"امن کے بغیر انصاف نہیں اور امن بغیر انصاف کے نہیں ہو سکتا ورنہ ناانصافی جاری و ساری رہے گی۔" مارٹن لوتھر کنگ۔ مجھے دھچکہ لگا۔ جب سنا کہ سفاک ازبک جنگجو عبدالرشید دوستم کو افغان فوج میں اعلیٰ ترین عہدہ "مارشل رینک"دیاگیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اشرف غنی نے یہ عہدہ کبھی نہیں دینا تھا اگر عبداللہ عبداللہ نے محاورتاً خنجر ان کی گردن پر نہ رکھا ہوتا۔ اشرف غنی پشتون ہیں لیکن مغربی اتحادیوں کے دباؤ میں ہیں۔ دباؤ یہ ہے کہ الیکشن نتائج سے تاجک گروپ کے ساتھ جو تنازع ہے اس حل کیا جائے۔ عبداللہ جانتے تھے کہ وہ ایوان صدر تک نہیں پہنچ سکتے لیکن انھیں یہ بھی علم ہے کہ امریکی افواج انخلاء کے لیے بیتاب ہیں، انھیں مضبوط اتحادی کی ضرورت ہے۔
اس شاطر جنگجو نے 1980 سے لے کر اب تک حیران کن طریقوں سے وفاداریاں بدلی ہیں، افغانستان کی سیاسی بساط پر موجود ہر مہرے کے ساتھ وفا بھی کی ہے اور جفا بھی۔ مغربی لکھاریوں کے نزدیک، دوستم ایک ایسی گتھی ہے جو آسانی سے سلجھائی نہیں جا سکتی۔ اسے مزار شریف اور افغانستان کی ازبک آبادی میں جو مقام حاصل ہے، وہ کسی اور کو نہیں لیکن اسے دیگر افغان قومیتوں میں اچھے القاب سے یاد نہیں کیا جاتا۔ 1980 میں اس نے روسیوں کے تعاون سے جوز جانی جنگجو تیار کیے تاکہ "انقلاب ثور" کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا جائے۔ ان میں شمالی ازبک، سید منصور ناوری کے کایان کے لڑاکے، جمعہ خان کے اندرابی اور جنرل عصمت مسلم کے اچکزئی جنگجو شامل تھے۔
’وطن پرستی، کی سیاسی اصطلاح سوویت کی ایجاد تھی تاکہ افغان جہادی جنگجوؤں کے خلاف جنگ کو جائز قرار دیا جا سکے۔ شروعات میں سے صرف یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ کابل اور سوویت یونین کے مابین اشیاء کی رسد پر نگاہ رکھیں اور مجاہدین کی جاسوسی کریں لیکن پھر اسے بتدریج جنگ میں جھونک دیا گیا۔ روسی طیارے دوستم اور اس کے جوز جانی جنگجوؤں کو جنگ زدہ علاقوں میں لے جایا کرتے۔ دوستم کے جنگجو اپنی بربریت اور لوٹ مار کا شہرہ رکھتے تھے۔ پشتون ان کو گلم جم (قالین چور) کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ لوٹ مار کرتے وقت کچھ نہیں چھوڑتے حتیٰ کہ قالین اور دریاں بھی لے اڑتے۔
جب سوویت فوجوں کا انخلاء ہوا تو دوستم کے پچاس ہزار تنخواہ دار جنگجو ڈاکٹر نجیب اللہ کے کابل میں محافظ بن گئے۔ ان کرائے کے جنگجوؤں کے تعداد سرکاری فوج اور ایئر فورس کے ارکان سے بھی زیادہ تھی۔
پشتون کمیونسٹ ’گلم جم، جنگجوؤں کو ناقابل اعتبار سمجھتے تھے اور ان کو ’غلام، جنگجو کہتے تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ پر زور ڈالا کہ وہ ان غلام جنگجوؤں سے ا ختیارات اور ہتھیار واپس لیں لیکن اس سے پہلے کہ ڈاکٹر نجیب کوئی قدم اٹھاتے، دوستم نے ایک شاطرانہ چال چلی۔ دوستم نے ایک ایسی ہتھیاروں کی کھیپ پر قبضہ کر لیا جو سوویت یونین سے کابل کو بھیجی گئی تھی۔ یوں اس نے اس نے روسیوں کے خلاف بھی علم بغاوت بلند کر دیا۔ کچھ عرصے کے بعد ہی ڈاکٹر نجیب کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ اسی دوران دوستم نے تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا گو کہ یہ زیادہ دیر چل نہ سکا۔
ڈاکٹر نجیب اللہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد، اقوام متحدہ نے ایک اتحادی حکومت تشکیل دی، جس میں اکثریت پشتونوں اور تاجکوں کی تھی۔ دوستم کو اس کا من پسند حصہ نہ دیا گیا جس سے اس کو شدید رنج ہوا۔ وہ اپنے جنگجوؤں کے ساتھ شمال میں واپس چلا گیا جہاں اس نے مزار شریف شہر کے اردگرد اپنی حکومت بنالی۔
