یہ الزام اس نظام کا ہے اورجو بھی اس نظام کے خلاف بات کرے گا وہ غدار کہلائے گا اور غداری کی سزا پائے گا۔ ہمارے حکمران، سیاستدان، بیوروکریٹ، تاجر، صحافی، وکلاءسمیت جتنے بھی طبقات ہیں انہوں نے اپنی اپنی سہولت اور مفاد کے مطابق اپنا اپنا نظام بنا رکھا ہے۔ ہم سب اس نظام کو گالیاں دیتے ہیں، کہتے ہیں حکمران ڈیلیور نہیں کرتے، سیاستدان جمہوریت پر عمل نہیں کرتے، تاجر چوربازاری کرتے ہیں، صحافی لفافے لیتے ہیں اوروکیل انصاف کی فراہمی کے بجائے اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں مگر یہ سب طبقات اپنے اپنے سسٹم کے محافظ ہیں، اس کی طرف انگلی نہیں اٹھنے دیتے۔ میں جمہوریت کا بہت بڑا حامی ہوں مگر جمہوریت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں اچھے او ربرے کا ووٹ یکساں اہمیت کا حامل ہے یوں جہاں آمریت کاسہ لیسوں کی محتاج اور سرپرست ہوتی ہے وہاں جمہوریت کی مجبوری یہ ہے کہ اس نے اچھوں کے ساتھ ساتھ بروں کا بھی دفاع کرنا ہے۔
میں نے لاہور کے سابق سی سی پی او عمر شیخ کے حوالے سے بات کرنی ہے مگر ان سے پہلے مجھے ایک وکیل صاحب یاد آ گئے۔ ان سے اچھی یاد اللہ رہی۔ وہ میرے پروگراموں میں بھی آتے رہے اور پھر چاہے وہ سانحہ ساہیوال تھا یا رانا ثناءاللہ خان کے خلاف منشیات کا بظاہر جھوٹا نظر آنے والا مقدمہ، ہم ظلم وستم کے خاتمے اور سسٹم کی اصلاح کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔ ایک روز یوں ہوا کہ میں نے ان سے اچھے اور برے لوگوں کی تقسیم پر بات کر دی۔ میرا کہنا تھا کہ سیاستدان، بیوروکریٹ، تاجر، صحافی، وکلاءیا دوسر ے شعبے اپنے طور پر کوئی دھڑا نہیں ہوتے بلکہ ان میں اچھے او ر برے لوگوں کے دھڑے ہوتے ہیں۔ وہ وکیل صاحب وکیلوں کی سیاست میں بھی تھے اور ہیں۔ انہیں لگا کہ شائد اس بات سے ان کا وہ ووٹ بنک متاثر ہو گا جو برے وکیلوں پر مشتمل ہے۔ میں نے ان سے عرض بھی کی کہ میں ان صحافیوں کا مقدمہ لڑنے کے لئے ہرگز تیار نہیں جو کرپٹ، بددیانت اور بدمعاش ہیں، جو لفافے لیتے اور دیہاڑیاں لگاتے ہیں مگر وکیل صاحب کا دعویٰ تھا کہ کوئی بھی وکیل برا نہیں ہوتا، سب وکیل اچھے ہوتے ہیں۔ درست یا غلط موکل ہوتے ہیں۔ میں ان کی مجبوری سمجھ گیا، انہیں ووٹ لینے تھے لہٰذا وہ برے وکیلوں کے بھی ترجمان او رپشتی بان تھے چاہے ان برے وکیلوں نے اچھے وکیلوں کے روزگار اور ترقی کا راستہ ہی کیوں نہ روکا ہو۔ وہ وکیل سابق دوست اس سسٹم کے محافظ تھے جو اس وقت وکلا میں ہے چاہے وہ خود نوے فیصدوکلا کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے لاہور کے ایک سابق سی ٹی او پولیس کے شہدا کے لہو سے اپنے قاتل اور ڈاکو افسروں کے چہرے کی کالک دھونا چاہتے تھے اور میرا ان سے اسی بات پر اختلاف تھا۔
وہ وکیل رہنما اپنی کمیونٹی کے وفادار تھے جبکہ عمر شیخ غدار ٹھہرے جب انہوں نے پولیسنگ آف دی پولیس کی بات کی۔ میں جانتا ہوں کہ عمر شیخ کی بطور سی سی پی او لاہور تقرری پرانے نظام کی ہی مرہون منت تھی۔ وہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے منظور نظر تھے اور جناب عمران خان کی چوائس بنے تھے مگر یہ بات ماننے والی ہے کہ انہوں نے پولیس کی برادری کے بجائے پولیس میں اچھے او ربرے افسروں کی برادری کی بات کی تھی۔ وہ اپوزیشن کے لئے حکومت کے ہاتھ کا کلہاڑا ضرور تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ عام آدمی پر ظلم کے خلاف اپنے ظالموں کی برادری کے بجائے مظلوموں کے ساتھ کھڑے تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ عمر شیخ لاہور کے سی سی پی او ہوتے تو کاہنہ پولیس اپنے بڑوں کی سرپرستی کے ساتھ دونوجوان قتل نہ کرتی اور اگر قتل کرتی بھی تو سی سی پی او ان کا سرپرست نہ ہوتا بلکہ پولیسنگ آف دی پولیس کی پالیسی کے تحت سخت احتساب ہوتا۔ عمر شیخ کی نااہلی تھی کہ وہ مفادات کے تحفظ کرنے والے افسران کے کلب کا حصہ نہیں بن سکے اور سب سے بڑی غلطی یہ کر بیٹھے کہ ایس ایچ اوز، ڈی ایس پیز اور ایس پیز سطح کے افسران کی جائیدادیں جاننے کی کوشش کی کہ جب یہ سب پولیس میں آئے تھے تو اپنے ابے کی کتنی جائیداد ساتھ لے کر آئے تھے اور ملازمت میں کتنے ارب کمائے۔ یہ اپنے طبقے سے وہ غداری تھی جس کی سزا انہیں ملنی چاہئے تھی۔
یہ جو ایک ایس ایچ او، ڈی ایس پی یا ایس پی ہوتا ہے اس کے بہت سارے بڑے لوگوں کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہوتے ہیں اوریہ متحد ہو کر پولیسنگ آف دی پولیس کی پالیسی لانے والے غدار، کو ہٹوا بھی سکتے ہیں۔ پولیس کا موجودہ نظام اپنے اندر کسی دشمن کو برداشت نہیں کرسکتا جو ان کے (خاص طور پر حرام) رزق کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہو، انہیں ایکسپوز کر رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی کے طاقتور سسٹم نے پہلے انہیں سی سی پی او کی سیٹ سے اٹھا کے شہر سے باہرپاک بھارت سرحد کے قریب پھینکا اور اس پر بھی تسلی نہیں ہوئی تو انہیں پولیس سے ہی نکالنے کا فیصلہ ہو گیا۔ اب کچھ ہی دنوں میں ا نہیں جبری ریٹائر کر دیا جائے گا کیونکہ وہ بولنے والے پولیس افسر ہیں ا ور خاص طور پر اپنے شعبے کی خرابیوں پر بولنے والے۔ یقین کریں میں نے آج تک اتنا کھلا ڈلا بولتا افسر نہیں دیکھا۔ یہ عجیب شخص ہے کہ امریکا تک میں برسوں نوکری کر آیا مگر اسے منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنی بھی نہیں آئی۔ وہ پولیس اور بیوروکریسی میں اشرافیہ میں کوئی ماجھا گاما لگتا ہے۔ یہ کیسا افسر ہے جسے پولیس کے کئے ہوئے ظلم بھی چھپانے نہیں آتے۔ ذرا پولیس کے ظالمانہ نظام کی نظر سے دیکھئے، ایسے شخص کو کالاپانی بھیج دینا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمر شیخ کے مشیر غلط تھے اور اگر مجھ سے پوچھتے تو میں انہیں ٹریننگ کے لئے اسی وکیل رہنما کے پاس بھیجتا جس نے قاتلوں، قبضہ گروپوں اور منشیات فروشوں کو تحفظ دینے والے وکیلوں کو غلط کہنے پرمجھ سے فیس بک تک کی فریند شپ ختم کر لی تھی۔
مجھے یقین ہے کہ عمر شیخ کو چند دنوں تک جبری ریٹائر کر دیاجائے گا اور پھر اس کے بعد وہی سی سی پی او کامیاب ہو گا جو پولیسنگ آف دی پولیس کی جھک نہیں مارے گا۔ جو جعلی پولیس مقابلے جاری رکھے گا۔ جو پولیس والوں کی ناکوں پر چھوٹی چھوٹی کمائیوں سے لے کر بڑی بڑی وارداتوں کو ان کا حق سمجھے گااور جو اس مائنڈ سیٹ سے بغاوت کرے گا اس کے خلاف کمیونٹی متحد ہوجائے گی۔ وہ اسے پاگل سمجھے گی ہی نہیں بلکہ پاگل ثابت بھی کر دے گی۔ یوں ظلم اور جبر کا یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا کیونکہ اس نظام کے محافظ بہت منظم ہیں، بہت شاطر ہیں، بہت تگڑے ہیں۔