تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کے مسئلے پر عام طور پر مسلمان قائدین دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ ایک وہ جو الگ ریاست کے قیام پر آکر رک گئے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، اور دوسرا وہ گروہ جو اس خیال کا مخالف تھا۔
قائد اعظم نے جب نہروکی رپورٹ کے جواب میں اپنے چودہ نکات پیش کیے تو یہ نکات بھی اس بات کو ظاہر کر رہے تھے کہ وہ کسی آزاد مسلم ریاست کو اپنی منزل نہیں سمجھتے بلکہ مسلمانوں کو بحیثیت ایک مسلم قوم تحفظ دینا چاہتے ہیں اور یہ تحفظ ہندو رہنماؤں کی ذہنیت کو مد نظر رکھتے ہوئے چاہتے ہیں۔ حالات و واقعات بھی قائد اعظم کی بات کو درست ثابت کر رہے تھے کہ معاملات کو انگریزوں کی موجودگی ہی میں طے کر لیا جائے تو بہتر ہے ورنہ مستقبل میں مسلمانوں کے حقوق کی کوئی ضمانت نہ ہوگی۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کانگریس کے ہندو رہنماؤں خاص کر جواہر لال نہرو کی ہٹ دھرمی، ہوشیاری یا سیاسی حکمت عملی کے سبب قائد اعظم سمیت مسلم لیگ کے رہنماؤں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب آزاد اور الگ ریاست ہی مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہو سکتی ہے، چنانچہ پاکستان کے قیام کی کوششیں تیزکی گئی۔
یوں مسلم لیگ کی منزل پاکستان قرار پائی مگر اس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر ہی تھی، یعنی یہ کہ مسلم قوم کے مستقبل کو ہندوؤں سے تحفظ دیا جائے خواہ وہ مسلم آزاد پاکستان میں ہوں یا بھارت میں آباد ہوں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ قائد اعظم اور ان کی ٹیم کا خیال تھا کہ پاکستان کا قیام ہی تمام مسلمانوں کے بہتر مستقبل اور ہندو مسلم تنازعات کا واحد حل ہے اور قیام پاکستان کے بعد دونوں طرف کے مسلمانوں کے بہتر مستقبل کا حل بھی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے ان علاقوں سے مسلم لیگ کو بھر پور تعاون ملا جہاں کے مسلمانوں کو پورا علم تھا کہ پاکستان کسی اور علاقوں پر مشتمل ہوگا۔ آج اگر ہم غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہندو قائدین کی ذہنیت قائد اعظم کی سوچ سے بھی زیادہ منفی تھی، جس کا اندازہ جناح بھی نہ کرسکے اور آج ہندوستان میں مسلمانوں کے بڑے بڑے احتجاج اس بات کی گواہی دے رہے ہیں، ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کا مستقبل محفوظ نہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ کے مخالف مسلمان قائدین کا بھی موقف بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کے مستقبل کو کیسے محفوظ بنایا جائے؟ یہ رہنما بھی برصغیر کے مسلمانوں کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے فکر مند تھے اور اس کے لیے کوشش کر رہے تھے، مگر ان کا خیال تھا کہ ایک الگ اور آزاد مسلم ریاست جس کا تصور مسلم لیگ نے دیا ہے، درست نہیں، کیونکہ اس عمل سے مستقبل میں مسلمانوں کو بحیثیت مسلم قوم کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ان رہنماؤں میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام سر فہرست آتا ہے، مولانا آزاد چونکہ کانگریسی ہندو رہنماؤں کے قریب تر تھے۔
ان کے دوستانہ مراسم بھی تھے، شاید اسی لیے یہ ہندوؤں کی ذہنیت زیادہ سمجھتے تھے، چنانچہ یہ آخر تک پاکستان کے قیام کی مخالفت کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ تقسیم مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہوگی، البتہ قیام پاکستان کے بعد مولانا آزاد سمیت تمام مخالف نظریات رکھنے والوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم کرکے اس کی مخالفت ترک کر دی اور مخالفت کو اس لڑکی کی شادی سے تشبیہ دے دی، جس کے بہتر مستقبل کے لیے گھر کا کوئی فرد مخالفت تو ضرورکرتا ہے مگر جب رشتہ ہو جائے اور رخصتی ہو جائے تو سب اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں، مخالفت کو ختم کر دیتے ہیں۔
