Friday, 11 April 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Shukria Shahbaz Sharif

    Shukria Shahbaz Sharif

    یہ ایسا ہی تھا جیسے چلتی گاڑی کا ایکسیڈنٹ کر دیا جائے یا ڈھلوان پر دھکا دے دیا جائے، دونوں ہی صورتوں میں گاڑی کوچلانا اور سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کی گاڑی ہے جسے عمرانی تجربے، کی نذر کر دیا گیا اور اب تک ہم اسی تجربے کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ عمران خان کے دور میں بجلی کا یونٹ اس سے آدھی قیمت پر تھا مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ نواز شریف کے دور میں کس قیمت پر تھا، گھریلو بارہ سے سولہ روپے اور کمرشل بیس سے چوبیس روپوں تک۔

    جب عمران خان کے دور میں اس ڈالر کی قیمت بڑھی جسے اسحق ڈار نے رو ک کے رکھا ہوا تھا اوراس کے ساتھ گردشی قرضوں میں نواز شریف دور کے مقابلے میں تین گنا اضافہ ہوا تو بجلی اسی دوران مہنگی ہوگئی۔ یہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ ہی تھی جب عوام جان لیوا بلوں کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ میں اس سے انکار نہیں کر تا کہ شہباز شریف کے دور میں بھی بجلی کے نرخ بڑھے مگر کیا ہم اس کا پس منظر جانے بغیر اس پر بات کر سکتے ہیں؟

    عمران خان جب گھریلو یونٹ پچیس اور کمرشل چالیس روپے پر لے گئے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ انہیں صاف نظر آ رہا تھا کہ اتحادیوں پر فیض حمید کا ڈنڈا موجود نہیں اور وہ ان کے ساتھ رہنے کے لئے تیار بھی نہیں۔ عمران خان اس آئی ایم ایف کے پاس بھی دوبارہ جاچکے تھے جسے نواز شریف نے اپنے دور میں اس کا پروگرام مکمل کرتے ہوئے خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ اسی آئی ایم ایف نے حکومت پر دبائو ڈالا کہ وہ بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کردے۔

    بجلی کایونٹ پانچ سے دس روپے جبکہ پٹرول بیس روپے لیٹر مہنگا کرنے کا کہا گیا تھا مگر عمران خان نے ریاست سے پہلے سیاست کو رکھا۔ انہوں نے اپنی رخصتی یقینی دیکھتے ہوئے قوم سے خطاب کیا اور بجلی پانچ روپے یونٹ اور پٹرول دس روپے لیٹر سستا کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ آئی ایم ایف سمیت ان تمام اداروں اور ملکوں کے لئے ایک دھچکا تھا جن سے عمرانی حکومت پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے لے چکی تھی اور وہ پاکستان کی بہتر ہوتی معیشت سے ہی قرضوں کی واپسی کی امید رکھ سکتے تھے۔

    آئی ایم ایف نے فوری طور پر پاکستان کے ساتھ پروگرام معطل کر دیا اور کہا کہ اس وعدہ خلاف حکومت کے ساتھ مزید کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ دوسری طرف ہمارے دوست ممالک ہماری معیشت پر تھانے دار نہیں بٹھا سکتے تھے، وہ بھی اپنے قرضوں کی واپسی کے لئے آئی ایم ایف کی رپورٹس پر ہی انحصارکرسکتے تھے، وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔

    یہ وہ صورتحال تھی جس سے عمران خان نامی شخص پوری قوم کو دوچار کرکے گیا تھا مگر یہ تو محض ابتدا تھی۔ جیسے ہی آئی ایم ایف اور دوست ممالک پیچھے ہٹے ملک میں معاشی غیر یقینی کی فضا پیدا ہوگئی اوراس میں پی ٹی آئی نے سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے مزید تڑکا لگا دیا۔ یہ ملک دشمن جماعت پاکستان کو دیوالیہ کرنے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے مظاہرے تک کرتی رہی اورکہتی رہی کہ شہباز شریف کی حکومت سے بہتر ہے کہ ملک دیوالیہ ہوجائے بلکہ یہاں تک کہ اس پر ایٹم بم پھینک دیا جائے۔

