پنجاب کے بارہ کروڑ عوام ایک ماہ سے حکومت سے محروم ہیں، کیا کہا، وزیراعلیٰ عثمان بزدار موجود ہیں اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی انہی کووزیراعلی تسلیم کرتے ہیں تو مجھے کہنے دیجئے کہ عثمان بزدارتو اس وقت بھی پنجاب کے حقیقی وزیراعلیٰ نہیں تھے جب انہیں اوپر سے آنے والے احکام کے تحت پنجاب اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ اس وقت بھی پنجاب کوگوگی خان قسم کی کئی خفیہ چیزیں چلا رہی تھیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ ڈمی وزیراعلیٰ بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں مگر ایک آئینی اور قانونی ضرورت کے تحت ابھی تک عہدے پر موجود ہیں مگر پنجاب کی بیوروکریسی جانتی ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ نہیں ہیں اور مجھے دہرانے دیجئے کہ یہ بیوروکریسی گذشتہ ماہ کی اٹھائیس تاریخ سے پہلے بھی جانتی تھی کہ یہ محض شو پیس ہے، کٹھ پتلی ہے۔
اس بیوروکریسی کو اچھی طرح علم ہے کہ اس وقت پنجاب میں طاقت کس کے پاس ہے اور اسے کس سے احکامات لینے ہیں مگر اس کٹھ پتلی کے ساتھ ساتھ عمر سرفراز چیمہ اور چوہدری پرویز الٰہی نے دس لاکھ سرکاری ملازمین اوربارہ کروڑ عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ان کی سرپرستی ایوان صدر کر رہا ہے۔
میں نے ہمیشہ چوہدری پرویز الٰہی کا کھلے دل کے مالک سیاسی رہنما کے طور پر احترام کیا ہے مگر شائد اس سے پہلے کبھی ایسی صورتحال ہی نہیں آئی تھی کہ وہ کھل کر سامنے آ تے۔ میں نے ہمیشہ ان کے سیاسی موقف کا احترام کیا اور اس کے حق میں کئی کالم لکھے۔ یہی صورت عمر سرفراز چیمہ کے ساتھ ہے کہ وہ میری نظر میں ایک کمٹڈ سیاسی جمہوری کارکن کی حیثیت رکھتے تھے مگر بطور گورنر پنجاب وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔
اگر حقیقی صورتحال دیکھی جائے تو ارکان کی اکثریت کا اعتماد کھونے کے بعد نہ پرویز الٰہی سپیکر ہیں اور نہ ہی وفاقی حکومت کی سمری کے بعد عمر سرفراز چیمہ گورنر پنجاب۔ یہ ان عہدوں پر کسی آئینی، قانونی اور جمہوری استحقاق کے بغیر غیر اخلاقی طور پر قابض ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی ہے مگر وہ اسے نہ تو ایوان میں پیش کر رہے ہیں اور نہ ہی اس پر گنتی کرواتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
انہوں نے تین اپریل کا اجلاس ایک سازش کے تحت ملتوی کروایا اور پھر اٹارنی جنرل کی سپریم کورٹ میں واضح یقین دہانی کے باوجود چھ اپریل کا اجلاس نہیں ہونے دیا۔ سولہ اپریل کے اجلاس میں وہ گجرات سے اپنے ذاتی ملازمین کو لے آئے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ بدمعاش ٹائپ لوگوں کو اسمبلی کی کالی وردیاں ہی نہیں پہنائی گئیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ موٹے تازے لوگوں کو واسکٹیں پہنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ ایم پی اے ہیں اور انہیں ایوان میں داخل کر دیا گیا۔
سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی کا شمار بھی چوہدری برادران کے خاص لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ چوہدری صاحب کی آشیرباد سے ہی اسمبلی پہنچے اور گریڈ بائیس حاصل کیا۔ ان کے بھائی ساجد بھٹی منڈی بہاوالدین سے ایم پی اے اور پھر پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چئیرمین بنوائے گئے۔ مسلم لیگ نون اور دیگر کا کہنا ہے کہ اگر سولہ اپریل کو ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری ایوان کے اندر پولیس نہ بلاتے تو یہ لوگ کسی نہ کسی ایم پی اے کو قتل کر دیتے، یہ ان کے پلان کاحصہ تھا۔
بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اقتدار کی تبدیلی کے عمل کی اخلاقی بنیادیں ٹھیک نہیں ہیں کہ یہ تبدیلی پارٹی وفاداری تبدیل کرنے والے ارکان کی بنیاد پر لائی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فکری محاذ پر نواز لیگ بھی اپنے موقف کا موثر دفاع کرتی ہوئی نظر نہیں آتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ حکمران پارٹی والے ان پر ایوان سے سوشل میڈیا تک ہر جگہ حاوی نظر آتے ہیں۔
میں نے بہت سارے لوگوں سے پوچھا ہے کہ انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے سپیکروں کے خلاف تحاریک عدم اعتماد اسی وقت کیوں نہ جمع کروائیں جب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے خلاف جمع کروائی جار ہی تھیں۔ جواب بہت سارے ہیں مگر سمجھ میں آنے والا ایک بھی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پنجاب میں بھی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں غیر ضروری تاخیر کی گئی اور اس وقت جمع کروائی گئی جب ڈپٹی سپیکر نے ارکان کی اکثریت کی رائے کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تو حکومتی اقلیتی ارکان نے اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی۔
یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ایوان کو ارکان کی اکثریت ہی چلاتی ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ منتخب ارکان اسمبلی کسی کے غلام ہوتے ہیں تو وہ غلطی پر ہے۔ تحریک عدم اعتمادکا مطلب ہی حکومتی ارکان کا اپنے لیڈر پر اعتماد باقی نہ رہنا ہے کیونکہ اپوزیشن نے کبھی اعتماد کا اظہار ہی نہیں کیا ہوتا تو عدم اعتماد کیسا اور کہاں کا، ہاں، اگر آپ اس تشریح کو قبول نہیں کرتے تو پھر آپ کو آئین اور قانون سے تحریک عدم اعتماد ہی نکال دینی ہو گی کیونکہ جو ایک مرتبہ کسی شخص کو بطور وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ووٹ دے دے گا وہ پانچ برس کے لئے اس کا غلام بن جائے گا چاہے وہ شخص کتنا ہی نااہل اور کرپٹ کیوں نہ نکلے۔
بہت سارے لوگ پوچھتے ہیں کہ اس صورتحال کا حل کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حل ایک ہی ہے، جس کے پاس اکثریت ہے اس کا وزیراعلیٰ ہو گا، یہی حل آئین اور قانون دیتا ہے۔ میں چوہدری پرویز الٰہی کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتا کہ عثمان بزدار کی صورت میں اس وقت حکومت موجود ہے۔ حکومت صرف وزیراعلیٰ کا نام نہیں ہوتا، وفاق اور صوبے کی حکومت کابینہ کے نام پر اور کابینہ کے ذریعے چلتی ہے جو محکموں کے سربراہ ہوتے ہیں۔
اس وقت تمام محکمے جامد پڑے ہوئے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وفاداری تبدیل کرنے والوں کو سزا ملنی چاہئے توا س کے لئے قانون سازی کیجیے یا جوموجود قانون ہے اس پر عمل کیجئے مگر ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس معاملے کا حل عدالت ہی نکال سکتی ہے مگر میں حیران ہوں کہ پنجاب کی سب سے بڑی عدالت، صوبے میں تین ہفتوں سے کوئی حکومت نہ ہونے اور یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ دو، تین اشخاص ان کے فیصلوں سے کھیل رہے ہیں، انہیں روند رہے ہیں کوئی واضح فیصلہ نہیں دیتی۔
وہ گورنر کو آئین کے مطابق عمل کرنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ صرف سفارش کرتی ہے، تجویز دیتی ہے، مشورہ دیتی ہے، یہ حیرت انگیز ہے جبکہ اسی ملک کی عدالتیں وزرائے اعظم جیسے اہم ترین عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو گھر بھیج چکی ہیں، سابق وزرائے اعظم کو محض ایک سو نو میں پھانسی کی سزا دے چکی ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر آئین اور قانون کی بالادستی نہ ہوئی تو آدھے سے زیادہ پاکستان پرمشتمل صوبے میں یہ سرکس لگی رہے گی، عمران خان کے اشارے پر یہ تین کا ٹولہ گیارہ کروڑ عوام کے حال اور مستقبل سے کھیلتارہے گا، یہ اپنے اقتدار کے لئے پورے پنجاب کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