یہ وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کی مشترکہ بڑی میٹنگ تھی جس میں بہت سارے سیانے سر جوڑ کے بیٹھے ہوئے تھے۔ سوال تھا کہ ملکی اقتصادی ترقی کی گاڑی کو گذشتہ تین برس سے جو ریورس گئیر لگا ہوا ہے اسے کیسے پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے گئیر میں ڈالا جائے۔ میٹنگ میں سرکاری افلاطونوں اور بقراطوں کے ساتھ لمبی لمبی طوطے جیسی ناکوں والے سرکاری ملازم بھی تھے۔ اعداد وشمار یہ تھے کہ کورونا کی آمد سے پہلے ہی فائیو پوائنٹ ایٹ گروتھ ریٹ والی اکانومی ون پوائنٹ ایٹ پر جا چکی تھی او ر کورونا کے بعد جب لاک ڈاون ہوا تو گروتھ مائنس ہو گئی۔ اس برس کے بارے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سمیت دیگر اداروں کی پیشین گوئی تھی کہ پاکستان کی اکانومی دوبارہ ون پوائنٹ فائیو گروتھ ریٹ پر چلی جائے گی مگر حکومتی اداروں نے اسے سمپلی ڈبل کر دیا یعنی تھری پرسنٹ۔
میٹنگ شروع ہوئی توسرکاری بقراط نے طوطے کی ناک والے سب سے سیانے سرکاری ملازم سے کہا، " تمہیں علم ہے کہ انڈیا میں کورونا کی کیا صورتحال ہے، وہاں لوگ سڑکوں پر مرتے نظر آ رہے ہیں اور وہاں کا گروتھ ریٹ گیارہ فیصد بیان کیا جا رہا ہے، یہ ہمارے ساتھ کیا سازش ہو رہی ہے، لگتا ہے ابھی تک ہمارے اندر شریفوں کے ایجنٹ موجود ہیں، ہم نے کورونا پرجس طرح قابو پایا ہے، اس طرح تو امریکا اور انگلینڈ تک نہیں پا سکے جو ہماری صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے سو ہمارا گروتھ ریٹ گیارہ سے زیادہ ہونا چاہئے، بارہ تیرہ چودہ پندرہ یا سولہ۔۔" سرکاری ملازم نے چونک کر سراُٹھایا، ایک جھٹکا لیااور بولا، سر پہلے ہی آپ نے ڈیڑھ فیصد پروجیکٹڈ گروتھ ریٹ کو تھری پرسنٹ ڈیکلئیر کروا دیا تھا مگر یہ تو بہت زیادہ ہے، ناممکن ہے۔ جب لاک ڈاون جاری ہے، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے احساس پروگرام کے ذریعے دس کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کی مدد کی تواس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث آدھا پاکستان امداد لینے والا ہو چکا، چالیس فیصد سے زائد پاکستانی خط غربت سے نیچے جاچکے، انفلیشن جو گذشتہ دور مین تین، ساڑھے تین فیصد پر تھی وہ پندرہ فیصد کو چھو کر واپس آ ئی، بے روزگار ہونے والوں کی تعداد دو کروڑ سے بڑھ چکی۔۔۔"
بقراط نے چیخ کر کہا، "چُپ کرو، چُُپ کرو، تم لگتا ہے کہ ہمارے واٹس ایپ گروپوں میں شامل نہیں ہو جہاں یہ سب بکواس نہیں چلتی۔ ہم نے کرنٹ اکاونٹس بیلنس کو سرپلس کیا ہے۔ تم ہمارے فوڈ سیکورٹی کے نئے وزیر کو دیکھو، ان کی فیس بک پر ہماری فصلیں ساٹھ فیصد تک بڑھ چکی ہیں اور ہمیں اسی کو اپنی ترقی کی بنیاد بنانا چاہئے، تم شہباز گل کے ٹوئیٹر اکاونٹ کو دیکھو جہاں ہماری ترقی پوری دنیا کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے، تم نے عمران خان صاحب کی تقریر بھی نہیں سنی کہ ہم نے پینتس ہزا ر ارب قرض واپس کر دیا ہے، ہمارے پاس گاڑیاں بنانے والی نئی نئی کمپنیاں آ گئی ہیں اور پچھلے برس کے مقابلے میں ان کی فروخت دوگنی ہو گئی ہے۔ ہماری ریمیٹنسز اور ٹیکس کلیکشن میں اضافہ شاندار ہے۔۔۔ اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ ہمارا گروتھ ریٹ پندرہ یا سولہ فیصد نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ "سرکاری ملازم منمنا کر بولا، " سر، آپ نے ٹوئیٹ کر کے اور بیان دے کر گھر چلے جانا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ماہرین کو جواب دینے ہوتے ہیں۔ ہم کیا جواب دیں کہ اگرتمام فصلوں کی پیداوار ریکارڈ ہوئی ہے تو پھر آٹے کا تھیلا جو گذشتہ پانچ برس آٹھ سو روپے کا رہا، یہ اچانک ساڑھے آٹھ سو سے گیارہ سو روپوں پر کیسے چلا گیا ہے۔ اگرگنے کی پیداوار اچھی ہوئی ہے تو چینی کیوں پچپن روپوں سے ایک سو دس روپے کلو پر پہنچ گئی ہے۔ اگر زرعی پالیسی اتنی ہی شاندار ہے تو پھر ہر برس کپاس کی پیداوار کیوں کم ہو رہی ہے بلکہ پانچ برسوں میں مجموعی طور پرآدھی رہ گئی ہے، گھی کی قیمت ڈیڑھ سے دو گنا بڑھ چکی ہے۔۔۔"
