Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Talba Tanzeemein Aur Khadshaat

Talba Tanzeemein Aur Khadshaat

طلبہ تنظیموں کی بحالی کا اعلان سننے کے بعد رائے عامہ دوحصوں میں تقسیم نظر آئی۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ اس عمل سے

1۔ طلبہ کی سرگرمیاں مثبت انداز میں پروان چڑھیں گی۔

2۔ طلبہ میں شعور بڑھے گا۔

3۔ مطالعہ کا کلچر دوبارہ زندہ ہوگا۔

4۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر بھی پیدا ہوگا۔

5۔ انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت ختم ہوگی۔

6۔ طلبہ کے مسائل حل ہونگے۔

وغیرہ وغیرہ، دوسری جانب اس کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ وہی طلبہ تنظیمیں ہیں کہ جنھوں نے ماضی میں اپنے ہی طلبہ ساتھیوں پر تشددکرکے قتل و غارت کا بازار گرم کیا لہذا

1۔ فعال ہونے کے بعد طلبہ تنظیمیں پھر سے جلاؤ، گھیراؤ اور تشدد وقتل غارت گری کا ماحول پیدا کردیں گی۔

2۔ اس ماحول میں ایک ایماندار استادکا درس وتدریس جاری رکھنا مشکل تر ہوجائے گا۔

3۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ پر بھی دباؤ بڑھ جائے گا اور نظم وضبط متاثر ہوگا۔

4۔ دباؤکے باعث میرٹ کے برعکس دو نمبرکام شروع ہوجائیں گے۔

5۔ اسلحے کا کلچر، دوسرا جنم لے گا۔

6۔ مذہبی تنظیموں اور سیکولر تنظیموں میں ٹکراؤ کی کیفیت عروج پر پہنچ جائے گی۔

7۔ آئے دن جھگڑوں کے باعث تعلیمی ادارے امن وامان بحال ہونے تک بند ہوا کریں گے، جیساکہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

ایک غیر جانبدارانہ نظر ڈالی جائے تو دونوں قسم کی آراء میں وزن نظر آتا ہے یعنی یہ کہ ماضی میں جب تک طلبہ تنظیمیں آزاد تھیں، طلبہ میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان طلبہ تنظیموں سے بڑی تعداد میں لیڈرشپ ابھرکر سامنے آئی، جو آج اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے( یہ اور بات ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے ملک کے حالات انتہائی دگرگوں ہیں ) طلبہ تنظیموں پر پابندی لگنے کے بعد سے ان تعلیمی اداروں سے لیڈرشپ نکلنے کی روایت ختم ہوگئی اور دوسری جانب تعلیمی اداروں میں اب وہ سرگرمیاں بھی نہیں رہیں جوکبھی ان تعلیمی اداروں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں اور طلبہ کی دانش بڑھانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی تھیں۔

اسی طرح طلبہ تنظیموں کی نمایندگی ختم ہونے سے اس ملک کے لوئر مڈل اور مڈل کلاس کے طلبہ کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مثلاً سفرکی سہولیات بھی ختم ہوتی چلی گئیں ( یعنی بسوں میں اسٹوڈنٹ کارڈ کی رعایت اب ختم ہی ہوچکی، ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی میں بھی پوائنٹس کی تعداد ماضی کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہوگئی ہے جب کہ طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا )، فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔

جس وقت جامعہ کراچی میں ڈاکٹر عبد الوہاب نے بحیثیت شیخ الجامعہ ذمے داری سنبھالی تو ان کے کئی اقدامات تنقید کا نشانہ بنے۔ مثلاً انھوں نے جامعہ کراچی کے ہاسٹل ختم کرا کے وہاں کی غلط سرگرمیوں کا جڑ سے خاتمہ کیا مگر فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا، ایوننگ پروگرام شروع کرا کے طلبہ کو شام میں پڑھنے کی سہولت فراہم کی جس سے اساتذہ کی آمدنی کے مواقعے بڑھ گئے مگر دوسری طرف طلبہ اور اساتذہ نے اپنے حقوق کے لیے ان کے خلاف تحریک شروع کردی، جو بالٓاخر ان کو جامعہ سے ہی باہرکرکے ختم ہوئی۔

