فرائض کے بغیر حقوق کا تصورکسی بھی معاشرے میں ممکن نہیں، یعنی حق کے ساتھ فرض کی ادائیگی لازم وملزوم ہیں، ٹیکس وصول کرنا ہر حکومت (ریاست) کا حق ہے، مگر اس کے بدلے عوام (ٹیکس دہندہ) کو زندگی کی بنیادی و ضروری سہولیات مہیا کرنا بھی ہر ریاست کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ دور جدید میں ترقی یافتہ ممالک میں ہی نہیں ترقی پذیر ممالک میں بھی عوام بخوشی یا حکومتی جبر سے ٹیکس ادا کرتے ہیں تو حکومت انھیں، تعلیم، صحت، روزگار اور کاروبار وغیرہ کی مکمل سہولیات فراہم کرتی ہے۔
تعلیم و صحت تو تقریباً لازمی اور ہر طبقے کے لیے یکساں قرار دی جاتی ہے۔ مہذب معاشرے میں ہر بچے کو بنیادی تعلیم مفت اور لازمی مہیا کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے اور صحت کے معاملے میں بھی پہلے مریض کو ہر طرح کا تحفظ دینا بھی اس کی سہولت و حیثیت کے مطابق اخراجات کے بل وصول کرنا ہے یعنی انسانی زندگی کا تحفظ پہلے۔ اس تناظر میں جب ہم اپنے ملکی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو انتہائی مایوسی ہوتی ہے کہ صحت کے شعبے میں صورتحال بے حد تشویشناک ہے۔
آئے دن غلط تشخیص اور علاج کے باعث اموات اور معذور ہونے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے معمولی سے لے کر سنجیدہ آپریشن (موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا افراد کے) میں پہلے رقم وصول کرلی جاتی ہے پھر علاج، لاکھوں روپے ادا کرنے کے بعد بھی ورثا کو مریض کی میت تھما دی جاتی ہے بعض صورتوں میں تو معمولی مرض میں مبتلا اپنے قدموں سے چل کر اسپتال آنے والا غلط دوا یا انجکشن کے باعث منٹوں میں چٹ پٹ ہو جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
آئین پاکستان میں ابتدائی (پہلی تا میٹرک) معیاری تعلیم لازمی اور مفت ہر طبقے کے بچے کا بنیادی حق ہے، مگر عالم یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بھی تعلیم مفت نہیں، معیاری کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ ان دونوں شعبوں کی کارکردگی پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانیت منہ چھپانے پر مجبور ہے۔
موجودہ حکومت ملکی استحکام کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے، ہر خرابی کو گزشتہ حکمرانوں کے سر ڈال کر خود ہر ذمے داری سے بری ہوتی جا رہی ہے، مگر ملکی استحکام خاص کر معاشی استحکام کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ایک عام آدمی ہی نہیں ماہرین معاشیات کی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یعنی بلا کوئی بنیادی سہولت مہیا کیے، گزشتہ حکومتوں کے ڈسے ہوؤں کو ریلیف دیے بغیر ہر چیز پر ٹیکس اور شرح ٹیکس میں بے حد اضافہ کرنے کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔
پھر یہ سب کچھ غربت دور کرنے یا ملکی نظام درست کرنے کے لیے نہیں بلکہ قرض کا سود ادا کرنے کے لیے قوم کے ہر فرد کی جیب کاٹی جا رہی ہے، قرض کا محض سود ادا ہو نہیں پا رہا، مزید بے تحاشا قرض قوم پر لادا جا رہا ہے، عام شہری کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت تک میسر نہیں، پٹرول، کرایوں میں بے پناہ اضافے کے بعد تو امید بھی نہیں کی جاسکتی کہ فی الحال یہ سہولت عوام کو حاصل ہوسکے گی، حالانکہ یہ تمام وعدے انتخابات سے قبل ووٹر کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے شد و مد سے کیے گئے تھے مگر حکمران اور ان کے "ماہرین" شاید "وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے" کے پکے سچے قائل ہیں۔
