کراچی کے گنجان آباد علاقے میں ایک کئی منزلہ عمارت زمین بوس ہوتے ہوئے دو مزید عمارتوں کے گرنے کا سبب بنی جس میں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہمیشہ کی طرح ہوا مگر اس بار ایک نئی اور دکھ دینے والی افسوسناک بات یہ تھی کہ اس حادثے میں کئی گھرانے صفحہ ہستی سے مٹ گئے، ان خاندانوں میں یونیورسٹی کے ایک پروفیسرکا پورا خاندان بھی جاں بحق ہو گیا۔ حادثے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا، یہ سوالات میڈیا چیخ چیخ کر اٹھا رہا ہے۔
راقم نے نہ جانے کتنی بار اپنے کالموں میں کراچی شہرکے ان مسائل کی طرف توجہ دلائی مگر افسوس ہمارے ہاں جب تک کوئی بڑا حادثہ رونما نہ ہوجائے، اس پر بات ہی نہیں کی جاتی اور اگرکی جاتی ہے تو میڈیا پرکوئی نیا ایشو آتے ہی وہ معاملہ پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم اگرچاہتے ہیں کہ آئندہ ایسے حادثات نہ ہو تو ہمیں تفصیل سے اس مسئلے کے اسباب اورحل کی طرف غورکرنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے؟ جب ہم مسئلے پر غورکرتے ہیں تو اس میں تین بڑے کردار سامنے آتے ہیں۔ پہلاکردار ریاست یا حکمرانوں کا ہے کہ ان کی جانب سے عوام کو رہائش فراہم کرنے کے لیے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، حیرت انگیز طور پرکراچی جیسے شہر میں قیمتی زمینیں کوڑیوں کے مول بلڈرز اور تنظیموں وغیرہ کو دے دی گئیں مگرکبھی بے گھر عوام کو مفت زمین فراہم نہیں کی گئی نہ ہی کم قیمت پر یا قسطوں پر فراہم کی گئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس شہرکی قیمتی زمینوں کو مفت یا کوڑیوں کے مول خریدنے والوں نے عوام کو انتہائی مہنگے داموں مختلف اسکیموں اور پروجیکٹ کے تحت فروخت کرکے خوب دولت کمائی۔
اس عمل سے عوام کی اکثریت اپنا پلاٹ یا مکان نہیں خرید سکی بلکہ بلڈرز مافیا، ٹھیکیداروں اور اسٹیٹ ایجنٹس کی وجہ سے زمین کی قیمت دن بہ دن تیزی سے بڑھتی گئی اور حکومت کی کوتاہیوں کے باعث عوام بلڈرز، ٹھیکیداروں اور اسٹیٹ ایجنٹس مافیا کے رحم وکرم پر رہ گئے۔
اس مسئلے کا دوسرا کردار بلڈرز مافیا، ٹھیکیداروں اور اسٹیٹ ایجنٹس کا ہے۔ حکومت یا حکمرانوں کی جانب سے شہریوں کو رہائش کی سہولیات فراہم نہ کرنے کے باعث جو خلاء پید ا ہوا یعنی شہریوں کو ذاتی رہائش کی عدم فراہمی کے بڑھتے مسئلے کو ان کرداروں نے اس طرح حل کیا کہ شہرکے اندر اور باہر کی زمینیں قیمتی داموں شہریوں کو فروخت کیں، چھوٹے پلاٹس پرکئی کئی منزلہ رہائشی پروجیکٹس بنا کر مہنگے داموں فروخت کیے، اسی طرح ساٹھ گزکے چھوٹے گھروں پر بھی کئی کئی منزلیں بنا کر پورشن کے نام پر فروخت کیے گئے، عام لوگوں نے بھی جنکے پاس پیسہ تھا مکانوں کو چھوٹے چھوٹے ڈبوں کی طرح تقسیم کر کے منزلیں بنا کر کرائے پر دیدیں۔
اس مسئلے کا تیسرا کردار وہ سرکاری ادارے تھے، جن کا کام غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر ات کو روکنا تھا، مگر افسوس کہ ان اداروں میں بیٹھے افسروں نے رشوت کے عوض یہ خطرناک کھیل کھیلنے کی نہ صرف کھلی چھٹی دیدی بلکہ "چائنہ کٹنگ" جیسی اصطلاح بھی متعارف کرا کے عوام کو نقصان پہنچانے کا بھرپور انتظام کیا۔
آج جب تجاوزات کے نام پر عوام کے وہ مکانات گرائے جاتے ہیں جن کے کاغذات خود حکومتی اداروں کی جانب سے دیے گئے یا رشوت دیکر چھوٹے پلاٹس پر تعمیرکی گئی کثیر منزلہ عمارتیں جب گرتی ہیں تو ہر کردار اپنی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے دوسروں پر الزامات عائد کر دیتا ہے۔