بہرکیف یہ ایک ماضی کی تاریخ ہے، اب حالات اورکلچر بہت تبدیل ہو چکا ہے، لہذا اب اس نئے عہد میں حکومت، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور طلبہ تنظیموں کو بہت کچھ سوچنا سمجھنا ہوگا خاص کر طلبہ تنظیموں کو، کیونکہ اگر آزادی کا ناجائز استعمال ہوا تو پھر دوبارہ یہ آزادی لپیٹ کر ایک طرف رکھی جاسکتی ہے۔ سب سے اہم بات تو امن وامان کی ہے، یہ تمام اسٹیک ہولڈرزکے لیے کڑا امتحان ہوگا کیونکہ کسی اختلاف کو اگر برداشت نہ کیا جائے اور ابتداء ہی میں ختم نہ کیا جائے تو پھر اس کا نتیجہ تشدد ہی نکلتا ہے۔

دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ طلبہ تنظیموں کو انتظامی معاملات سے دور رہنا چاہیے اورکبھی بھی شعبہ امتحانات کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ ماضی قریب میں یہ شکایات عام ہوگئی تھیں کہ طلبہ تنظیموں کے کرتا دھرتا شعبہ امتحانات میں اپنے اثر و رسوخ سے غلط کام کروا کے نہ صرف پیسے کماتے تھے بلکہ معصوم لوگوں کو دھوکہ بھی دیتے تھے، منہ کو لگا ہوا یہ خون صاف کرنا ہوگا۔ اسی طرح غیر اخلاقی سرگرمیوں سے بھی دور رہنا ہوگا۔ ماضی گواہ ہے کہ محض لڑکیوں کے چکر میں شروع ہونے والا فسادکئی کئی روز تک جاری رہتا تھا۔ اس قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں کی ایک فہرست ہے، جس کا ذکرکرنا یہاں مناسب نہیں۔

ہمارے ایک ساتھی جو برسوں سے یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں اورکافی دور اندیش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج تعلیمی اداروں کا مخلوط ماحول نظم وضبط قائم رکھنے میں اور بھی مشکل پیدا کر رہا ہے، کئی بڑے نامی گرامی نجی اسکولوں نے تو لڑکے اور لڑکیوں کے لیے اپنے کیمپس ہی علیحدہ علیحدہ کر لیے ہیں کیونکہ ان کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج ملک میں ہر طرف کرپشن کا کلچر اس قدر عام ہوگیا ہے کہ اگر یہ طلبہ تنظیمیں کام کرتی ہیں تو بھی یہ مشکل ہے کہ وہ خود کوکرپشن سے دور رکھ سکیں۔

مذکورہ بالا آراء مختلف اقسام کی ہیں پر یہ سب اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اور قابل غور ہیں۔ مثلاً راقم نے جس وقت ان تنظیموں کی بحالی کی خبر سنی، اسی دوران ایک سرکاری جامعہ میں غیر تدریسی ملازمین کی تنظیموں کے انتخابات کی مہم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ انتخابات گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کے لیے تھے مگر اس موقعے پر بیشتر تنظیموں نے اپنے جھنڈوں اور بینروں پر جس قدر پیسہ لگایا ہوا تھا وہ تصور سے باہر تھا۔

جب اس سلسلے میں معلومات کی گئیں تو پتہ چلا کہ ان میں زیادہ ترکے پس پشت ملک کے حکمراں جماعت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈنگ کی گئی تھی۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد دل میں یہ ہی خیال آرہا ہے کہ جس نے بھی طلبہ تنظیموں کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے درحقیقت "بھڑکے چھتے میں ہاتھ" ڈال دیا ہے اب یہ وقت بتائے گا کہ ان تنظیموں نے اس ہاتھ کو اظہار تشکر سے چوما ہے یا زخمی کیا ہے۔