    خطرہ یہ تھا کہ اگر ملک دیوالیہ ہوجاتا تو امپورٹ اور ایکسپورٹ کے تمام بین الاقوامی معاہدے ختم ہوجاتے۔ تیل کی امپورٹ بند ہونے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ ٹرانسپورٹ رک جاتی بلکہ بجلی کی پیداوار بھی دو سے چار گھنٹوں تک محدود ہوجاتی۔ ٹیکسٹائل سمیت تمام کارخانے بند ہوجاتے جو پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ہیں اوراس کے ساتھ ہی صرف فیصل آباد ریجن میں ایک کروڑ مزدور بے روزگار ہوجاتے اوران کے ساتھ وہ کروڑوں بھی جو بازاروں میں گاڑیوں، ان کی بیٹریوں سے برتنوں تک کی امپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔

    یہ کروڑوں بے روزگار اپنے بچوں کی روٹی کے لئے ملک بھر کے خوشحال لوگوں کے گھروں پر حملے کردیتے اور خوب خون بہتا۔ یہ تھیں وہ بارودی سرنگیں جو عمران خان بچھا کے گیا تھا۔ اس دوران لوگوں نے ڈالر باہر بھیجنا شروع کر دیا جس سے ڈالر ساڑھے تین سو روپے تک چلا گیا۔

    میں نے جب وزیراعظم شہباز شریف کو بجلی کے گھریلو یونٹ 7روپے 41پیسے اور صنعتی یونٹ 7روپے 59پیسے کم کرتے ہوئے سنا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اب پاکستان کی گاڑی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ یہ شہباز شریف ہی کی گورننس ہے جس کی وجہ سے 38فیصد کی طوفانی رفتار سے بڑھتی مہنگائی آٹھ دس برس بعد تین سے چار فیصد پر آئی ہے۔

    شرح سود 22فیصد سے 12فیصد پر اور اسے واپس نواز شریف دور کے سنگل ڈیجٹ پر لانے کا پروگرام ہے۔ عمران خان کی طرف سے ریمی ٹینسز نہ بھیجنے کی کال کے باوجود ترسیلات زر میں 40 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ میں نے خبریں پڑھی ہیں کہ ہمیشہ جاپان سے گاڑیاں درآمد کرنے والے ہمارے ملک نے جاپان کو گاڑیاں برآمد کی ہیں جو کہ ہنڈا سٹی ہیں اوراس سے پہلے ٹویوٹااور سوزوکی بھی سی بی یو یعنی کمپلیٹ بِلٹ یونٹ ایکسپورٹ کر چکے اور یہ مسلم لیگ نون کی سابق دور میں دی جانے والی آٹو ڈویلپمنٹ پالیسی 2016 کا نتیجہ ہے۔

    یہ اعداد وشمار المناک ہیں کہ عمران خان کے دور میں پاکستان کی کل دولت میں کمی ہوئی تھی اور اب وہی جی ڈی یعنی گراس ڈومیسٹک پروڈکشن تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ یقینی طور پر وزیراعظم شہباز شریف کی محنت اور اللہ کا کرم ہے۔

    جیسے میں نے اپنے کالم کے آغاز پر کہا کہ کسی بھی گاڑی کا ایکسیڈنٹ کر دینا چند لمحوں کا کام ہے مگر اس گاڑی کی مرمت، بحالی میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں اور اسی طرح ایک معمولی سا دھکا گاڑی کو ڈھلوان پر دھکیل دے دیتا ہے اور اسے نہ روکا جائے تو گاڑی کسی نہ کسی کھائی میں جا گرتی ہے۔ ڈھلوان پر تیزی سے نیچے جاتی ہوئی گاڑی کو روکنا اور پھر اسے بلندی کی طرف لے جانا یقیناََ بہت مشکل ہے، بہت محنت طلب ہے، شہباز شریف نے پاکستان کی گاڑی کے ساتھ یہی مشکل اور محنت طلب کام کیا ہے۔

    ہمیں سب سے پہلے وہ پاکستان واپس لانا ہے جو نواز شریف چھوڑ کر گئے تھے اوراس میں نہ لوڈ شیڈنگ تھی اور نہ ہی مہنگائی۔ اس میں دہشت گردی بھی نہیں تھی جسے اس دور میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ختم کیا گیا تھا مگر عمران خان معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی بھی واپس دے گیا۔ وہ اپنے دور میں باقاعدہ دہشت گرد سرزمین پاکستان پر بساکر گیا جن سے اب دوبارہ نجات حاصل کرنا ایسے ہو رہا ہے جیسے ہاتھوں سے لگائی گرہ کو دانتوں سے کھولنا۔

    اڈیالہ کا مقیم یہ ملک دشمن سیاستدان اب معافیاں مانگ رہا ہے، کیا اسے محض ساڑھے تین برس کی حکومت میں ریکارڈ تباہی اور بدحالی پھیلانے پر پاکستان کا کوئی عاشق معاف کر سکتا ہے؟