یہ درست ہے کہ کورونا کی وبا شدید سے شدید ترین ہوتی چلی جا رہی ہے مگر اس کی ذمہ داری حکومت کے سوا کس پر عائد کی جا سکتی ہے جو بروقت، منطقی اور منصفانہ فیصلے لینے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ کیا یہ حکومتی فیصلہ سانحہ نہیں کہ جس وقت ہندوستان میں کورونا کے مریض پونے دو کروڑ اور ہلاکتیں دولاکھ سے بھی بڑھ جانے پر ہاہا کار مچی ہوئی تھی، سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل تھیں جن میں ہندوستان کے بدقسمت شہری ہاتھوں میں آکسیجن سلنڈروں سے جڑے پائپ پکڑے سڑکوں پر بے یارومددگار گرے پڑے تھے کہ ان کے سلنڈر خالی ہوچکے تھے۔ جب ہندوستان میں لاشیں لے جانے کے لئے گاڑیوں اور انہیں جلانے کے لئے لکڑیوں کا کال پڑا ہوا تھا تو انہی دنوں یہ حکومت سینکڑوں سکھ یاتریوں کا بغیر کورونا ٹیسٹ کئے استقبال کر رہی تھی۔ وزیراعظم کے پرسنل ٹوئیٹر ہینڈلر سے بیساکھی کی مبارکباد کے میسج پوسٹ ہو رہے تھے۔ وہ سکھ لاہور سمیت مختلف شہروں میں آزادانہ گھومتے پھرتے اور خریداریاں کررہے تھے، آہ، جب وہ واپس انڈیا پہنچے اور ان کے ٹیسٹ ہوئے تو آٹھ سو میں سے دو سو کورونا مریض نکلے۔ میں یہی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ یہ دو سو بم کہاں، کہاں پھٹے ہوں گے۔ پی ایم اے کے رہنما ڈاکٹر اظہار چودھری کہہ رہے تھے کہ تم انہیں دودھ میں لگی ہوئی دہی کی جاگ ہی سمجھو جو ایک چمچ ہوتی ہے مگر پورے کڑاہی کے دودھ کو دہی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ عید کے بعد کسی بڑے طوفان کی خبر دے رہے ہیں۔
میں نے اپنے بازاروں کو دیکھا، شاہ عالم مارکیٹ گیا، کشمیری بازار دیکھا، اعظم اور پاکستان کلاتھ مارکیٹس دیکھیں۔ ٹاون شپ، جی ٹی روڈاو رپھر اچھرے کا بازار دیکھا۔ پاکستانی چوک سے بھنڈارا چوک تک پہنچنا محال تھا اور کوئی بھی اچھا برا محاورہ استعمال کر لیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، بندے پر بندہ چڑھا ہوا تھا اور کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ تمام مارکیٹوں کو شام چھ بجے بند کر دیا جائے گا سو مجبوری ہے کہ جس نے بھی رمضان یا عید کے لئے کچھ خریداری کرنی ہے وہ دفتر سے فارغ ہونے کے بعد ہی بازار کا رخ کرے گا اور یوں تین سے چھ بجے تک بازار کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ مجھے انجمن تاجران لاہور کے صدر مجاہد مقصود بٹ کہہ رہے تھے کہ دکانوں کے کھلے ہونے کے اوقات رات دس بجے تک ہونے چاہئیں مگر میرا خیال یہ تھا کہ دکانیں سحری تک کھلی رہنی چاہئیں۔ ہمارے مارکیٹس کے نوجوان رپورٹر عبدالوہاب نے بہت زبردست مثال دی کہ جب تک نادرا کے دفاتر کے اوقات نو سے پانچ بجے تھے تب تک وہاں لمبی لائنیں لگی رہتی تھیں مگر جیسے ہی انہیں ٹوئینٹی فور سیون کیا گیا، رش ختم ہو گیا۔ میں نے انڈیا کی عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجری وال کے انتخابی منشور کا مطالعہ کیا تو بہت ساری دوسری باتوں کے ساتھ یہ بات بھی مزے دار لگی کہ وہ دلی کو چوبیس گھنٹے جاگتا ہوا شہر بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ایسے کمرشل ایریاز ڈیویلپ کرنا چاہتے ہیں جہاں دن رات بزنس ہو جس سے نہ صرف کاروباری فائدہ ہوگا بلکہ رش بھی ختم ہو گا۔ ہم بھی یہ فارمولہ یہاں استعما ل کر سکتے ہیں مگر ہمارے ہا ں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارے کورونا اقدامات کے انچارج وزیر اسد عمر صاحب نے عوام کو صلاح دی ہے کہ وہ عید سے قبل لاک ڈاون کر سکتے ہیں لہذا وہ جلدی جلدی عید کی شاپنگ مکمل کر لیں، جب آپ کے دوست ہی اس ریچھ جیسے ہوں جو ناک پر بیٹھی مکھی کو بڑے پتھر سے کچل کر مارنے کی تدبیر کریں تو آپ کو دشمن کی کیا ضرورت ہے؟
