انسانی زندگی میں نظریات وعقائد بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور یہی مل کر اس کے فلسفہ حیات کو جنم دیتے ہیں، پھر جیسا فلسفہ حیات ہوتا ہے، اس سے ویسا ہی علم نکلتا ہے اور وہ علم معاشرے میں پھیلتا ہے اور معاشرے کے لوگوں کا اس علم پر مکمل ایمان ہوتا ہے۔ پھر جب علم سے پروڈکشن نکلتی ہے تو وہ کلچر کا حصہ بن جاتی ہے، یوں کسی معاشرے کی مادی ترقی بھی اس معاشرے کے نظریات سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔
آج مغرب میں ہونے والی مادی ترقی کے پس پشت بھی ان کے نظریات ہیں، سترہویں صدی کے بعد جن نظریات کو مغرب نے اپنایا، اس کے مطابق ہی نئے علوم کی بنیاد ڈالی پھر ان علوم سے ہی وہ پروڈکشن سامنے آئی جس سے مغرب نے وہ مادی ترقی حاصل کی جو تاریخ میں کسی اور تہذیب نے نہیں کی پھر ان نظریات اور ترقی سے وہ کلچر بھی سامنے آیا جوگزشتہ تمام تہذیبوں سے مختلف ہے۔
مغرب کی اس ترقی سے دیگر تمام قومیں بے حد متاثر ہوئیں اور انھوں نے اس ترقی کو رول ماڈل بنا کر اپنا "ٹارگٹ" بنا لیا یعنی اس کو اپنی منزل قرار دے دیا ہے اور اب اس منزل کو حاصل کرنے کی جستجو میں سب تیزی سے دوڑ رہے ہیں۔
بظاہر یہ بات دل کو لگتی ہے کہ جن اقوام نے آج مادی ترقی کرکے دنیا میں اونچا مقام حاصل کر لیا ہے، ہمیں بھی ویسی ہی ترقی کر کے وہ مقام حاصل کرنا چاہیے مگر ہم میں سے اکثر یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ مادی ترقی کا یہ مقام یونہی نہیں ملتا، یہ ایک پروسس کے تحت ممکن ہوتا ہے جس میں سب سے پہلے نظریات تبدیل کرنا ہوتے ہیں، مغرب نے سب سے پہلے اپنے پرانے نظریات سے چھٹکارا حاصل کیا۔ یہ پرانے نظریات کیا تھے اور نئے نظریات کیا ہیں؟ آئیے اس کا ایک مختصر جائزہ لیں۔
سترہویں صدی تک مغرب سمیت پوری دنیا کی تہذیبیں اپنے اپنے فلسفہ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کے اصول طے کرتی تھیں، جن میں سب سے بڑا اور نمایاں اصول will of God کی ہدایت کو حتمی ماننا تھا، اس میں انسانی مرضی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یعنی انسان اپنے عقائد کے تحت خدا کے دیے گئے اصولوں کو اپنی مرضی سے بدل نہیں سکتا تھا ( خواہ وہ خدا کا جو بھی تصور رکھتا ہو۔ ) سترہویں صدی کے بعد مغرب میں یہ تصور تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوا اور پھر رفتہ رفتہ will of God کی جگہ ایک نئے تصور will of Humen نے لے لی۔
اس تصورکے تحت انسان زندگی گزارے نے کے لیے خدا کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی سے فیصلے کرسکتا ہے گویا خدا کے فیصلوں کو چیلنج کرسکتا ہے۔ مغرب میں اس سے ملتا جلتا ایک اور تصور اس وقت سامنے آیا جب ایک پادری مارٹن لوتھر نے ایک نئے عیسائی فرقے پروٹسٹنٹ کا وہ تصور پیش کیا جو تاریخ انسانی میں کسی مذہبی فرقے نے نہیں پیش کیا۔
اس کا اہم ترین یا منفرد نکتہ تھا کہ دنیا کی کامیابی کا مطلب آخرت کی کامیابی ہے۔ اس نظریے سے قبل دنیا میں کبھی کسی فرقے نے یہ بات نہیں کہی کہ جس نے دنیا کو جنت بنا لیا اس کی آخرت بھی اچھی ہوگی بلکہ سب نے یہی درس دیا کہ دنیا کو سادگی سے سفرکی طرح گزارو، تو آخرت اچھی ہوگی۔ چنانچہ زندگی گزارنے کے فلسفہ میں اس بڑی اور بنیادی تبدیلی سے سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ معاشرے کو یہ نظریاتی پیغام مل گیا کہ دنیا کو حاصل کرنے کی جدوجہد کروں، اس کو جنت بنالوگے تو آخرت میں بھی جنت ملے گی۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان نظریات کے مطابق نئے علوم بھی پروان چڑھنے لگے جن سے دینا کو جنت بنایا جا سکتا تھے یعنی سائنسی علوم کو فروغ حاصل ہونے لگا اور پورا معاشرہ اپنی اپنی دنیا کو جنت بنانے کی کوششوں میں لگ گیا یوں مادہ پرستی کو فروغ حاصل ہونے لگا اور لوگ آخرت کی تیاری کرنے کے بجائے دنیا حاصل کرنے میں لگ گئے۔
