ہمارے ہاں صحافی کی آزاد رائے کا تصور ہی نہیں ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی نظر میں صحافیوں کی دو ہی کیٹیگریاں ہیں، ایک میں وہ مالشئیے ہیں سو ان کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کی مالش کرتے رہیں، ان کے جوتے پالش کرتے رہیں اور دوسری کیٹیگری میں لفافے یعنی وہ تمام جو ان کی مالش اور پالش نہیں کرتے وہ کرپٹ ہیں، مخالفین سے پیسے لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے صحافیوں کی گوشمالی کے لئے اپنے میڈیا سیل اور ان کے آگے واٹس ایپ گروپس بھی بنا رکھے ہیں اورایسے سوشل میڈیا ایکٹیویٹس کی خدمات بھی ان کو دستیاب رہتی ہیں جو خود صحافی نہیں مگر ان کے پاس انہی سیاسی جماعتو ں کی عطاکی ہوئی جھوٹی سچی خبریں ہوتی ہیں۔ ان کے کارکن ان کے فالوورز ہوتے ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر صحافیوں کا احتساب بلکہ گوشمالی کرتے رہتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ صحافی کسی بھی دوسرے شعبے سے زیادہ باخبر بھی ہوتے ہیں اور اپنی اپنی بیٹ (یا فیلڈ) میں دوسروں سے کہیں زیادہ تجزئیے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ توقع لگائی جاتی ہے کہ صحافی جس دھڑے کے ساتھ ہے اس کا ہر تجزیہ اس کے مفادات کے عین مطابق ہو۔ سوشل میڈیا نے اس توقع یا اس بیماری کو مزید بڑھادیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے کارکن یا حامی میری آرا کو پسند نہیں کرتے۔ ابھی چند روز پہلے تک پی ٹی آئی کے ٹرولز نے جودشنام طرازی اور الزام تراشی کے لئے جو تصویریں جمع کی ہوتی تھیں ان میں جناب سہیل وڑائچ کی تصویر بھی ہوتی تھی اور عمومی طور پر نواز لیگ والے ان کا دفاع کرتے تھے مگر اب یہ صورتحال بدل گئی ہے۔ مسلم لیگ نون کے حامیوں کو اب ان کے کالم پیڈ، لگنے لگے ہیں۔ کوئی نون لیگی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ سہیل وڑائچ کا بیٹا امریکا پڑھنے کے لئے کیسے گیا ہے کہ کیا اس کی تنخواہ اتنی ہے اور کسی کو سہیل وڑائچ کے گھر کے باتھ روم میں لگی ہوئی اٹالین ٹائلیں نظر آ نے لگ گئی ہیں بلکہ چبھنے لگ گئی ہیں۔
سہیل وڑائچ نے نواز شریف کے اقتدار کے خاتمے سے پہلے کالم لکھا تھا کہ پارٹی از اوور،۔ میں یہ بات ان سے بہت عرصہ پہلے ایک عید شو کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے بھی پوچھ چکا ہوں کہ آپ کو کیسے پتا چلا تھا کہ نواز شریف جانے والے ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ ان کے پا س کوئی خبر نہیں تھی، ان کے پاس محض خبروں پر تجزیہ تھا۔ اس پروگرام میں انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے کچھ تکے لگائے تھے اور وہ تکے تیر کی طرح نشانے پر لگ گئے۔ اس کے بعد ان کاکالم یہ کمپنی نہیں چلے گی، بھی بہت مشہورہوا تھا۔ ہم سب کل الامین اکیڈمی میں جناب ضیاء الحق نقشبندی کی دعوت پر سہیل وڑائچ کی سالگرہ منانے کے لئے جمع تھے اور وہاں و ہ یعنی سہیل وڑائچ بتا رہے تھے کہ انہوں نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ فوج کب تک بزدار وغیرہ کو برداشت کرسکتی ہے۔ وہ ان تجزیوں میں ججوں کے رویوں اور فیصلوں کوبھی شامل کر رہے تھے۔ میں ایک کارکن صحافی کے طور پر سمجھتا ہوں کہ سو فیصد درست خبریں شائد ایک فیصد صحافیوں کے پاس ہی ہوتی ہوں گی باقی سب کے اندازے اور تجزئیے ہی ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں ایک کامیاب صحافی وہی ہے جس کے تجزئیے زیادہ سے زیادہ درست ثابت ہوں۔