حکومت کے رویے سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ووٹ دینے تک تمام افراد قوم کے بے حد معزز، محترم اور قابل احترام تھے مگر اقتدار حاصل ہوتے ہی 22 کروڑ افراد مجرم، چور، بے ایمان اور غداران وطن ہوگئے، صرف وہ چند افراد جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں سچے، لائق اور محب وطن ہیں، ان کی عقل، صلاحیت اور اپنے اپنے شعبوں میں مہارت کی مثال ملک تو کیا دنیا بھر میں کہیں ملنا مشکل ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ عوامی مفاد اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر بھی اقدام کیے جائیں گے عبث ہے۔ جب ہر شخص چور، ڈاکو بلکہ ملک دشمن ہو تو پھر ان کے لیے کچھ کرنا بھی غداری کے زمرے میں ہی آئے گا۔ ملکی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ حکومت عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں، عالمی اداروں کے علاوہ دوست ممالک سے بھی بڑی بڑی رقوم بطور قرض لی جا رہی ہیں اور ملک میں بھی مالیاتی ایمرجنسی کا نفاذ محسوس ہو رہا ہے جو گزشتہ حکومتوں کی لوٹ کھسوٹ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اداروں اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لوٹ رہے تھے (مگر عوام کو کچھ دے بھی رہے تھے) عام آدمی صورتحال سے بے خبر اپنی سرگرمیوں میں مست تھا۔ مگر اب لگتا ہے کہ پوری قوم کو صرف اپنی جمع پونجی جو اس نے اپنی خواہشات اور ضروریات کو نظرانداز کرکے اپنے بچوں کی تعلیم، شادی یا روزگار اور اپنے آخری وقت کو باآسانی بسر کرنے کے لیے ساری زندگی ترس ترس کر جمع کی تھی کو بچانے کے لالے پڑ رہے ہیں۔ بے چارہ ریڑھی والا جو ملک کے کسی طرح کے وسائل کو اپنے کام میں استعمال نہیں کرتا سوائے اس سڑک کے جو اس حال میں ہو کہ اکثر اس کی ریڑھی کسی ناہموار جگہ پر الٹ جائے اور اس پر جو سبزی ترکاری یا پھل ہے وہ میلوں پیدل چل کر گلا پھاڑ پھاڑ کر فروخت کرتا ہے وہ کسی گڑھے میں یا گندے پانی سے بھری سڑک پر پھیل جاتے ہیں۔
انھیں دوبارہ جمع کرکے صاف کرکے وہ جب دیکھتا ہے تو آدھے سے زیادہ مال خراب اور ناقابل استعمال ہوچکا ہوتا ہے اپنی جان پر کھیل کے گلی گلی پیدل چلچلاتی دھوپ اور کڑاکے کی سردی میں پورے دن کے بعد بمشکل سو پچاس روپے کماتا ہے جس میں بیمار ماں یا بچے کی دوا کے علاوہ کئی افراد کے کھانے کا بندوبست بھی کرتا ہے یہی نہیں ہم نے "جان پر کھیل" کر اس لیے لکھا کہ خود ہم نے کئی بار اوباش لڑکوں یا پولیس اہلکاروں کو اس سے زبردستی پھل یا اس کی دن بھر کی کمائی چھینتے دیکھتا ہے۔ فی الحال تو قومی مفاد میں ان کے لیے رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے، آگے دیکھیے کہ ان کے سو پچاس روپوں پر بھی کم ازکم دس فیصد ٹیکس نہ لگادیا جائے۔ حیرت ہے کہ ماہرین معاشیات کو کسی دانشور نے بھکاریوں، گداگروں پر ٹیکس عائد کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیا حالانکہ ان کے پاس سے تو خاصہ مال برآمد ہوسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں کیا خامی یا خوبی ہے؟ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سوال کرنے کا حق تو قوم کو دیا ہی نہیں گیا۔ اس قدر بدترین معاشی صورتحال اور دھڑا دھڑ جہاں جہاں سے ممکن ہو رہا ہے قرض لیا جا رہا ہے تو کیا قوم کو یہ حق نہیں کہ سوال کرے کہ آخر اتنا قرض کس مد میں خرچ ہو رہا ہے اور کن شرائط پر لیا جا رہا ہے؟ کیا ملک کو عالمی اداروں کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے؟ آیندہ ہماری خودمختاری اور آزادی کی صورتحال کیا ہوگی؟ جب قوم کے ہر فرد کو قرض کا صرف سود ادا کرنے کے لیے ہر شے پر ٹیکس اور ہر نشے کی قیمت میں ناقابل برداشت اضافے کا بوجھ اٹھانا ہے تو اس کو معلوم بھی ہونا چاہیے کہ وہ یہ سب برداشت تو کرلے مگر ملکی صورتحال کے بارے میں اور ان شرائط کے بارے میں اس کو آگاہ تو کیا جائے جن پر یہ قرض لیا جا رہا ہے۔
کیا ہم ایک بار پھر عالمی اداروں یا ترقی یافتہ ملکوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے جا رہے ہیں؟ جناب وزیر اعظم آپ جو بھی کریں قوم کو اعتماد میں لے کر ورنہ حالات بہت خطرناک ہوجائیں گے اگر قوم کا اعتماد مجروح ہوا تو۔ ۔ ۔ ۔ تاجروں اور صنعتکاروں کو اپنے مشورے میں شامل کیجیے، اگر یہ مایوس ہوئے تو لاکھ کوشش کے باوجود قومی معیشت کا پہیہ جام ہونے سے کوئی روک نہ سکے گا قرض سے نجات ممکن نہ ہوسکے گی۔ اپنے وسائل پر بھروسہ کیے بنا اور صنعتوں میں اضافے کے بغیر تجارت کا فروغ بھی ملکی معیشت کے لیے بے احد اہم ہے۔