بقراط کو ہنسی آ گئی اور سرکاری ملازم سے کہا، " دیکھو! یہ قیمتوں کا بڑھنا ترقی کی علامت ہے جیسے ستائیس لاکھ والی گاڑی اڑتالیس لاکھ کی ہوگئی مگر اس کے باوجود لوگ خرید رہے ہیں، برطانوی گاڑی جس کی قیمت ہی پچپن لاکھ ہے اس پر گیارہ، گیارہ لاکھ اون دے کر بھی لیا جا رہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی کما رہے ہیں۔ تم جن غریبوں کی بات کرتے ہو وہ ملکی معیشت میں اہم نہیں، اہم تو وہ لوگ ہیں جن کے بڑے بڑے کاروبار ہیں۔ مہنگائی کا شور مچانے والے نون لیگ کے ووٹر سپورٹر ہیں، ان کی ذہنیت ہی پٹواریوں والی ہے، یہ کبھی ا چھا سوچ ہی نہیں سکتے۔ دیکھو، اگر چینی مہنگی بک رہی ہے تو ا س سے ہماری انڈسٹری فلورش ہو رہی ہے اور لوگوں کو روزگار دے رہی ہے۔ اگر آٹا مہنگا بک رہا ہے تو اس کا فائدہ کسان کواور فلو ر ملز کو ہو رہا ہے۔ اگر چکن مہنگا بک رہا ہے تویہ بھی ترقی کی علامت ہے۔ ایک بات یاد رکھو، ترقی یافتہ ممالک میں سب کچھ مہنگا ہے، پٹرول سے گوشت تک اور یہی ہماراترقی کا ماڈل ہے۔ سیدھی سے بات ہے کہ اگر نواز لیگ کے دور میں گروتھ ریٹ چھ کے قریب تھا تو اب قیمتیں دوگنی ہونے کے بعد اسے بارہ ضرور ہونا چاہئے۔ ویسے بھی ہمیں انڈیا سے آگے رہنا ہے، یہ ہماری حب الوطنی کا سب سے اہم تقاضا ہے اور اگر تم یہ گروتھ ریٹ نہیں ظاہر کرو گے تو اپنے آپ کو نوکری سے فارغ سمجھو، تم جیسے پہلے بھی کئی آئے اور چلے گئے۔۔ نوکری کرنی ہے تو نوکروں کی طرح کرو، زیادہ دانشور بننے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری باتوں سے لگ رہا ہے کہ تم دشمن کے ایجنٹ ہو، تم جیسوں کے لئے نوکری سے نکالنے کا قانون اسی لئے بنایا ہے کہ زیادہ ٹرٹر نہ کرو، حق وہی ہے جو ہمارے حق میں ہے۔۔"
"سوری سر، سوری سر"، سرکاری ملازم کرسی سے نیچے گرتے گرتے بچا اورایک بہت مناسب تجویز دی، " سر ایک گھڑے میں پرچیوں پر پاکستان کا گروتھ ریٹ لکھ کر ڈالتے ہیں اور جو پرچی نکل آئی اسی کااعلان کر دیں گے۔ یہ قدرت کی طرف سے بھی اشارہ ہوگا کہ ہمارا گروتھ ریٹ کیا ہو۔ بقراط نے بہت زیادہ سوالوں جوابوں سے بچنے کے لئے اس تجویز کو قبول کیا۔ گھڑے میں پرچیاں ڈالی گئیں جن پر متعدد نمبر لکھے ہوئے تھے۔ آیات اور دعائیں پڑھ کر پہلی پرچی نکالی گئی تو ایک کا عدد لکھا ہوا نکلا مگر بقراط نے کہا کہ پہلی ہمیشہ ٹرائی بال ہوتی ہے لہٰذا دوسری پرچی نکالی جائے، دوسری پرچی تین کی نکل آئی اور وہ بھی بقراط کو پسند نہیں آئی اور اس نے اصرار کیا کہ ایک مرتبہ اور ٹرائی کی جائے کہ کم از کم پانچ کا فگر ضرور آنا چاہئے جس پر انہیں یقین دلایا گیا کہ اگلے برس پانچ کا اعلان کر دیں گے اوراس برس اجازت دیں کہ چار پر ہی گزارا کر لیں۔ بقراط نے ایک لمبی سی ہوں کرنے کے بعد اجازت دی اور ایک سوا ل پر وزارت خزانہ کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ گروتھ ریٹ کی بنیاد زراعت کے شعبے میں بے مثال ترقی کو بنائیں کہ اب کسی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ فیتے لے کر فصلوں کی پیداوار ناپتا پھرے۔ سو پیارے قارئین ایک طویل اجلاس میں بھرپور بحث و مباحثے کے بعد ملک کی گروتھ ریٹ کو چار فیصد کے قریب ڈیکلئیر کر دیا گیا جس سے حکومت کے تمام حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ وہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