جب کابل پر قبضہ کے لیے پشتونوں، تاجکوں اور ہزارہ جنگجوؤں کے درمیان دوبارہ رسہ کشی شروع ہوئی تو دوستم نے ہزارہ جنگجوؤں کا ساتھ دیا ا ور تاجک احمد شاہ مسعود اور پشتون گلبدین حکمت یار کا مقابلہ کیا لیکن پھر حیران کن طور پر، اس نے حکمت یار کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا اور کابل پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کا قتل عام بھی ہوا۔ ادھر دوستم نے روسیوں کے ساتھ اپنا تعلق برقرار رکھا۔ اس نے افغان جنگجوؤں کو تاجکستان سے دور رکھنے میں روس کی مدد کی اور ان کے غیر ملکی مددگاروں کو وسطی ایشیا تک رسائی سے روکا، یہ وفاداری نظریاتی نہیں تھی بلکہ دوستم نے منہ مانگی قیمت وصول کی۔
جب خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور طالبان ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھرے تو ان کا کابل پر قبضہ ناگزیر ہو گیا۔ ایسے میں دوستم نے احمد شاہ مسعود اور دیگر غیر پشتون جنگجوؤں کے ساتھ مل کر ’شمالی اتحاد، قائم کیا۔ ان کے قبضے میں شمال میں ایک چھوٹا سا علاقہ تھا لیکن شمالی اتحاد نے طالبان کا مقابلہ کیا حتیٰ کہ امریکا نے 2001 میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں دوستم ایک بار پھر خطے کی قوتوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ سی آئی اے نے دوستم سے مدد طلب کی۔ مفکر برائن گلین ولیمز، جو دوستم کے بارے لکھی گئی کتاب ’دی لاسٹ وار لارڈ، کے مصنف ہیں، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : "یہ وہی عظیم منگول جنگجو چنگیز خان کی نسل کے گھڑ سوار تھے جن کی مدد کے باعث امریکی فوج نے طالبان کے اقتدار کا اتختہ الٹ دیا تھا۔"
ادھر دوستم 1998 میں اپنی حکومت کے خاتمے کو نہیں بھولا تھا اور اس کے دل میں انتقام کی آگ بدستور سلگ رہی تھی۔ جیسے ہی طالبان کا اقتدار ختم ہوا، اس کو بہترین موقع مل گیا۔ اس کے جنگجوؤں نے مزار شریف کے باہر ’قلعہ جنگی، قیدی کمیپ میں محصور سیکڑوں طالبان کا قتل عام کیا۔ جو طالبان بچے، ان کو قندوز سے شبیر گان جیل منتقلی کے دوران بند کنٹینرز میں رکھا گیا جس کے باعث وہ دم گھٹنے سے مر گئے۔ ان کی لاشوں کو دشت لیلی میں اجتماعی قبریں کھود کر ٹھکانے لگا دیا گیا۔
جب اشرف غنی نے 2014 میں صدارت سنبھالی تو دوستم کو نائب صدر چن لیا گیا۔ دو سال بعد دوستم کے سیاسی مخالف ا حمد الیسچی نے ان پرالزام عائد کیا کہ دوستم اور ان کے گارڈز نے ان کو حبس بے جا میں رکھا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ الزام سنجیدہ نوعیت کا تھا جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سپریم کورٹ نے دوستم کو گھر میں نظر بند کرنے کا حکم دیا لیکن اس سے پہلے ہی دوستم ترکی فرار ہو گیا اور پناہ حاصل کرلی۔
دوستم کی چڑھتے سورج کو سلام کرنے کی روایت اور وفاداریاں بدلنے کی عادت ویسی ہی رہی۔ گو وہ اشرف غنی کے نائب صدر رہے لیکن 2018 کے انتخابات کے بعد ا س نے دوبارہ وفاداری تبدیلی کی اور عبداللہ عبداللہ کا اتحادی بنگیا اور اس کا انعام بھی ملا۔ اسے افغان فوج میں سب سے اعلیٰ مارشل رینک ملا۔ عبداللہ کو حکومت میں پچاس فیصد حصہ ملا لیکن طالبان سے امن معاہدہ کی کٹھن ذمے داری بھی ان کے کاندھوں پر آن پڑی۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ بین الافغان ڈائیلاگ میں دوستم کو اتنے اختیارات دینے سے مشکلات پیدا ہوں گی۔ دوستم پر جنگی جرائم، قتل عام، لوٹ مار اور ریپ کے سنگین الزامات ہیں۔ فوجی اعلیٰ عہدہ ملنے سے ان پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ جن لوگوں نے جرم کیا ہے ان کو سزا ملنی چاہیے کیونکہ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سینٹ آگسٹین کا مشہورمقولہ ہے، "غیر منصف کو سزا ملنا ہی انصاف ہے۔"