اسپتالوں کی حالت زار سے ہر شخص واقف ہے چونکہ زندگی ہے تو بیماری بھی ہے، لیکن بیماری کو دور کرنے کے لیے دوائیں اور جدید مشینری سرے سے غائب، اس کے ساتھ ڈاکٹروں اور نرسوں کی ہڑتالیں، وہ لوگ بھی کیا کریں انھیں ان کی معقول تنخواہ اور بونس سے محروم رکھا جاتا ہے۔
علاج و معالجہ کے لیے صبح سے شام اور رات سے صبح تک اپنے فرائض انجام دیتے ہیں لیکن صلہ کچھ نہیں اور اب تو میل و فی میل ڈاکٹرز چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں، وہ بھی ایسے حالات میں جہاں ہر لمحہ جان کو خطرہ ہے اور بہت سے ڈاکٹرز اور نرسیں مریضوں کی خدمت کرتے کرتے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔
کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلا ہے بے شمار مریض علاج کے لیے اسپتال کے چکر لگاتے ہیں لیکن انھیں سہولتیں میسر نہیں، وینٹی لیٹرز خالی نہیں ہیں اور ان کی تعداد بھی کم ہے۔ ڈاکٹرز اپنی جان کی بازی لگا کر انھیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن موت زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
گزشتہ دنوں ہمیں بھی اسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے شوہر نامدار کا ایک چھوٹا سا آپریشن تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے بعد یہ پتا چلا کہ کوڈ 19 کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہے، رپورٹ آنے کے بعد ہی آپریشن کرنے کا فیصلہ ہوگا۔ لہٰذا ٹیسٹ کروانے کے لیے ایک لمبی لائن میں لگنا پڑا۔ جب کہ یہ ایک بڑا اسپتال تھا، بڑے اسپتالوں کی فیس 10، 12 ہزار سے 15 ہزار تک ہے۔ فیس تو بہرحال دینی ہی ہوتی ہے خواہ جتنی بھی ہو کیونکہ مجبوری ہے جب کہ ڈاکٹر اور کمرے کی فیس لاکھوں میں ادا کرنی ہوتی ہے۔
اگر مریض کا علاج کامیاب ہو جائے تو بڑی خوش نصیبی ہے اور اگر زندگی دغا دے گئی اور موت نے گلے لگا لیا، تب سرکار کے کھاتے میں، اسپتال والوں کی چاندی اور لواحقین کی بربادی لکھ دی جاتی ہے لاش اسی وقت ملتی ہے جب آپ ایک بہت بڑا بل ادا کرتے ہیں، اکثر اسپتالوں میں مرنے والے کو بے مقصد وینٹی لیٹر پر پڑا رہنے دیتے ہیں کہ شاید سانسیں لوٹ آئیں مصنوعی تنفس کو دیکھ کر گھر والوں کی آس بندھ جاتی ہے کہ شاید معجزہ ہو جائے اور دوسری دنیا میں جاتا ہوا شخص اسی دنیا میں لوٹ آئے لیکن ایسا اس وقت ہی ممکن ہے جب اسپتال کی انتظامیہ مخلص ہو۔ اور اللہ دعاؤں کو قبولیت کا درجہ عطا فرمادے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوڈ 19 نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو نگل لیا ہے ایک تو مریض کو امید و بیم میں مبتلا ہوکر اپنا ٹیسٹ کروانے کے لیے لمبی قطار کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ان خطرات سے بھی دوچار ہوتا ہے کہ کہیں دوسرے مریضوں کی بیماری اسے نہ لگ جائے چونکہ وہ تو محض شبے کی بنا پر ٹیسٹ کروا رہا ہے تاکہ پتا چل سکے کہ وہ صحت مند ہے یا نہیں، چونکہ ہمارے صاحبزادے محمد علی صدیقی نے بتایا کہ کورونا کے مریض اور صحت مند مریض ایک ہی لائن میں لگے نظر آتے ہیں کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئی ہیں اور وہ خود بے چارے بتانے پر مجبور ہیں کہ ہمیں کورونا ہے ہم سے دور رہیں۔
اسپتال والوں کی طرف سے مکمل آزادی ہے، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں یا نہیں یہ مریضوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے، گویا یہ غمزدہ اور پریشان حال لوگ پکنک منانے آئے ہیں اس کے ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ اپنی خاص حفاظت کے لیے جو ماسک خریدے جاتے ہیں ان کی قیمت 500، کسی دکان پر 800 اور کسی بڑے لٹیرے کے میڈیکل اسٹور پر 1800 سے ڈھائی ہزار تک ہے ان حالات میں بھی منافع کمانے کے لیے نئے نئے طریقے نکال لیتے ہیں اور سستی چیزیں مہنگی فروخت کرتے ہیں۔
ٹیسٹ کٹ اور کوڈ19 سے بچنے اور حفاظت کے لیے بہت سا سامان چین نے وافر مقدار میں اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کو عطیہ کیا تھا ٹیسٹ کٹ کی زیادہ سے زیادہ قیمت 4000 ہے لیکن تمام نجی اسپتالوں میں ڈبل قیمت وصول کی جا رہی ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔ غریب انسان ان دنوں سب سے زیادہ پریشان ہے اس کی نہ ماہانہ تنخواہ ہے اور نہ کوئی خاص روزگار۔ اگر چھوٹا موٹا کام کرکے یا اشیا ضروریہ فروخت کرکے کچھ پیسے کما بھی لیتے ہیں تو اس سے دال دلیے کا خرچ نکل آتا ہے ان تکلیف دہ حالات میں وہ پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ غلطی سے بھی نہیں کرسکتا، سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بہت بری ہے۔
لوگوں کی اتنی بڑی تعداد تو لنگر لوٹنے والوں کی بھی نہیں ہوتی ہے، یہاں کوئی پرسان حال نہیں ہے لمبی لمبی قطاریں بھگتنے والے صحت مند لوگ بھی کورونا کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں میں مساجد اور گشتی گاڑیوں کے ذریعے شعور پیدا کیا جائے لاؤڈ اسپیکر پر دن رات میں بار بار اعلانات کیے جائیں کہ جہاں بھی جائیں فاصلہ رکھیں ایک جگہ جمع نہ ہوں۔
گھر سے صرف ایک شخص نکلے اور اپنی ضرورت کے کام انجام دے کر فوراً لوٹ جائے اور کورونا ٹیسٹ کرنے کا طریقہ کار بدل دیں، یا تو گھروں میں آکر یا پھر روز پچاس افراد سے زیادہ کا ٹیسٹ کروانے پر پابندی لگائی جائے سب سے بہتر ہے گھروں میں رہیں، طہارت اور نماز کی پابندی کریں اور کثرت سے استغفار کی تسبیح اور اپنے رب سے گڑگڑا کر دعائیں کریں وہ رحیم ہے، جلدی سن لیتا ہے۔