Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Sindhi Bhaiyon Ke Naam

    Sindhi Bhaiyon Ke Naam

    میں جب لاہور میں بیٹھ کے تھر میں کام کرتی ہوئی بھاری مشینری اور خواتین کو اسے چلاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سندھ کے صحرا کو خوشحال ہوتے دیکھ کے خوش ہوتا ہوں، اس کی تعریف کرتا ہوں مگر کیا وجہ ہے کہ میرے سندھی بھائی چولستان کی بنجر زمین کوسرسبز وشاداب ہوتے دیکھ کر غصے میں ہیں۔ وہ اس سے پہلے کالاباغ ڈیم کی بھی مخالفت کر چکے اورپنجاب سو فیصدحقوق رکھنے کے باوجود پانی سٹور اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سے دستبردار ہو چکا حالانکہ جب ہم ایک گھر بھی بناتے ہیں تواس میں پانی کی ٹینکی ضرور بناتے ہیں تاکہ جس وقت پانی آ رہا ہو ہم اسے بھر لیں اور جب پانی نہ آ رہا ہو تواس بھری ہوئی ٹینکی کو استعمال کر لیں۔

    بہرحال کالاباغ ڈیم کی مخالفت تو پرانا المیہ ہوچکا، اس وقت کچھ انتہا پسندوں کی طرف سے چولستان میں نکالی جانے والی محفوظ شہید کینال کے خلاف مظاہرے کئے جا رہے ہیں اوراسے سندھ کے پانی پر ڈاکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہی کی نمائندگی کی ہے اور کہا ہے کہ وہ سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کی حمایت نہیں کرتے۔

    سوال بہت سادہ ہے کہ کیا ہیڈ سلیمانکی سے فورٹ عباس تک نکلنے والی ایک سو ستر کلومیٹر لمبی محفوظ شہید کینال دریائے سندھ سے نکالی جا رہی ہے تو جواب بھی اتنا ہی سادہ ہے کہ نہیں۔ یہ دریائے ستلج سے نکالی جار ہی ہے اور ان دونوں دریاؤں کے درمیان تین اور دریا جہلم، بیاس اور راوی بھی بہتے ہیں۔ اب یہ کون سافارمولہ ہوگا کہ جس میں دریائے سندھ سے پانی اڑ کے سینکڑوں کلومیٹر دور محفوظ شہید کینال میں پہنچ جائے گا۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ رابطہ نہروں کے ذریعے یہ ہوگا تواس پر بھی سوال ہے کہ اول تو یہ ممکن نہیں اور اگر ممکن بھی ہو توآپ کو اس پر کیا اعتراض ہے کہ پنجاب اپنے پانی کے حصے کو اپنی مرضی سے استعمال کرے۔ آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ پنجاب کے پانی کا حصہ بھی سمندر میں گرا دیا جائے۔

    میں آپ سے متفق ہوں کہ ساحلی زمینیں اور ماحول کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ دریاؤں سے آنے والے پانی کا کچھ حصہ سمندر میں ضرور جائے مگر یہ کتنا ہونا چاہئے، انٹرنیشنل سٹڈیز کے مطابق تین ملین ایکڑ فیٹ اور سندھ کی سٹڈی کے مطابق آٹھ ملین ایکڑ فیٹ مگر ہم تو ستائیس ملین ایکڑ فیٹ کے لگ بھگ پانی سمندر میں پھینک رہے ہیں اورا گر اس میں سے تھوڑا سا یعنی کوئی آدھا ملین ایکڑ فیٹ چولستا ن کو آباد کردے تو اس پر بھی آپ کو اعتراض ہے۔ آپ ہمارے وہ بھائی کیوں ہیں جو روٹی کو کچرے پر پھینک دینا چاہتے ہیں مگر اپنے بھائی کو نہیں کھانے دینا چاہتے، کیوں؟

    سوال کیا جا رہا ہے کہ پہلے ہی پانی کم ہے تو آپ نئی نہریں کیوں بنا رہے ہیں تویہ سوال کرنے والے وہ ہیں جو ہر پانچ سات برس کے بعد سیلاب کے پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر ان کی فصلوں سے دو دو برس تک پانی نہیں نکلتا۔ پھر اس پانی کونکالنے اور وہاں فصلیں اور گھر دوبارہ آباد کرنے کے لئے یہ وفاق سے امداد مانگتے ہیں اور اس کی بنیاد پر تاریخ کے بڑے ترقیاتی بجٹ لے جاتے ہیں مگر وہ بجٹ خرچ کہاں ہوتے ہیں کچھ علم نہیں۔

    خیر یہ توان کا اور ان کے ووٹرز کا معاملہ ہے اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم محفوظ شہید کینال کوجو کہ ششماہی نہر ہے، چار ماہ اس پانی سے چلانا چاہتے ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے مطابق انڈیا جون سے اکتوبر تک چھوڑتا ہے اوریہ اس کا اضافی برساتی پانی ہوتا ہے اور باقی دو ماہ اسے پنجاب کے حصے کے پانی سے۔ نجانے اس میں سندھ کا اعتراض کہاں سے آ گیا ہے۔ دوسری طرف انڈس بیسن اریگیشن سسٹم میں ساڑھے چار ملین ایکڑ فیٹ پانی کی مقدار بڑھا دی گئی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ دو برس بعد مہمند ڈیم اور تین برس بعد بھاشا ڈیم بھی مکمل ہونے جا رہے ہیں جس کے بعد سات ملین ایکڑ فیٹ اضافی پانی ذخیرہ ہوسکے گا جس سے سندھ سمیت پورا ملک ہی مستفید ہوگا یعنی وہی گھر پر ٹینکی والی بات۔

    بھارت نے آج سے بیس برس پہلے راجستھان کو آباد کرنے کے لئے اندرا کینال تعمیر کی تھی اورہم آج چولستان کے لئے پہلے محفوظ شہید کینال اور اس کے بعد مزید دو نہریں بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے بھائی ہی ہمارے صحراآباد نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہاں غربت اوربے روزگاری رہے، سوال ہے کیوں؟

    چولستان کو آباد کرنے کا پراجیکٹ، گرین پاکستان اینیشیٹیو کا حصہ ہے جس کے تحت چاروں صوبوں میں زراعت کا انقلاب لایا جا رہا ہے۔ اس ساڑھے سات لاکھ ایکڑ کے آباد ہونے سے کسانوں کو فائدہ ہوگا، فوڈ سیکورٹی جیسے چیلنجز پر قابو پایا جا سکے گا، علاقے کے مزدوروں کو روزگار ملے گا، مختلف ممالک سے اس میں سرمایہ کاری ہوگی اور یہاں کی فصلوں کے ایکسپورٹ ہونے سے زرمبادلہ ملے گا جس سے پہلے چولستا ن اور پھر پورے ملک کو فائدہ ہوگا۔

    یہ بات نہیں کہ کوئی ادارہ اس نہر کو زبردستی تعمیر کر رہا ہے بلکہ آئین کے عین مطابق مشترکہ مفادات کونسل کے تحت قائم ادارے ارسا نے چار ایک کی اکثریت سے اس کی منظوردی ہے اور یہ دو ہزار اٹھارہ کی نیشنل واٹر پالیسی کے عین مطابق ہے یہ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب پانی چوری کرے گا جو کہ پرانا الزام ہے جس کی تحقیقات خود خورشید شاہ نے بطور وفاقی وزیر کروائیں تو اس سے کچھ نہیں نکلا اور یوں بھی اس وقت پنجاب کے بیراجوں پر معاہدے کے مطابق سندھی ایس ڈی اوز اور سندھ کے بیراجوں پر پنجابی ایس ڈی اوز ہیں تو کیا وہ سندھی ایس ڈی اوز سندھ کا پانی چوری کرواتے ہیں۔ یوں بھی جون تک ڈیجیٹل ٹیلی میٹری سسٹم نصب ہو رہا ہے جس کے بعد پانی چوری کا الزام بھی اسی طرح فارغ ہو جائے گا جس طرح عمران خان کے الزامات۔ سچ تو یہ ہے کہ پنجاب، سندھ کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابل کاشت زمین ہونے کے باوجود فی ایکڑ کے حوالے سے کہیں کم پانی لے رہا ہے، پنجاب بڑے بھائی کا کردارادا کرتا آیا ہے، قربانیاں دیتا آیا ہے مگر جواب میں اسے گالی ملتی ہے، کیوں؟

    میری سندھی بھائیوں سے درخواست ہے کہ جھوٹ، نفرت اور تعصب کی اس سیاست کو اب دفن کردیں کہ یہ صدی تعمیر و ترقی کی ہے، ٹیکنالوجی اورنیشنل ازم کی ہے، ہم سب مل کر آگے بڑھ سکتے ہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کے نہیں۔ میں جب محفوظ شہید کینال کو نقشے پر دیکھتا ہوں تو مجھے یہ پاک بھارت سرحد پر ایک ڈیفنس لائن کی طرح بھی نظر آتی ہے بالکل اسی طرح جیسے بی آر بی لاہور کے ساتھ، جس نے پینسٹھ کی جنگ میں بھارتیوں کی پیش قدمی روکی تھی اور لاہور کو فتح ہونے سے بچایا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس کی مخالفت کون کر وا رہا ہے اور کیوں؟