بہرکیف پاکستان کے قیام کے حامی اور مخالفین مسلم رہنماؤں کے نظریات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا، دونوں رہنماؤں میں مشترکہ بات تو یہ تھی کہ یہاں کے مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ کیسے بنایا جائے؟ اور یہ مشترکہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں طرف " دو قومی نظریے " کو تسلیم کر لیا گیا تھا اور ان خدشات کو بھی تسلیم کر لیا گیا تھا کہ مسلمانوں کے مستقبل کو خطرہ ہے جس کو محفوظ بنانا وقت کی ضرورت ہے، مگر یہ تلخ حقائق ہیں کہ تقسیم کی لکیر ہی کے ساتھ دو قومی نظریے پر بھی لکیر پھیرگئی اور اب یہ دو قومی نظریہ صرف لکیر کے اس طرف یعنی بھارت میں ہے۔
بھارت میں رہنے والوں کو آج بھی اس دو قومی نظریے کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے، آج مقبوضہ کشمیر ہو، جامعہ ملیہ ہو یا علی گڑھ اور یو پی وغیرہ سب جگہ لگی ہوئی آگ میں مسلمان جل رہے ہیں اور آج بھی دو قومی نظریے کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیا سرحد کے اس طرف ( پاکستان میں ) دو قومی نظریہ ختم ہوگیا؟ قائد اعظم نے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو کمزور کرنے اور بے آسرا کرنے کے لیے الگ وطن حاصل تو نہیں کیا تھا پھر یہ کیا ہوا؟ یہ تو مولانا آزاد اور ان کے ہمنوا لوگوں کا خیال تھا کہ تقسیم سے مسلمانوں کی قوت بھی تقسیم ہو جائے گی اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمان کمزور ہو جائیں گے جب کہ قائد اعظم کا خیال تو یہ تھا کہ نہیں تقسیم سے مضبوط ہونگے۔
یہ تو اب ہمارا کام تھا کہ قائد کے نظرئیے کو عملاً درست قرار دیتے۔ تقسیم ہند یا قیام پاکستان کے بارے میں بہت سے لوگوں کے اور بھی نظریات ہیں کوئی کہتا ہے کہ یہ انگریزوں کی سازش تھی، کوئی کہتا ہے کہ اس خطے میں کیمونزم کے بڑھتے قدم کو روکنے کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ اس ریاست کے قیام سے اس خطرے کا مقابلہ کیا جائے گا، کوئی کہتا ہے کہ اس میں جاگیرداروں کا مفاد تھا کیونکہ تقسیم نہ ہوتی تو ان پرکاری ضرب پڑتی، کوئی اس کو اللہ کا تحفہ قرار دیتا ہے کہ اس کا قیام ستائیس رمضان کی مبارک رات کو ہوا وغیرہ وغیرہ۔
سبب کوئی بھی ہو بات یہ ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے چوٹی کے رہنما یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمانوں کے مستقبل کو اس لیے خطرہ ہے کہ یہاں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان آباد ہیں اور جدید طرز حکومت جو انگریز قائم کرنا چاہ رہے ہیں اس میں عددی برتری سب سے اہم ہوتی ہے۔ چنانچہ اس وقت تمام مسلمان رہنما دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہی اپنے، اپنے خیالات یا رائے کو مسلمانوں کے مستقبل کی بہتری کے لیے پیش کر رہے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا آزاد، قائد اعظم کا مشترکہ نظریہ دو قومی نظریہ یا مسلمانوں کا مفاد تھا۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دو نظریے کو پھر سے زندہ کیا جائے اور مظالم مقبوضہ کشمیر میں ہوں، جامعہ ملیہ میں یا یوپی وغیرہ میں، ان مظالم کے خلاف آواز بلندکی جائے یعنی آج ہمارا کوئی لیڈر انڈین ٹی وی کو انٹرویو دے تو بندے ما ترم نہ گنگنائے، بھارتی مسلمانوں کے مظالم پر بھی بات کرے، مشرف کے لیے ریلیاں نکالنے والے بھارتی مظالم پر بھی ریلی نکالیں، پاکستانی طلبہ، جامعہ ملیہ اور علی گڑھ جامعہ کے طلبہ پر تشدد کی مذمت کے لیے بھی جمع ہوں، موم بتی کے ذریعے "روشن خیالی" کی شمع روشن کرنے والے کچھ موم بتیاں ان مظالم کے لیے بھی روشن کریں۔