Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Wazir Sehat Ki Beti

Wazir Sehat Ki Beti

پنجاب کی خاتون وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی بیٹی ڈاکٹر عائشہ علی کی ملک کی ٹاپ میڈیکل یونیورسٹی میں براہ راست گریڈ انیس کی اسسٹنٹ پروفیسرکے طور پر مستقل بنیادوں پرتقرری کو اگر غیر قانونی کہا جائے تو اس کی مختلف تاویلوں سے وضاحت دی جا سکتی ہے لیکن اگر اسے دھونس، دھاندلی کے ساتھ کی جانے والی ناانصافی اور اقربا پروری کا نام دیا جائے تواس سے انکار ممکن نہیں۔ غیر قانونی کو قانونی اس طرح بنایا گیا کہ محکمہ صحت میں قانون بنانے اوراس پر عمل کرنے والے ڈاکٹر صاحبہ کی جوتیاں سیدھی کرنے والے آ گئے ہیں چاہے وہ وائس چانسلر وں جیسے باوقار عہدوں پر ہی کیوں نہ ہوں۔

سب سے پہلا سوال ہے کہ کیا ڈاکٹر عائشہ علی کی تقرری کے لئے فیٹل میڈیسن نام کا کوئی نیا شعبہ غیرقانونی طور پر بنایا گیا ہے تو حکومتی حلقے اس کے جوا ب میں سی پی ایس پی کاسات، آٹھ برس پرانا ایک لیٹردکھاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ شعبے نواز شریف دورمیں بنے۔ مجھے وائے ڈی اے کے ایک رہنما نے بتایا کہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز ایک پرائیویٹ ادارہ ہے اوراس کے بنائے ہوئے شعبے تربیت کے لئے تو ہو سکتے ہیں مگر یہ وفاقی، صوبائی حکومتوں اور اداروں کو پابند نہیں کرتے کہ اس کے مطابق بھرتیاں کریں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نے فیٹل میڈیسن کا شعبہ اپنی مرضی سے بنایا ہے اوراس کی منظوری سینڈیکیٹ نے دی ہے۔ اب اگر دوسرے امیدوار وں کی مائیں اتنی تگڑی نہیں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے لئے یونیورسٹیوں کی سینڈیکیٹوں سے شعبے منظور کروا سکیں تواس میں ڈاکٹر عائشہ علی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ مجھے ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ برس ہا برس تعلق نبھانے والے ایک پروفیسر نے آن دی ریکارڈ گفتگو سے معذرت کرتے ہوئے دو سوال کئے کہ کیا فیٹل میڈیسن کا پاکستان میں کوئی سکوپ ہے کہ اس سے کہیں پہلے یورو گائناکالوجی کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں عورتوں میں کینسر خوفناک حد تک بڑھتا چلا جا رہا ہے اور پریگننٹ عورتوں کا یہ مسئلہ شدید ہوتا جا رہا ہے۔ کیا صرف ڈاکٹر یاسمین راشد کی بیٹی کو فیٹل میڈیسن کا شعبہ بنا کر نوکری دی گئی یا اس کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی بھرتیاں ہوئیں۔ علم ہوا کہ پکی نوکری صرف اسی شعبے میں ملی ہے۔

جس رپورٹر نے یہ خبر بریک کی تھی میں نے ایک ویڈیومیں اسے محترمہ یاسمین راشد کے ترلے کرتے ہوئے دیکھا کہ میڈم، میرے دفتر کی طرف سے سختی کی جا رہی ہے کہ آپ کا موقف ضرور لاوں، پلیز آپ اپنا موقف دے دیں۔ میں نے دیکھا، آپا یاسمین راشد آگے آگے چلتی جا رہی ہیں اور وہ رپورٹر پیچھے پیچھے ویل مانگنے والے کسی میراثی کی طرح بھاگ رہا ہے۔ محترمہ یاسمین راشد نے بہت مہربانی کی اوراسے مشورہ دیا کہ وہ وائس چانسلرکنگ ایڈورڈ سے پوچھ لے کہ کیا یہ تقرری میرٹ پر نہیں ہے۔ یہ بھی ایک لطیفہ یا دھماکہ ہی ہو گا اگر موصوف وائس چانسلر یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے اپنے ہی منہ سے غیر قانونی کہیں گے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے سربراہ ڈاکٹر حامدبٹ بار بار پوچھ رہے تھے کہ میڈم منسٹر کی بیٹی کی تقرری ریگولر بنیادوں پر کی گئی تو کنگ ایڈورڈ میں ہی کام کرنے والے ساٹھ کے قریب اسسٹنٹ، ایسوسی ایٹ اور فل پروفیسر زکیا کمی کمین ہیں کہ وہ کئی کئی برس سے کنٹریکٹ پرکام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محترمہ عائشہ علی میں اس کے سوا کوئی دوسری خوبی نہیں کہ وہ وزیر صحت کی بیٹی ہیں۔ میں نے پی ایم اے میں میڈم منسٹر کی بھرپور سپورٹ کرنے والے ایک اور سمارٹ سے پروفیسر سے پوچھا، سر، عائشہ علی گریڈ انیس میں کیوں جبکہ پبلک سروس کمیشن سے بھرتی ہونے والے ہزاروں اسسٹنٹ پروفیسر تو گریڈ اٹھارہ میں آتے ہیں، وہ زور سے ہنسے اوربولے، یونیورسٹی کیڈر میں اسسٹنٹ پروفیسر انیسویں گریڈ کا ہی ہوتا ہے اور سروس کمیشن کے ذریعے اٹھارہویں کا، یہ محترمہ کی عقلمندی ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے یونیورسٹی کیڈر کا چناو کیا جس میں وہ پبلک سروس کمیشن سے بھی بچ گئیں، گریڈ بھی انیسواں مل گیااور وہ بھی ریگولر بنیادوں پریعنی چپڑی بھی ملیں اور تین، تین بھی ملیں۔