اس مرتبہ بھی جب کئی منزلہ مکانات گرے اور خاندان کے خاندان ان میں دب کر جاں بحق ہوگئے تو کسی نے ذمے داری قبول کرنے کی زحمت نہیں کی نہ ہی کسی نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دیا۔ میئر کراچی نے بھی سارا الزام دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیا۔ بلدیاتی اداروں اور ان میں کام کرنیوالے راشی افسران خواہ ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو، بہرحال ان کے کردار سے کراچی شہرکا بیڑا غرق ہوگیا اور یہاں کے منتخب نمائندے اور تنظیمیں بھی مجرمانہ طور پر خاموش رہی یا پھر اس کھیل کا حصہ بن گئیں یہی وجہ ہے کہ وہ شہر جہاں بچوں کے کھیلنے کے لیے پارکس ہی نہیں، جگہ جگہ کھلے میدان ہوا کرتے تھے اب لینڈ مافیا کی نظر ہوگئے اور بچوں کے کھیلنے کے لیے میدان دستیاب نہیں چنانچہ اب ان مذکورہ بالا تینوں کرداروں کے باعث آج ایک انیس گریڈ کا ایماندار سرکاری افسر اس شہر میں مکان تو دورکی بات ساٹھ گزکا پلاٹ خرید نے کی مالی حیثیت بھی نہیں رکھتا اور بالآخر شہر میں قائم ایسے ہی غیر قانونی پورشن یا رہائشی یونٹ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے جوکسی وقت بھی زمین بوس ہوسکتے ہیں، حالیہ حادثے میں ایک پروفیسر اور ان کے خاندان کی ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کس طرح پاکستان کی ایک بڑی جامعہ کا پروفیسر ان تنگ گلیوں کے چھوٹے سے مکان میں اپنی زندگی گزار نے پر مجبور تھا۔
آج بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسے ہی غیر انسانی رہائشی مکانات میں اپنی زندگی گزار رہی ہے، ذرا کراچی شہر میں قائم موسیٰ کالونی اور نشتر بستی جا کر دیکھیں، گلیاں اس قدر تنگ کہ بیک وقت دو انسان ایک ساتھ گزر نہیں سکتے اور یہیں چار پانچ منزلوں تک مکانات تعمیرکرکے لوگوں کو کرایوں پر دیے گئے ہیں یا فروخت کیے گئے ہیں اور مڈل کلاس لوگوں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ یہاں زندگی گزار رہے ہیں باقی مڈل کلاس سے نیچے طبقے کا کیا حال ہوگا، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اب اس ساری کہانی بیان کرنے کے بعد اہم ترین سوال یہی اٹھتا ہے کہ ان سب کا حل کیا ہے؟ حل سیدھا سا ہے، یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں، اللہ کی زمین ہے اور ملک بھی اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے تو پھر بلاحجت جتنی بھی خالی زمینیں ہیں پہلی فرصت میں پلاٹ بنا کر بے گھروں میں تقسیم کیے جائیں۔ جو لوگ مکان تعمیرکرنے کی مالی حیثیت نہیں رکھتے، ان میں جو لوگ سرکاری ملازم ہوں، انھیں ان کے ادارے کی جانب سے مکان کی تعمیرکے لیے قرضے دیے جائیں، جو سرکاری ملازم نہیں ان کو حکومتی بینکوں سے قرضے دیے جائیں جو بلڈرز عوام کی مدد کو تیار ہوں، ان کو زمین اس شرط پر دی جائے کہ گراؤنڈ فلور بلڈرزکی ملکیت ہو اور فرسٹ فلور پر رہائشی یونٹس بنا کر بے گھر عوام کو دیے جائیں۔
اگر اس تجویز پر عمل کیا جاتا ہے تو اس سے ملکی معیشت کو بہت بڑا سہارا ملے گا کیونکہ جب بڑی تعداد میں لوگوں کو زمین مل جائے گی تو وہ اس پر تعمیرات کا کام شروع کریں گے، جس کے نتیجے میں مزدوروں کو توکام ملے گا ہی مگر اس عمل سے معاشی ایکٹیویٹی بڑھے گی یعنی رنگ، سمینٹ، سریا، بجلی وغیرہ کا جب سامان ان عمارتوں کی تعمیر میں شامل ہوگا تو ان کی فروخت بڑھے گی، یوں ایک ساتھ درجن بھر سے زائد صنعتیں پیداواری عمل میں مصروف ہوجائیں گی۔ یہاں کالم کی گنجائش کے مطابق مختصر بات کی گئی ہے ورنہ راقم نے اس حوالے سے بے شمارکالم لکھ کر مختلف تجاویز پیش کی تھیں، اگر اس قسم کی تجاویز پر سنجیدگی سے غورکیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان پر عمل نہ ہو اور شہریوں کو ان مسائل سے نجات مل سکے۔