یہ سوال ہمارے میڈیا گروپ کی نوجوان پولیٹیکل رپورٹر رُوبا عروج نے میرے پروگرام میں اٹھایا کہ وہ یوتھ جس نے عمران خان کو مسیحا سمجھا، اس کے نئے پاکستان کے نعرے کو سچ جانا، اب وہ کیا کریں جب وہ دیکھتے ہیں کہ نااہلی ہے، بدانتظامی ہے، اب وہ کسے ووٹ دیں کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے لئے آخری امید عمران خان ہی ہیں۔ مجھے ان کا سوال اس لئے منطقی لگا کہ عمران خان کو واقعی تمام سیاسی قیادت کی نفی کرتے ہوئے لانچ کیا گیا تھا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ اب تک حکومت کرنے والے تمام لوگ نااہل اور بدعنوان تھے مگر عمران خان ایسے نہیں ہیں۔ نہ صرف وہ خود ویژنری اور ٹیلنٹڈ ہیں بلکہ ان کے پاس ایسے سینکڑوں لوگوں کی ٹیم بھی موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ بہت سارے نوجوان ان کی حکومت کی آدھی سے کچھ زیادہ مدت گزرنے کے باوجود ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں مگرحقیقت تک پہنچنے والوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں ہے لیکن ان کے سامنے سوال یہی ہے کہ اگر عمران خان پہلوں جیسے نتائج دینے کے اہل بھی نہیں تو ہم کیا کریں؟
مجھے لگا کہ یہ ہر دور کا سوال ہے، مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان بقید حیات تھے۔ نکلسن روڈ پر ان کا ڈیرہ تھا، اس سڑک کا نام اب ان سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار مساوات کے چیف رپورٹر آغا افتخارمرحوم میرے بہت اچھے دوست تھے اور ہم اکثر عصر کے وقت باباجی کے ڈیرے پر جا پہنچتے۔ مزے دار چائے بھی پیتے اورسیاسی چسکے بھی لیتے۔ یہ وہ دور تھا جب نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہے تھے، پنجاب میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہو چکا تھا، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ی تک مسلم لیگ کے ہی ایک دھڑے کے پاس تھی۔ ملنسار اور نرم خو سعید منہیس لیڈر آف دی اپوزیشن ہوا کرتے تھے۔ ایسے میں جب نواب صاحب گونواز گو کا نعرہ لگاتے تو میں ان سے پوچھتا، نواز شریف نہیں تو کون کہ جمہوری میدان میں اس کا متبادل دور، دور تک کوئی نہیں۔ نواب صاحب کے چہرے پر اس سوال پر ہلکی سی ناپسندیدگی آجاتی، وہ کہتے، آپ یہ سوال کر کے پاکستان کے کروڑوں عوام کی توہین کر رہے ہیں، یہ بادشاہت نہیں کہ بادشاہ ناگزیر ہے، یہ جمہوریت ہے جس میں ہر پاکستانی قیادت کا اہل ہے۔ اس کے بعد پرویز مشر ف کا مارشل لا لگ گیا اور اب بھی بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ پرویز مشر ف کا دور ملک میں معاشی ترقی کا دور تھا۔ پنجاب میں شہباز شریف کے بعد چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے بھی اپنے دور کے بہت سارے مثبت نقش سیاست اور صوبے پر چھوڑے۔
اسی او ر نوے کی دہائی میں بھی نفرت کی سیاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد بنا اور جماعت اسلامی نے اس مہم کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تو ثابت کیا گیا کہ پیپلزپارٹی نہ صرف ملک دشمن ہے بلکہ محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے کردار پر بھی حملے کئے گئے۔ آج لندن فلیٹس ڈسکس ہوتے ہیں تب سرے محل ڈسکس ہوتا تھا۔ یہ انتہا پسندی اس وقت بھی تھی جب سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی بنا دیا گیا اور یوں لگتا تھا کہ ہمارے پسندیدہ لیڈر کے مقابلے میں کوئی دوسرانہ محب وطن ہے اور نہ ہی اہل۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اب وہ وقت نہیں جو نوابزادہ نصراللہ خان سے سوال کرنے کے زمانے میں تھا۔ اب ہمارے سامنے ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں مگر سوال اس نفرت کا ہے جو ہمارے ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہے، سیاسی نظرئیے کو دماغوں میں مذہب کی طرح راسخ کر دیا گیا ہے لہٰذا جب ہم اس سوال کی بات کرتے ہیں کہ جنہوں نے عمران خان کو ووٹ دیا، اب وہ اپنے خواب ٹوٹنے پر پریشان ہیں تو وہ کیا کریں۔ عمران خان نہیں تو پھر کون ہے جو اس ملک کی تقدیر کو بدل سکتا ہے، ہمارے آنے والے دنوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔
میرے پاس رُوبا عروج کے پوچھے ہوئے سوال کے دو جواب ہیں، پہلا، ایلون ٹوفلر کے اس قول میں چھپا ہوا ہے کہ اکیسویں صدی کے جاہل وہ نہیں ہوں گے جو پڑھ لکھ نہ سکتے ہوں، وہ ہوں گے جوLearn، Unlearn اور Relearn کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں گے۔ اکیسویں صدی بہت تیزی سے تبدیل ہونے والی صدی ہے۔ اس میں تعمیر وترقی سے لے کرایڈمنسٹریشن اور گورننس تک کے ماڈل بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم کٹوں، وچھوں، بکریوں اور مرغیوں کے ذریعے خوشحالی کی راہ دکھا سکتے تھے مگر اب یہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور بلٹ ٹرینوں کا زمانہ ہے۔ اگر ہم نے پرانی سیکھی ہوئی باتوں کو اپنے ذہن سے مٹا کے نئی باتیں اور چیزیں نہ سیکھیں تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے جیسے کوئی گدھا گاڑی چلانا جانتا ہے اور وہ اصرار کرتا ہے کہ اسے موٹر کار چلانے کے سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو وہ اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا جو اس زمانے میں لگی ہوئی ہے۔ مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں جو محبتیں اور نفرتیں سکھائی گئی ہیں وہ بھی بھولنی ہوں گی اور ان کا اپنے ذاتی اور قومی مفادات کے تحت از سرنو تعین کرنا ہو گا۔
ہم ووٹ کس کو دیں، اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ جب جناب عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر ہر کسی کے انداز حکمرانی کی نفی کررہے تھے تو اس وقت تک ہمارے پاس ان کی اپنی حکمرانی کا کوئی ٹھوس ماڈل موجود نہیں تھا جسے ہم سب نے خود تجربہ کیا ہوتا مگر اب ان کی حکومت کی آدھی سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد ہمارے سامنے موازنے کے لئے ایک سے زیادہ ماڈل موجود ہیں۔ اب ہمیں لکھے گئے منشوروں، کی گئی تقریروں، لگائے گئے نعروں سے ہٹ کر اہلیت اور کارکردگی کا تقابلی جائزہ لینا ہو گا، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہمارے تعصبات سے ہٹ کر حقیقی معنوں میں ملک و قوم کے لئے ڈیلیور کس نے کیا۔ عوامی لہجے میں بات کروں تو نہ عمران خان ہمارے پھوپھی کا پتر ہے اور نہ ہی نواز شریف، نہ ہماری آصف زرداری سے کوئی دشمنی ہے اور نہ ہی سراج الحق سے۔ ہمیں اب اپنی ذات، اپنے ملک اور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری اور فلاح کے حوالے سے سوچنا اور فیصلہ کرنا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات اسٹیبلشمنٹ، عدالتوں اور انتظامیہ کی بھرپور معاونت کے باوجود درست ثابت ہوئے یا وہ صرف ایک مخصوص رائے عامہ بنانے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کئے گئے۔ اب ہر قسم کی فلاح اور ترقی معیشت کی بہتری میں چھپی ہوئی ہے جس کے ہمارے پاس اعداد و شمار موجود ہیں۔ آپ جن لوگوں کے لئے ان کے مخالفین کو سوشل میڈیا اور حقیقی زندگی میں گالی گلوچ کا نشانہ بناتے ہیں، ا گر آپ پیڈ ٹرول نہیں ہیں، تو آپ کے ممدوح آپ کی اس کاوش کو دیکھ تک نہیں پاتے۔ سو آپ کو اپنے اندر جذباتی تقریروں اور الزامات کی بنیاد پر بھر دی گئی نفرتوں کو مٹانا ہو گا اور اس کی جگہ وہ تحریر لکھنی ہو گی جو آپ کے اپنے مفادمیں ہو نہ کہ کسی گفتار کے غازی کو اقتدار دلوانے کے لئے آپ استعمال ہو رہے ہوں۔ کسی وقت اپنے اندر کھدی ہوئی تحریروں کو مٹانے کی کوشش کیجئے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے نظریات اور وابستگیوں میں Unlearnکی صلاحیت پیدا کریں جس کے بعد ہم زیادہ بہتر Learnکرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ سوال کرنے والوں نے جو نفرتیں سیکھ رکھی ہیں، جدید دنیا اس نصاب کو صدیوں پہلے متروک کر چکی ہے۔