مجھے کچھ واقفان حال نے بتایاکہ وزیر صحت یونیورسٹی کا پرو چانسلر ہوتا ہے، وہ سینیٹ/ سینڈیکیٹ کی میٹنگوں کی صدارت بھی کرتا ہے جن میں یہ شعبے اورنوکریاں تخلیق کی گئیں یعنی یہ کھلم کھلا مفادات کاٹکراو تھا۔ یہ واقفان حال کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عائشہ کے پاس دو، دو فیلوشپس ضرور ہوں گی مگر ان کے پاس فیٹل میڈیسن کی پاکستان میں باقاعدہ منظورشدہ ڈگری ہی نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان میڈیکل کمیشن کی ویب سائیٹ پران کا رجسٹریشن نمبر332218-P میرے سامنے کھولا تو وہاں کوالی فیکیشن میں ایم بی بی ایس کے بعد صرف گائنی کا ایف سی پی ایس نکلا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت کسی ڈگری پر کوئی ملازمت آفرنہیں کر سکتی جب تک وہ پی ایم سی (یا پرانی پی ایم ڈی سی) کی طرف سے منظور شدہ نہ ہو اور اس بنیاد پر یہ تقرری غیر قانونی بھی قرار پاتی ہے مگر میڈم کے حامی پروفیسر صاحب نے بتایا کہ پی ایم سی کی ویب سائیٹ کچرا ہے، فارغ ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ماں اور بچے کی صحت کا پروگرام ڈاکٹر یاسمین راشدکی وزارت نے بنایا ہی اس لئے ہے کہ اسے مستقبل میں ان کی ٹیلنٹڈبیٹی کی سربراہی نصیب ہو۔ اس مقصدکے لئے پہلے فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں بھی ڈاکٹر عائشہ علی کے لئے شعبہ اورپوسٹ پیدا کی گئی مگر وہاں امیدواروں کی فہرست پبلک نہ ہونے پر ہنگامہ ہو گیا اور پھر یہ سب کچھ کنگ ایڈورڈ منتقل کرنا پڑا۔ میڈم منسٹر اس کے بیان کا با ر بار حوالہ دیا جا رہا ہے جس کے مطابق کابینہ نے ریگولر بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے، میڈم منسٹربھی کریڈٹ لیتی ہیں کہ ان کے دور میں صرف پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پکی نوکریاں دی گئیں مگران کی بیٹی نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کا وہ راستہ منتخب نہیں کیا جس پرپی ایم سی کی ویب سائیٹ پر ان کے برابر اہلیت رکھنے والی چارسوکے لگ بھگ ایف سی پی ایس گائنی خواتین ڈاکٹرزپندرہ سیٹوں پر نوکری کی منتظر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کیڈرمیں بھی بھرتی کے لئے تین سے چھ ماہ لگ جاتے ہیں مگر وزیر صحت کی بیٹی کے لئے یہ عمل دو سے چار ہفتوں میں مکمل ہو گیا اور وہ ریگولر بھرتی ہونے کے بعد پروبیشن پر ہونے کے باوجود چھٹی لے کر لندن چلی گئیں جبکہ پروبیشن کے دوران ایکس پاکستان لیو ناممکن سمجھی جاتی ہے مگرانہیں یہ بھی مل گئی۔ ہیلتھ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر میاں نویدمجھے جناح ہسپتال کے زمان نام کے ایک ڈاکٹر کی ویڈیو دکھا رہے تھے جن کے پاس بیس سے زائد گولڈمیڈل ہیں مگر وہ ابھی تک اسسٹنٹ پروفیسر سلیکٹ نہیں ہوسکے کیونکہ ان کی والدہ وزیر صحت نہیں ہیں۔

میڈم یاسمین راشد کے موقف کا ویڈیو کلب مجھے ایک حکومتی ترجمان نے واٹس ایپ کیا۔ وہ ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی تقرری کو عین میرٹ قرار دے رہی تھیں اور فرما رہی ہیں کہ بیرون ملک ملازمت چھوڑ کر آنے والوں کو سراہا جائے، ان پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں۔ یہاں دوتین سوالات ہیں، پہلایہ کہ میڈم منسٹر کی بیٹی کی تقرری ان کی چند منٹ کی یک طرفہ تقریر سے جائز نہیں ہوسکتی جس میں کوئی وضاحت، کوئی ضمنی سوال نہ ہو اور آخرمیں اینکر ان کو اپ رائیٹ بلکہ بہت اپ رائیٹ لیڈی قرار دے کر تالیاں بجا دے۔ میں میڈم کی امانت اوردیانت پر سوال نہیں اٹھاتامگر بیٹی کی انیسویں گریڈ میں براہ راست مستقل بھرتی کے معاملے پر ان کا ہر عمل اختیارات کے ناجائز استعمال، اقربا پروری اور ناانصافی یعنی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