ہماری حکومت نے ایک اور فیصلہ کیا ہے کہ عوام میں ایس او پیز پر عملدرامد کے لئے فوج کو سڑکوں پر لایاجائے۔ میں بصدا حترام کہتا ہوں کہ محض لوگوں کو ماسک پہنوانے کے لئے فوج کو زحمت دینا توپ سے مکھی مارنے کے مترادف ہے۔ ہم بطور پاکستانی اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ ہم جب اپنے فوجی بھائیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاتھ ہمارے ماتھوں سے جا لگتے ہیں۔ ایسے میں فوج کو ایسے کاموں کے لئے استعمال کرنا جس میں پولیس بدنام ہوچکی ہو ہرگز دانشمندی نہیں ہے۔ آپ چاہے کسی حکومت کے حامی تاجر رہنما سے پوچھ لیں وہ لاک ڈاون او ر ایس او پیز کے نام پر پولیس والوں کی ایسی ایسی دیہاڑیاں لگانے کے طریقے بتائے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے کہ یا خدا ہماری پولیس ایسی ٹیلنٹڈ ہے۔ ویسے اس کا ٹیلنٹ ایک مرتبہ پھر جعلی پولیس مقابلوں میں بھی نظر آ رہا ہے اور یہ جعلی شیر جوان سڑکوں پر لوگوں کے ناخن تک اکھیڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کورونا کے نام پر ہماری ضلعی انتظامیہ اور لاہور پولیس دیہاڑیاں لگانے میں یوں مصروف ہے کہ میرے خیال میں حکمرانوں اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے علاوہ کورونا انہیں لکھ پتی سے کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بنانے کے لئے آیا ہے۔ حکومت سے سوال کیا جا نا چاہئے کہ ماسک پہنوانے اور سماجی فاصلہ رکھوانے کے لئے ٹائیگر فورس کو کیوں نہیں میدان میں لایا گیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہماری فوج کو منشیات فروشوں اور بجلی چوروں کے خلاف آپریشنوں میں بھی استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ فوج ہر پاکستانی کی ہے چاہے وہ اچھا ہے یا برا، میرا دل دکھتا ہے جب اسے نااہل انتظامیہ کے متبادل سول معاملات میں لا کر متنازع بنایا جاتا ہے۔ مجھے اس ویڈیو کا بھی دکھ ہے جو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں کچھ شہریوں کو مرغا بنایا گیا ہے۔
حکومتی نااہلی اوربدعنوانی کا اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ مجھے الخدمت، کے سیکرٹری اطلاعات شعیب ہاشمی بتا رہے تھے کہ وہ ثریا عظیم ہسپتال میں چار ہزار روپوں میں کورونا ٹیسٹ کررہے ہیں جبکہ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والی لیبارٹری کے مالک کو یہی ٹیسٹ ساڑھے چھ ہزار روپوں میں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ صریحاً عوام دشمنی ہے اور مجھے یہاں شہباز شریف کی گورننس یادآتی ہے جب انہوں نے ڈینگی ٹیسٹ نوے روپے میں کرنے کا حکم دیا تو حکمران جماعت سے وابستہ یہی لیب کا مالک عدالت میں چلا گیاکہ ہمیں مہنگا ٹیسٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے اسے یہ اجازت نہیں دی۔ مجھے یہ بھی علم ہوا کہ کوروناکے دوران ہونے والے تین سے چار ٹیسٹ الخدمت والے صرف 3900روپوں میں کر رہے ہیں اور یہی ٹیسٹ سرکاری چھتری والی لیب میں بارہ ہزار روپوں میں ہو رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ اس دنیا میں اس لوٹ مار کا جواب لیا جا سکے گا یا نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ قیامت کے روز ان ڈکیتیوں کا حساب ان پرائیویٹ لیبارٹریوں اور ہسپتالوں والوں کو ہی نہیں بلکہ حکمرانوں کو بھی دینا ہوگا جو اس لوٹ مار کے محافظ ہیں، پشتی بان ہیں اور شائد حصے دار بھی!