Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nasir Zaidi
  4. Ghalati Haye Ashaar

Ghalati Haye Ashaar

لیجئے جناب آپ کی پُرزور فرمائش پر "غلطی ہائے اشعار" کے ساتھ حاضر ہوں یہ وہ غلطیاں ہیں جو حال ہی میں مختلف اخبارات ورسائل وجرائد و کتب میں، نظر سے گزریں، میں نے بروقت اصلاح احوال یوں ضروری جانی کہ اگر کبھی فاضل مضمون نویس، کالم نگار یا مصنف اپنی تحریروں کو دوبارہ چھپوا ئیں تو درستی کرلیں ورنہ غلطی رہ جائے گی اور پھر ازالہ کون کرے گا کہ جزقیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار، والا معاملہ ہے۔

موقر روزنامہ "نوائے وقت" لاہور کی اشاعت جمعرات 11فروری 2016ء میں ایک فاضل کالم نویس جی این بٹ نے اپنے کالم "تاویل" کے ذیلی عنوان "مقبول بٹ سے افضل گروتک، شہادتوں کا سفر" میں ایک مشہور زمانہ شعر مقبول بٹ (شہید) کے حوالے سے اس تمہیدکے ساتھ درج کیا ہے کہ:

"سرسوں کے سبز اور پیلے پودوں نے بھی دار پہ کھنچے اس سربکف و سربلند گلاب کو بدلتے موسم کی سلامی دی اور اس کی شہادت پر شاعر نے نوحہ لکھا:

تو جُدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے

جبکہ یہ نوحہ کسی بھی شاعر نے متذکرہ شہید کے لئے نہیں لکھا بلکہ اخترحسین جعفری نے آزاد نظم کی صورت میں مشہور شاعر "پابلونرودا" کے لئے لکھا تھا اور یہ پہلی بار احمد ندیم قاسمی کے جریدے "فنون" میں چھپا۔ مقبول بٹ شہید کے لئے فاضل کالم نویس کے جذبات اپنی جگہ، اصل صورت احوال دنیائے ادب خصوصاً شاعری کی غلط بخشی کی درستی کے لئے بیان کرنا پڑی۔!

معروف قلمکار شاعر و ادیب سلطان کھاروی نے فون پر اپنی زیرمطالعہ کتاب "لاہور کے اہل قلم کا تذکرہ" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فاضل مولف ایم آر شاہد نے ایک مشہور شعرناول نویس و شاعر زیب ملیح آبادی کو بخش دیا ہے کہ:

میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

سلطان کھاروی صاحب کی تالیف قلب کے لئے یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں۔ اس غلط بخشی کی پکڑ میں بہت پہلے کرچکا ہوں کہ یہ شعر مشہور منفرد شاعر مصطفیٰ زیدی (مقتول) کا ہے۔ ایم آر شاہد کو مغالطہ ہوا یہ بھی بتاتا چلوں کہ مصطفیٰ زیدی قیام پاکستان سے قبل تیغ الہ آبادی ہوا کرتے تھے۔ انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا اور سی ایس پی افسر بننے کے بعد تیغ الہ آباد ی کا چولا اتار پھینکا اور اپنے اصل نام مصطفیٰ زیدی سے مقبول جہاں ہوئے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے حال ہی میں "منتخب کلام ذوق " کے نام سے ایک کتاب، پاکٹ سیریز میں شائع کی ہے، یہ انتخاب جناب جمیل یوسف کا مرہون منت ہے۔ کتاب کے صفحہ 59پر ایک بہت مشہور شعر اس طرح درج ہے:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے

جبکہ کتاب کے اندرونی فلیپ پر یہی شعر لفظ "پایا" کے ساتھ یوں درج ہے:

اب توگھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

کس کو صحیح سمجھا جائے "آیا " کہ "پایا"؟

ویسے تو میری تحقیق کے مطابق پایاہی درست ہے۔

روزنامہ "نوائے وقت " کی اشاعت جمعرات 14جنوری 2016ء کے "سرراہے" میں ایک اور مشہور زمانہ شعر اس طرح درج ہے:

وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

دراصل یہ شعر راولپنڈی کے ایک جواں مرگ شاعر محمد صدیق ضیاء کا ہے اور صحیح اس طرح ہے:

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی

ایک کتاب نظر سے گزری بعنوان "تمہاری تلاش میں" اس تصنیف لطیف کے مصنف ہیں ظفراللہ خان صنم وٹو (بی اے) اس سے قطع نظرکہ "صنم بھٹو" کی موجودگی میں "صنم وٹو" کیسے وجود میں آگئے؟ ان کی متذکرہ کتاب کے پہلے باب "تایا جی" میں صفحہ 8پر دو مشہور شعر اس طرح غالب کے نام سے شائع کئے گئے ہیں:

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

اور:

جان دے دی اسی کی تھی
حق جو تھا ہم ادا کر چلے

جبکہ پہلا شعر نا خدائے سخن میر تقی میر کا ہے۔ ثریا ملتانیکر کی آواز میں یہ غزل نہایت خوبصورت اندازمیں ریڈیو سے بہت زیادہ نشر بھی ہوتی رہی:

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

***

اور دوسرا شعر دراصل میرزا غالب کا ہے مگر متذکرہ غلط سلط انداز میں نہیں، صحیح یوں ہے:

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

***

مذکورہ کتاب کے صفحہ 35پر غالب کے ایک شعر کا اس طرح حلیہ بگاڑا گیا ہے:

ہم ہیں مشتاق وہ ہیں بے قرار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

جبکہ ہر عہد پر غالب میرزا اسداللہ خان غالبؔ کا صحیح شعر اس طرح ہے:

ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

اِسی کتاب کے سرورق کے آخر میں اپنی تصویر کے ساتھ فاضل مصنف صنم وٹو نے ساغر صدیقی کا ایک مشہور شعر اسطرح درج فرمایا ہے:

آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
کون کہتا ہے کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

جبکہ ساغر صدیقی کا صحیح مقطع اس طرح ہے:

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں

***

یہ مقطع دراصل ساغر نظامی کے اس مشہور زمانہ مقطع سے ٹکرا گیا ہے کہ:

لاؤ اک سجد کریں عالم بدمستی میں
لوگ کہتے ہیں ساغر کو خدا یاد نہیں

اور یہ طے شدہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ ساغرؔ نظامی کا مقطع "بادۂ مشرق" میں ساغر صدیقی کے مقطع سے برسوں پہلے مطبوعہ موجود ہے۔۔!

اسی کتاب کے صفحہ 27پر ایک شعر سجاد حیدر یلدرم کے نام سے اس شکل میں ملتا ہے:

کوئی اور آبنائے روزگار سے طلب نہیں
احسان جو مجھ پر نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا

فاضل مصنف محترم "صنم وٹو" نے متذکرہ شکل میں شعر کا پوری طرح دھڑن تختہ کردیا ہے، یہ صحیح شعر اس طرح ہے:

اور کوئی طلب اَبنائے زمانہ سے نہیں!
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

موقرادبی جریدے ماہنامہ "الحمرا" لاہور کے شمارہ دسمبر 2015ء میں اپنے استاد جناب جمیل یوسف کا تخلص لگا کر امجد اقبال بھٹی نے ایک شعر اس طرح چھپوایا:

جمیلؔ آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں

اسی شعر کو متذکرہ شکل میں سراہتے ہوئے الحمراء کے سالنامہ جنوری 2016ء میں محبوب عالم تھابل نے بھی غلط بخشی کو برقرار رکھا جبکہ یہ شعر دراصل جمیل نہیں جلیل تخلص کے حامل حضرت جلیل مانکپوری کا ہے اور صحیح اس طرح ہے:

جلیلؔ آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں