یہ سری لنکا کا ساحلی شہر کالوترا تھا۔ کالوترا کولمبو کے بالکل نواح میں واقع ہے۔ ہم یہاں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے لیے سری لنکن پولیس کی سلیکشن کرنے آئے تھے۔ ہم نے سلیکشن کا کام مکمل کر لیا تھا اور آج شہر گھومنے کا ارادہ تھا۔ مقامی پولیس افسر ہمارے ساتھ تھے۔ شہر پھل دار درختوں سے یوں اٹا ہوا تھا کہ جنگل کا گماں ہوتا تھا۔ جن احباب نے اے حمید صاحب کو پڑھا ہے اور " بارش اور سماوار کی خوشبو " کو محسوس کیا ہے اُن کے لیے سری لنکا جانا بلا شبہ ایک " Dream Journey " ہے۔ کالوترا انناس، ناریل، کیلے اور پپیتے کے خوش رنگ درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ شہر ختم ہوا تو ہم دو اطراف پھیلے درختوں اور گہرے سبزے سے لطف اندوز ہو نے لگے۔ اچانک چھوٹی سے ایک سائیڈ روڈ سے ایک چھکڑا تیزی سے ہمارے سامنے آیا۔ ڈرائیور نے بڑی مشکل سے گاڑی کنٹرول کی۔
ہم نے دیکھا کہ ایک چالیس پینتالیس سالہ کمزور سا مر د انتہائی زخمی حالت میں چھکڑے میں لیٹا ہو ا ہے۔ اور پاس میں ایک بے حد ضعیف اور لاغر خاتون بیٹھی رو رہی تھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اُس بڑھیا کا بیٹا کسی اونچے درخت سے بہت بُری طرح نیچے گرا تھا اور اسے ریڑھ کی ہڈّی کی بہت شدید چوٹ آئی تھی۔ مریض کی گردن قدرے ٹیڑھی ہو گئی تھی اور سانس بہت مشکل سے آرہا تھا۔ لیکن میں نے جو بات نوٹ کی وہ یہ تھی کہ مریض کو ایسے دیکھ کر اُس کی ماں کی حالت اُس سے بھی زیادہ خراب لگ رہی تھی وہ ایک طرف کو لڑھکی پڑی تھی نظریں مسلسل بیٹے کے چہرے پر تھیں وہ انتہائی کرب کے عالم میں تھی کچھ بولنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی۔ مقامی دوستوں نے فوراً ایک گاڑی کا بندوبست کیا اور مریض اور اس کی ماں کو شفٹ کروا کے نزدیکی ہسپتال بھجوادیا۔ شام کو پتہ چلا کہ بیٹا ہسپتال پہنچنے سے پہلے فوت ہو گیا تھا اور بیٹے کے صدمے میں ماں ہسپتال پہنچ کر فوت ہو گئی۔
یہ قاہرہ (مصر) کی مشہور خانِ خاناں مارکیٹ تھی۔ سوونئیر اور مصنوعی زیور کے حوالے سے خانِ خاناں مارکیٹ کا شمار دنیا بھر کی صفِ اول کی مارکیٹوں میں ہو تا ہے۔ فراعینِ مصر کے زیرِ استعمال رہنے والی اشیاء اور آلات کے نمونے یہاں وافر ملتے ہیں۔ شام ہو رہی تھی۔ اُس وقت سیاحت کا بھر پور سیزن چل رہا تھا۔ سیاحوں کا بے پناہ رش تھا۔ خانِ خاناں مارکیٹ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ میں اس بازار کی شہرت سن کر یہاں کچھ سوونئیر خریدنے آیا تھا۔ یہ کوئی عام بازار نہیں تھا! یہ " بازارِ مصر " تھا۔ سیاحوں کے علاوہ یہاں کافی تعداد میں مقامی لوگ بھی موجود تھے۔۔ بازار مصر پہ آہستہ آہستہ اُترتی شام اب قدرے گہری ہو رہی تھی۔ دکانوں کے اندر باہر جلتے برقی قمقمے سورج کو مات دے رہے تھے۔ رش قابلِ برداشت اور بازار کی رونق عروج پر تھی۔ ایک گلی کے نکّڑ پہ میں نے دیکھا کہ ایک گوری بے تحاشہ روئی جا رہی تھی۔ وہ سخت بے چین اور مضطرب لگ رہی تھی۔ اس کے پاس رش لگا ہوا تھا۔