سوال یہ ہے کہ مسلم لیگی سہیل وڑائچ سے ناراض کیوں ہیں تو اس کا جواب ہے کہ وہ نواز شریف سے کہہ رہے ہیں کہ وہ عمران خان کو معاف کر دیں۔ ا س کے لئے باقاعدہ کالم لکھ رہے ہیں، دلیلیں دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کبھی نہ کبھی تو کسی نہ کسی نے معافی کا آغاز کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ افریقہ کی بات کی گئی مگر کیا فتح مکہ کسی کو یاد نہیں کہ اس ہندہ کوبھی معاف کر دیا گیا جس نے آنحضرت ﷺ کے چچا کا کلیجہ نکال کر چبا لیا تھا۔ مجھے جب وہاں بات کرنے کا موقع ملا تو میرا کہنا تھا کہ سہیل وڑائچ کی صحافت اس دور میں ایک نعمت ہے جب ہم نے گالی اوربدتمیزی کو ہی صحافت سمجھ لیا ہے۔
ایک کامیاب اینکر وہ ہے جو دوسروں کو کامیابی سے لڑواتا ہے۔ امن، معافی اور صلح کی بات کرنے والا اب صحافی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ میں نے حوالہ دیا کہ جب میاں نواز شریف ظلم و ستم کاشکار تھے تو اس وقت بھی سہیل وڑائچ ان کے لئے انصاف اورنرمی کا مقدمہ لڑتا تھاتب وہ پی ٹی آئی والوں کی نظر میں لفافہ تھا اور آج وہ عمران خان کے لئے یہ بات کر رہا ہے تو نواز لیگ والوں کی نظر میں وہ پیسے پکڑ کے کالم لکھنے والا ہوگیا ہے۔ میں نے بھی جب نواز لیگ والوں کو مزاحمت کی بجائے مفاہمت کے مشوروں پر مبنی کالم لکھے تھے تو دو برس پہلے مجھے بھی نواز لیگ والوں کی طرف سے وہی گالیاں دی گئی تھیں جو پی ٹی آئی والے دیتے تھے یا اب بھی دیتے ہیں۔
سہیل وڑائچ اس وقت ایک مختلف بات کر رہے ہیں سو بہت زیادہ توجہ لے رہے ہیں۔ میں حمایت کرتا اور چاہتا ہوں کہ نواز شریف اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کے لئے معافی کا اعلان کر دیں۔ میں جانتا ہوں کہ عمران خان نے ان کے ساتھ بہت زیادہ ظلم کئے ہیں۔ میں یقینی طورپر ان کی اہلیہ کی وفات، بیٹی کی جیل اور پورے خاندان پر مقدمات کا دفاع نہیں کر سکتا جس کے پیچھے ایک گندی ذہنیت تھی۔ نواز شریف وہ پرانے نواز شریف بن جائیں جنہوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس احتساب کیلئے وقت نہیں ہے۔ تاہم میرا تجزیہ اس سے آگے بڑھ کے کچھ اور بھی ہے کہ خانصاحب اب صرف نواز شریف کے مجرم نہیں رہے۔ وہ ریاست کے بلکہ زیادہ واضح اور صاف الفاظ میں فوج کے مجرم ہیں۔
کسی کو اچھا لگے یا برا، میرا تجزیہ ہے کہ ادارہ عمران خان کو بوجوہ معاف کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس بوجوہ، کی تشریح یہ ہے کہ اگر نومئی کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا تو پھر کوئی دوسرا سیاسی یا غیر سیاسی (اس میں مذہبی بھی شامل کر لیں) گروہ اٹھے گا اور جی ایچ کیو پر حملہ کر دے گا۔ لوگ اس حملے کی سنگینی کو سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ جی ایچ کیو، جناح ہاؤس (یا کور کمانڈر ہاؤس) اور شہدا کی یادگاروں پر حملے، توڑ پھوڑ، جلاو گھیراؤ اور قبضے وہ خواب تھا جسے انڈیابھی پورا نہیں کرسکا تھا۔ کوئی باہوش شخص یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں کہ یہ کوئی سازش تھی۔ سازش ہوتی تو لاہور میں ہوجاتی مگر یہ تو پشاور سے سرگودھااور میانوالی تک سب کا رخ ایک ہی طرف تھا۔ سو سہیل وڑائچ کی بات مان کے نواز شریف معاف کر بھی دیں تو مجھے معافی ملتی نہیں لگتی، آپ ہی بتائیے کیا ملنی چاہئے؟