پہلے ٹوئیٹر اور اب ایکس، کے نام سے موجود سوشل میڈیا ایپ پر عام پاکستانیوں کی رسائی کم یا محدود ہوئے ایک برس ہوگیا اور اس دوران حکومت مختلف قسم کی وضاحتیں بھی دیتی رہی مگر پھر وزارت داخلہ نے باقاعدہ طورپر عدالتوں کے سامنے تسلیم کر لیا کہ اس نے ایکس، پر پابندی لگا رکھی ہے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ پابندی آدھی اور اُدھوری ہے یعنی اگر آپ ایک دوسری ایپ وی پی این انسٹال کر لیتے ہیں تواس کے ذریعےایکس، تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ وی پی این کے ذریعے آپ اپنی لوکیشن چھپا بھی لیتے ہیں اور بدل بھی لیتے ہیں۔
ہوتے آپ پاکستان میں ہیں مگر آپ برطانیہ سے دوبئی تک کوئی بھی لوکیشن سلیکٹ کر لیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے استعمال کو حرام قرار دیا تھا کہ اس پر جھوٹ بولا جاتا ہے، دھوکا دیا جاتا ہے مگر بعد ازاں چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے بیان میں نرمی پیدا کرلی تھی جب ان پر سخت تنقید ہوئی تھی حالانکہ شرعی اور منطقی طور پر ان کا استدلال درست تھا۔ اس صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایکس پر پابندی ہے بھی اور نہیں بھی۔ تنقید کی جاتی ہے کہ اگر پابندی ہے تو پھر سارے حکومتی عہدیدار ایکس کیسے اور کیوں استعمال کرتے ہیں تو اس کاجواب ہے کہ ویسے ہی جیسے کوئی بھی دوسرا پاکستانی کرسکتا ہے۔
اب سوال ایکس پر پابندی کے ساتھ ساتھ وی پی این پر پابندی کا ہے کہ اگر وی پی این پر پابندی لگ جائے تو ایکس بند ہوجائے گا مگر مسئلہ یہ ہے کہ وی پی این کا استعمال بہت سارے کمرشل اور ٹیکنیکل معاملات میں بھی کیا جاتا ہے۔ وی پی این بند ہوئے تو بہت سارے آن لائن کاروباروں پر بھی ضرب پڑی جس کے بعد وی پی این کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا گیا مگر وہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ وی پی این پر پابندی کے لئے قومی سلامتی کے ذمے دار اداروں نے دلیل دی کہ ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہے اور دہشتگردوں سمیت بہت سارے جرائم میں ملوث لوگ وی پی این کا استعمال کرکے اپنی لوکیشن چھپا لیتے ہیں یعنی وہ تحقیقات میں ٹریس نہیں پاتے کہ کہاں تھے۔
یہ ایک موثر دلیل تھی جس کی بنیاد پر وی پی این کو بین کیا جاسکتا تھا مگر ظاہر ہے کہ ہمارے پاس وہ تمام تفصیل موجود نہیں کہ کون کون سے دہشت گرد نے واردات کرتے ہوئے خود کوچھپانے کے لئے وی پی این سے مدد لی لہذا سمجھا یہ گیا کہ یہ دلیل صرف اس لئے دی جا رہی ہے کہ ایکس پر ہونے والے پروپیگنڈے تک عوام کی رسائی کو کم کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں وی پی این پر پابندی کو ڈسکس کرنے سے پہلے اس کا جائزہ لینا ہوگا کہ ایکس پر پابندی کیوں لگائی جائے کیونکہ وی پی این پر پابندی بنیادی طور پر ایکس پر پابندی کے لئے ہی دکھائی دیتی ہے۔
غور کیجئے گا، ایکس کسی بھی دوسری سوشل میڈیا ایپ یعنی فیس بک، انسٹا گرام، سنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک وغیرہ سے کہیں زیادہ سیاست زدہ ہے۔ جیسے انسٹاگرام سیاست سے زیادہ انٹرٹینمنٹ کی سیلیبریٹیز میں مقبول نظر آتا ہے او رایسے نوجوانوں میں جو فیشن اور تفریح میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر ہم ایکس کے پرائیویسی کے فیچرز کو دیکھیں تواس میں بھی بہت زیادہ لُوپ ہولز، نظر آتے ہیں یعنی آپ کسی کو بلاک کرنے کے باوجود (اپڈیٹڈ سیٹنگز کے مطابق) اس سے اپنی پوسٹس چھپا نہیں سکتے اور آپ کی تمام پوسٹس ہوتی ہی پبلک ہیں۔
