Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Jhooti Ghairat Ke Saat Maah

Jhooti Ghairat Ke Saat Maah

قوم بھول گئی، مگر واردات کے عادی حکمران نے پھر وہی طریقہ واردات آزمایا جو مارچ 2011 میں دو پاکستانی نوجوانوں نے قاتل امریکی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے حکمران "مثلث" نے کیا تھا۔ وہی پلاٹ، سکرپٹ، وہی اداکار اور وہی ڈراپ سین اب نیٹو سپلائی بحالی کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔

آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ریمنڈ ڈیوس نے جنوری کے آخری دنوں میں دن دیہارے قرطبہ چوک پر دو نوجوانوں کی زندگی سے کھیلا تھا تو پنجاب حکومت سے مرکزی حکومت اور مرکزی حوکومت سے مقتدر حلقوں تک ہر جگہ غیرت، حمیت اور قانون، ملکی خودمختاری اور قومی سلامتی ایسی اصطلاحات کی مالا جپنے کا عمل شروع ہوگیا۔

یہ سارا کالم اگرچہ مکمل طور پہ ڈرامہ تھا لیکن سکرپٹ لکھنے سے اداکاری کرنے والوں تک سبھی نے ایسے حقیقی انداز میں اپنا اپنا "پارٹ" کیا تھا کہ بالکل حقیقت کا رنگ غالب رہا۔ لیکن پھر یہ باتیں سامنے آنیں لگیں کہ ریمنڈ ڈیوس کے خلاف مقدمہ اور پراسیکیوشن میں خامیاں رہ گئی ہیں۔ یہ کہا جانے لگا کہ آخر ایک دن تو قاتل ریمنڈ دیوس کو چھوڑنا ہی ہوگا۔ کیوں نہ مقتولین کے لواحقین خون بہا کے زمرے میں کچھ لے لیں۔ غریبوں کے دن بدل جائیں گے اور زندگیاں سنور جائیں گی۔ آخر امریکہ سے کب تک لڑسکتے ہیں۔ یہ دلیل بھی آنے لگی کہ کیا یہ غیر معمولی بات نہیں کہ ریمنڈ کو اتنے دن جیل میں بند کرکے رکھا گیا۔ امریکہ کی ایک نہ سنی گئی اور پاکستان کے قانون کی بالادستی ثابت ہوگئی۔

لیکن پھر کیا ہوا، ایک دن خبر آئی کہ ریمنڈ کو رہا کر دیا گیا ہے اور ریمنڈ آناََ فاناََ یہ جا وہ جا ہوگیا۔

مقتول نوجوانوں کی چیخ و پکار، ان کے حق میں آواز بلند کرنے والی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی آواز پر ڈالروں کی جھنکار غالب آگئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی اسٹبلشمنٹ، مرکز کے حکمران اتحاد اور پنجاب حکومت کے درمیان ایک اندر کھاتے کی "انڈرسٹینڈنگ" تھی، اور بظاہر ہر کوئی ذمہ داری دوسرے پر ڈالتا رہا لیکن حقیقتاََ ہر ایک نے دوسرے کے لئے سہولت کاری کی تاکہ ریمنڈ ڈیوس "بہ آسائش" قید کاٹنے کے بعد "بہ حفاظت" واپس چلا جائے۔

اب بھی یہی ہوا، اب کی بار امریکیوں نے تین سویلین نوجوانوں کو نہیں بلکہ دو درجن سے زائد فوجی جوانوں کو سلالہ چیک پوسٹ پر زندگی سے محروم کیا تھا۔ 16 مارچ ہو ریمنڈ کو رہا کرنے پر اتفاق رکھنے والوں اور 2 مئی کو سانحہ ایبٹ آباد پر فوری تعریفی بیانات داغنے اور توصیفی مضامین رقم کرنے والوں نے قومی غیرت کا ایسا "کورس" شروع کیا کہ پوری قوم ورطہ حیرت ماور جوش غیرت میں نظر آئی۔ اس سارے عرسے کے دوران مرکز میں حکمران اتحاد، اسٹبلشمنٹ اور بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) پر مبنی حکمران مثلث اور "زنڈرسٹینڈنگ ٹرائکا" میں سے ہر ایک نے قوم کے سامنے نیٹو سپلائی بندش کا کریڈٹ لیا۔ خود کو ہمت اور حوصلے والا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ پارلیمان کی بالادستی کا حامی اور قوم کے جذبات کا حقیقی ترجمان ظاہر کرنے کا ڈھونگ رچایا تاکہ پارلیمان نے ایک مرتبہ پھر متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ گویا ایک مرتبہ پھر قوم کی امیدوں کا چمن مہکا اور خوشیوں کی بہار آئی۔ لیکن اس ماحول میں کوئی نہ جانتا تھا کہ انجام میں وہی ڈراؤنی حقیات اور وہی ذلت رسوائی ہاتھ آنے والی ہے۔

سات ماہ اسی جھوٹی غیرت کی تشہیر میں گزر گئے کہ جب تک امریکہ بہادر معافی مانگ کر ڈرون حملوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ میں ملوث جارح نیٹو فوجیوں کو قرار واقعی سزا نہیں دیتا نیٹو سپلائی بحال نہیں کی جاسکتی۔ گو کہ ان سات ماہ کے دوران بار ہا مزاکرات کا سلسلہ ٹوٹتا جڑتا رہا مگر اس قومی غیرت قومی سلامتی اور خود مختاری پر کوئی بھی مفاہمت نہ کرنے کا "واویلا" ایسا گونجا کہ ہر پاکستانی گمان کرنے لگا کہ پاکستان کی اولین ترجیح قومی سلامتی پر کوئی سودے بازی نہ کرنا ہوگا۔ سات ماہ کی جھوٹی غیرت پھر ایک دم دو خواتین امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے مابین ہونے والے "اتفاق" کی نزر ہوگئی۔ ہلری کلنٹن نے فون اٹھایا، حنا ربانی کھر نے سب کچھ بھلایا اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی حکومت بجلی سپلائی تو بحال نہ کرسکی مگر نیٹو سپلائی بحال کردی۔

امریکہ کی ہلکی پھلکی معزرت جس کا ریاستی سطح پر کوئی باضابطہ ریکارڈ موجود نہیں ہے، کے حوالے سے زبانی "ایجاب و قبول" ہوگیا۔ اس ایجاب و قبول کا اثر نہ ڈرون حملوں پر پڑسکے گا نہ پارلیمان کی قرارداد میں اٹھائے گئے کسی ایک بھی نقطے یا مطالبہ کے حوالے سے مثبت جواب کے طور پر سامنے آئے گا بلکہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی طرح نیٹو سپلائی کی بندش اور بحالی بھی ایک ایسے ماحول میں کی گئی ہے کہ میاں نواز شریف اسی طرح ملک سے باہر ہیں جیسے اتفاقاََ یا احتیاط کے طور پر اہم مسئلہ کے وقت وہ بیرون ملک ہوتے ہیں جبکہ اسٹبلشمنٹ اور جمہوریت پسند حکمران اس موضوع پر مکمل طور پر یوں "شیر و شکر" نظر آتے ہیں کہ جیسے ایک ہی سکے کے دو رخ ہوں۔ لیکن آفرین ہے اس قوم پہ کہ اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اس لئے اکثر کہا جاتا ہے کہ قوم بھول جاتی ہے اور اس کی اسی عادت نے حکمران طبقے کو ملکی اور عوامی مفادات سے کھیلنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ رویہ بدلے گا تو حقیقی تبدیلی آئے گی۔