یوں ہرکوئی دن رات صرف اور صرف دولت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے لگا جس سے صنعتی انقلاب بھی ظہور پذیر ہوا اور سرمایہ داری بھی زور پکڑ نے لگی۔ ہر فرد چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح دولت حاصل کی جائے چنانچہ ہرکوئی اپنی ساری کی ساری توانائی دن رات دنیا حاصل کرنے کے لیے صرف کرتا، یوں کسی کی کوشش سے آواز یا تصویر ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک بغیر تارپہنچی تو کسی نے اس عمل کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے تحقیق اورکوشش کی، کسی نے اس ایجاد کو مارکیٹ میں لاکر پیسہ کمانے کی کو شش کی۔
غرض صرف دنیا کو تیزی سے مادی ترقی کی طرف لے جانے کے نہ صرف راستے کھل گئے بلکہ مختلف نظریات بھی ساتھ ساتھ منظر عام پر ایسے ہی آرہے تھے کہ جن سے مذہب محض چاردیواری میں محدود ہورہا تھا اور دنیا پرستی کو فروغ حا صل ہو رہا تھا، مثلاً آئزیا برلن کا لبرٹی (آزادی ) کا تصور جس کے تحت ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عمل کا تصور ’خیر، یا ’شر، خود طے کرے۔
یعنی اس تصورکے تحت ہر فرد کو خدا کا درجہ حاصل ہوگیا، یوں ایک شخص شراب، نائٹ کلب کے کاروبار کرنے یا یہاں وقت گزار نے کوگناہ تصور نہیں کرتا تو اس کو یہ حق اور آزادی ہے لیکن کوئی پادری یہ کہے کہ یہ سب مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے اس عمل کو ریاست کے اندر بند کر دیا جائے تو اس پادری کو ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا بلکہ اسے صرف یہ آزادی ہوگی کہ وہ اگر اس عمل کو غلط یا گناہ تصور کرتا ہے توعمل نہ کرے۔
یوں ان نظریات کے تحت مذہبی تعلیمات ریاستی نظم و ضبط یا قانون کا حصہ نہیں بن سکتیں۔ یہی وہ بنیادی بات ہے کہ جس نے مغرب کو موجودہ ترقی کے مقام پر لا کھڑا کیا لیکن چونکہ اس کی بنیاد لادینی نظریات تھے چنانچہ اس ترقی کے ساتھ لادینی کلچر بھی نمودار ہوگیا اور معاشرے پر چھا گیا، یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں کبھی کیسینو، شراب خانے، نائٹ کلب، ڈے کئیر سینٹر، اولڈ ہاوسز، نفسیاتی کلینک اور پاگل خانوں کا وجود نہیں رہا، یہ تمام اور مغرب کی موجودہ ترقی لازم ملزوم ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ترقی حاصل کرلی جائے مگر معاشرے میں سودی کاروبار، کیسینو، شراب خانے، نائٹ کلب، ڈے کئیر سینٹر، اولڈ ہاوسز، نفسیاتی کلینک اور پاگل خانوں کا وجود نہ ہو۔
ایک مغربی مفکر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جہاں مغربی ٹیکنالوجی جاتی ہے وہاں مغربی کلچر بھی جاتا ہے ایسا نہ ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی جائے اورکلچر نہ جائے۔ آج جب پاکستان میں بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون نظر آتا ہے اور پھر میڈیا پر یہ خبر آتی ہے کہ فحش مواد دیکھنے والے ملکوں میں پاکستان کا شمار ’ ٹاپ تھری، ممالک میں ہوتا ہے تو اس مصنف کی بات بہت وزنی اور درست لگتی ہے۔ آئیے! ترقی کے اور نظریات کے اس تعلق پر کچھ دیر کے لیے غورکریں۔