بلاک کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ براہ راست آپ کو کمنٹ یا میسج نہیں کر سکتا مگر وہ آپ کی پوسٹ کا سکرین شاٹ لے کر اسے پوسٹ کر سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں فیس بک پر آپ جسے بلاک کرتے ہیں اس کے لئے آپ مکمل طورپر غائب ہوجاتے ہیں۔ اس کے پاس آپ تک رسائی کا پھر ایک ہی طریقہ ہے کہ کوئی نئی پروفائل بنائے اوراس کے ذریعے آپ کی پبلک پوسٹس دیکھ سکے، فیس بک کی ایپ فرینڈز یا اونلی می تک محدود پوسٹس کے آپشنز بھی دیتی ہے۔
ایکس کا ایک اور مسئلہ اس کا الگورتھم ہے جو دوسروں سے مختلف ہے۔ آپ ایکس کے اوپر کون سی پوسٹ دیکھنا چاہتے ہیں اورکون سی نہیں، اس کا فیصلہ آپ خود نہیں کرسکتے جیسے کہ ٹک ٹاک ہے۔ ٹک ٹاک کا الگورتھم بہت مختلف ہے اوراس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ اگر آپ کچھ اینٹی پی ٹی آئی ویڈیوز کو لائیک، کمنٹ یا محض ویو کرلیتے ہیں تو آپ کے پاس حیرت انگیز طور پر وہی ویڈیوز آئیں گی جن میں بانی پی ٹی آئی پر تنقیدکی گئی ہوگی۔ ایکس پر ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ شائدوہ ایسا مواد بہت زیادہ دیتا ہے جو آپ کو چڑانے اور ری ایکشن دینے والا ہو۔
یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ ایکس پر ایسا جھوٹا اور اشتعال انگیز مواد بہت زیادہ ہوتا ہے اور کسی حد اس کے نئے مالک نے اس کی زیادہ اجازت بھی دی ہے۔ اس کے مقابلے میں فیس بک اپنے کمیونٹی سٹینڈرڈز کا اس حد تک اطلاق کرواتی ہے کہ بعض اوقات غلط فیصلے بھی کرجاتی ہے مگر دوسری طرف ٹوئیٹر ایسی شکایات تک کا بہت کم نوٹس لیتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا چھٹی آبادی والا ملک اور ایک بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود ان اداروں سے قابل قد ر تعاون نہیں لے پاتا بلکہ ان کے دفاتر تک فعال نہیں ہیں سو پاکستانی ان سے اس حد تک کما بھی نہیں سکتے اوراچھی کمائی کے لئے بھی انہیں لوکیشن ہی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا ایک ایپ پر پابندی کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے ختم ہوگئی اور یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو بین الاقوامی سطح پر موجود روایات اور فیصلے اس کی حمایت نہیں کرتے جیسے کہ چین نے باقی تمام دنیا کی ایپس پر پابندی لگا رکھی ہے تو کیا اس کی ترقی رک گئی یا مشرق وسطی میں بھی واٹس ایپ کی کال تک پر پابندی رہی اور اسی طرح امریکہ نے ٹک ٹاک کے ساتھ جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ کوئی بھی ریاست کسی بھی ایپ پر پابندی لگا سکتی ہے اگر وہ اس کے لئے مسائل پیدا کررہی ہولیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ پاکستان میں ایکس پر دوغلی پابندی عائد ہے یعنی پابندی ہے بھی اور اسے وی پی این کے ذریعے توڑا بھی جاسکتا ہے۔
اگر آپ اس پر میری رائے پوچھیں تو اصولی طور پر ایکس پر پابندی نہیں ہونی چاہئے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ایکس پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے لئے ناگزیر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ رئیل ورلڈ کے حقائق اور نتائج ورچوئل ورلڈ پر دکھائے گئے حقائق اورنتائج سے بہت مختلف ہیں کیونکہ ورچوئل ورلڈ میں ایک ایک بندہ دس دس اکاونٹ بنا سکتا ہے اور جتنا چاہے جھوٹ بول سکتا، موثر قوانین، اچھے عدالتی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے گمراہ کر سکتا ہے اور کر بھی رہا ہے سب سے زیادہ ایکس پر۔