میں قریب گیا تو پتہ چلا کہ اُس کی بچی بازار میں کہیں گُم ہو گئی ہے اور کافی دیر سے نہیں مل رہی۔ بچی کی عُمر کوئی تین سال تھی اور وہ بازار کے بے ہنگم رش اور بھیڑ میں کہیں گُم ہوگئی تھی۔ یہ مارکیٹ ویسے بھی بھول بھلیّوں کی طرح ہے۔ چھوٹی چھوٹی لمبی گلیاں اور ان کے اندر مذید گلیاں۔۔ وہ بچی انہی بھول بھلیّوں میں کہیں کھو گئی تھی۔ اُس کی ماں ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔ اُس کا اضطراب پاس کھڑے لوگوں کو بھی بے حال کر رہا تھا۔ پھر اسی دوران غالباً کوئی مقامی سرکاری اہل کار اس بچی کو کہیں سے ڈھونڈ لایا اور لا کر ماں کے حوالے کر دیا۔ بچی کے ملنے پر ماں کی حالت دیدنی تھی۔ وہ جس دیوانگی کے عالم میں اسے بھینچتے ہوئے پیار کر رہی تھی لگتا تھا کہ مار ہی ڈالے گی۔
ترکی میں چھ سات دن قیام کے بعد آج واپسی تھی۔ ترکی میں اتنا مختصر قیام تو سیاح کا اشتیاق اور بھی بڑھا دیتا ہے۔ اگرچہ سیاحتی اعتبار سے مشہور تقریباً تمام جگہیں میں نے دیکھ لی تھیں لیکن ابھی مَن بالکل بھی نہیں بھرا تھا۔۔ استنبول میں ایک عجیب اپنائیت اور کشش ہے۔ یہاں پہ موجود تاریخ، تہذیب، قدیم و جدید کا امتزاج اور سب سے بڑھ کر ترک قوم کے مزاج میں بے مثل کشادگی اورمہمان نوازی۔۔ یہ سب آپ کو ادھر سے جانے نہیں دیتا۔ یہاں آنے والا واپس جانے کے بعد بھی ایک عرصہ اپنے آپ کو یہیں محسوس کر تا ہے۔ شام میں فلائیٹ تھی۔ سامان پیک کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ چیک آئوٹ کرنے کے بعد استنبول میں گھومتے گھماتے شام تک ائیر پورٹ پہنج جائوں گا۔ لیکن اسی دوران ایک مقامی دوست نے رابطہ کیا اور کہنے لگا کہ قریب میں ہی ایک بڑی یونیورسٹی کی آج سالانہ کانووکیشن ہے میرے ساتھ استقریب میں چلئے اور اس کے بعد میں آپ کو ائیر پورٹ چھوڑ دوں گا۔
میں نے حامی بھر لی۔ چیک آئوٹ کے بعد سامان استقبالیہ پر رکھوا دیا اور یونیورسٹی پہنچے۔ یہ ایک نہایت شاندار تقریب تھی۔ اس کی تفصیل یہاں مطلوب نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بعد سٹیج پر اس لڑکے کو بلا یا گیا جس نے ناصرف امسال یونیورسٹی میں ٹاپ کیا بلکہ گریڈاور سکور کے حوالے سے کئی سالہ ریکارڈ بھی توڑ دئیے تھے۔ پتہ چلا کہ یہ ایک لوئر مڈل کلاس فیملی کا بچہ تھا۔ والد عرصہ پہلے فوت ہو گیا تھا اور بیوہ والدہ نے اسے پال پوس کر یہاں تک پہنچایا تھا۔ لڑکے کے بعد اُس کی ماں کو بھی سٹیج پر بلا یا گیا۔ لڑکے کی والدہ سامنے آئی تو اس کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ اُس نے بیٹے کا ماتھا چُوما اور اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ اُس نے بولنے کی کوشش کی لیکن وہ بول نہ سکی۔ وہ بیٹے کی کامیابی اور اُس کی محبت میں بالکل مغلوب تھی اور لگتا تھا کہ ابھی چیخیں مارنے لگے گی۔
"A Tuft of Flowers" امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی شاہکار نظم ہے۔ اس میں وہ بتاتا ہے کہ وہ سیر کو نکلا تو اس نے دیکھا کہ مالی نے سارا گھاس کاٹ دیا ہے لیکن ندی کنارے کھِلے پھولوں کے ایک خوبصورت گُچھے کو نہیں کاٹا۔ شاعر دیکھتا ہے کہ ایک تتلی بھی بار بار اسی گچھے پر چکر لگا رہی ہے اور خود شاعر بھی ان پھولوں کی خوبصورتی سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ رابرٹ فراسٹ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہم بھلے علیحدہ علیحدہ رہیں لیکن فطرت سے پیار نے ہم سب کو اکٹھا کیا ہوا ہے۔ میرے خیال میں اولاد کی محبت بھی ایک Tuft of Flowers ہے جو ہر صاحبِ اولاد کے دل میں کھِلتا ہے اور اس میں رنگ، نسل، مذہب اور جغرافیہ کی کوئی قید نہیں۔ اولاد کی محبت کے لیے پوری کائنات ایک پیج، پر ہے۔