی کے دور میں جب بیٹے باپوں کے نہیں رہے، رشتوں پر، اپنوں پر اعتماد کو بحال کر دیا ہے۔

نواز شریف اس لئے بھی خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس مریم نواز جیسی بہادر اور ذہین بیٹی موجود ہے جس نے سیاست کی تاریخ میں محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ میں نے پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد میں بطور بیٹ رپورٹر بیگم کلثوم نواز کی جرأت اور بہادری بھی دیکھی ہے اور تب میں نے کہا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مردانہ وار لڑنے کے محاورے کو زنانہ وار لڑنے سے تبدیل کر دینا چاہیے کہ جب بڑے بڑے چوہدری اور خان کہلانے والے پیٹھ دکھا گئے تو ان خواتین نے ڈٹ کر سیاسی لڑائیاں لڑیں۔

میں گمان کرسکتا ہوں کہ نواز شریف اس لئے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے اپنے والد اور والدہ کی بے پناہ خدمت اور عزت کی ہے۔ میں نے انہیں بطور وزیر اعظم بھی اپنے والد اور والدہ کے سامنے چوں اور اف تک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب ان کی والدہ کی وہیل چئیر حرم میں بھی لے جائی جاتی تھی تو ارب پتی نواز شریف خود اسے دھکیلتے تھے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ انہیں اپنے والدین کی خدمت کا اجر ملا ہے، اپنے صبر کا اجر ملا ہے کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